غربت کا خاتمہ اِسی سال

903

آپ کو آئے یا نہ آئے لیکن  ہمیں یقین ہے کہ غربت کا خاتمہ اسی سال ہونے والا ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، لیکن حد سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اس کا واضح ثبوت ہے کہ غربت اسی سا ل کوچ  کر جائے گی۔ ہمیں یہ باتیں جس شخصیت نے بتائی ہیں وہ  ملک کے ایک  ماہر مویشیات ہیں۔ ہم ان کا نام اس لئے نہیں لے سکتے کہ انہوں نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر یہ معلومات فراہم کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کل اسٹیبلشمنٹ کوجس ٹیکنو کریٹ کا پتا چلتا ہے اسے زبردستی کابینہ میں شامل  کر لیتی ہے۔ وہ احتیاطا ً ابھی ظاہر نہیں ہونا چاہتے۔ ہمارے اس سوال کے جواب میں کہ وہ تو ماہر مویشیات ہیں۔ مہنگائی اور غربت کے بارے میں وہ کوئی بھی بات یقین سے کیسے کہ سکتے ہیں۔ فرمایا یہ آئی ایم ایف کا چکر ہے۔

مہنگائی اور غربت در اصل معاشیات کا موضوع ہے ہی نہیں۔ اس کا علم پاکستان میں صرف اور صرف ماہر مویشیات کو ہو سکتا ہے۔ ہمارے سوالوں کے جواب میں انہوں نے جو راز کھولے ان سے ہمیں تو یقین ہو گیا ہے کہ غربت اور مہنگائی کا معاشیات سے کوئی تعلق نہیں۔ ماہرین معاشیات کا تو ان باتوں سے دور دور کا واسطہ نہیں۔ یہ موضوع سراسر علم مویشیات کا ہے یا کسی حد تک سیاسیات کا۔

فرمایا اول تو یہ سوچئے کہ ماہر معاشیات غربت اور مہنگائی پر کھل کر بات کیوں نہیں کرتے؟ کوئی استعفی دے کر بھاگ جاتا ہے؟  کوئی  لندن کی سڑ کیں چھاپ رہا ہے؟ اس لئے کہ ان کو پتا ہے یہ ان کا کام نہیں۔ یہ کام سیاست دانوں کا ہے۔ ماہرین معاشیات اکثر انگریزی دان ہیں ۔ اس لئے پروگراموں کے نام انگریزی میں رکھتے ہیں۔ بیو کریسی کو کہا جاتا ہے کہ اسے اردو کردیں۔ وہ شیخ گوگل سے ترجمہ کراتے ہیں۔ شیخ گوگل اردو کو عربی زبان کی رشتہ دار سمجھتے ہیں اس لئے ترجمے میں عربی الفاظ ڈال دیتے ہیں۔ پاکستانی عربی زبان کو مقدس سمجھتے ہیں اس لئے اس میں کسی تبدیلی کے قائل نہیں۔ نام انگریزی ہو اور ترجمہ عربی اور زبان اردو ہو تو افرا تفری تو رہے گی نا۔ اب لفظ غریب کو لے لیں۔ لفظ عربی زبان سے لیا ہے مطلب اردو میں بیان کیا جاتا ہے؟ عربی میں غریب پردیسی کو کہتے ہیں۔ پولیس کسی کو پکڑ لے کہ یہاں  پیشاب کیوں کر رہاتھا، اشارہ کیوں توڑا؟ وہ فوراً گڑگڑانے لگتا ہے کہ میں غریب آدمی ہوں۔ آپ بھی کہیں گے کہ قانون شکنی کا غربت سے کیا تعلق؟ لیکن پولیس والا سمجھتا ہے کہ وہ غربت کا واسطہ کیوں دے رہا ہے۔ پاکستان میں غریب کا مطلب  رعایا یا عوام ہے۔ عربی میں عوام کالانعام  ہوتے ہیں جنہیں سرکاری اردو میں مویشی اور غیر سرکاری میں ڈھور ڈنگر۔ مویشیوں کا علم ماہر معاشیات کو ہوگا کہ ماہر مویشیات کو؟۔ بندہ خود کو غریب کہہ کر پولیس کے مرتبے اور مقام کو اور اپنی اوقات کو تسلیم کر کے  قانون شکنی کا جواز اوراپنی جہالت کا اعتراف کر رہا ہوتا ہے۔  پولیس والا بھی درگذر کر دیتا ہے۔اب آپ ہی بتائیں اس افراتفری کو ماہر معاشیات  کیسے سمجھ سکتا ہے۔

مہنگائی اور غربت در اصل معاشیات کا موضوع ہے ہی نہیں۔ اس کا علم پاکستان میں صرف اور صرف ماہر مویشیات کو ہو سکتا ہے۔ ہمارے سوالوں کے جواب میں انہوں نے جو راز کھولے ان سے ہمیں تو یقین ہو گیا ہے کہ غربت اور مہنگائی کا معاشیات سے کوئی تعلق نہیں۔ ماہرین معاشیات کا تو ان باتوں سے دور دور کا واسطہ نہیں۔ یہ موضوع سراسر علم مویشیات کا ہے یا کسی حد تک سیاسیات کا

بھارت نے غربت کے خاتمے کے لئے غربت  کو گریبی کا دیسی نام دیا۔ گریبی ہٹاو کا نعرہ لگایا تو۔ گریبی ہٹی یا نہیں، لیکن لوگوں کے دل پسیج گئے۔ ایک چائے بیچنے والے کو ملک سنبھا لا اور سب گریبی ہٹانے میں جٹ گئے۔ گریب پارٹیاں حکومت میں آگئیں اور گریبانہ پروگرام  شروع ہو گئے، گریبانہ لباس کا رواج ہو گیا۔ نتیجہ یہ تھا کہ جو حکومت میں آیا اس  کی گریبی ختم ہو گئی اور گریبی ہٹاو مہم  بھی۔

پاکستان نے گریبی ہٹاو کو  پاورٹی ایلیویشن کا نام دیا۔ شیخ گوگل نے تخفیف غربت ترجمہ کیا۔ دونوں لفظ عربی ہیں۔ دونوں پاکستانیوں کی    سمجھ  سے باہر لیکن برکت کے لئے قبول کر لیا۔ مشکل یہ پیش آئی  کہ ماہرین معاشیات نے بتا یا کہ تخفیف غربت ایک خط کا نام ہے جو پاکستان میں غربت کا محل وقوع اور غریبوں کی جگہ کا تعین  کرتا ہے۔ یہ اعلان اقتصادیات کے ماہرین کرتے ہیں۔ اکثر پاکستانی دبئی اور دوسرے عرب ملکوں میں جاتے رہتے ہیں۔ ان ملکوں میں سارا سال سیل رہتی ہے۔ وہاں سیل کے لئے  دو لفظ بہت عام ہیں: تنزیل اور تخفیف۔  پاکستان میں اس کے لئے سستا یا ڈسکاونٹ یا لوٹ سیل کے لفظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ ایک تو تخفیف اور اوپر سے خط تخفیف اور وہ بھی غربت کا۔ دبئی پلٹ پاکستانی بھی سمجھ نہیں پارہے کہ اس تخفیف کا تعلق غربت کی سیل سے ہے یا غریبوں کی سیل سے۔ اور یہ خط غربت پاکستان کے اندر ہے یا باہر یا اس کے ارد گرد۔

دیسی پاکستانی تو شرح خواندگی میں کمی کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں۔ دبئی پلٹ غریب جانتے ہیں کہ شروع میں پاکستان میں غریبوں کی تعداد کم کرنے کے لئے انہیں پردیس بھیجا گیا تھا کہ غربت کا خاتمہ ہو۔ پہلے پہلے پاکستانی عرب دیسوں میں گئے تو بہت خوش تھے کہ امیر دولت  والے کو نہیں حکومت والے کو کہتے ہیں۔ حکومت کو دولت یا مملکت کہتے ہیں۔ انہوں نے سبق سیکھا کہ امیر بننے کے لئے دولت اور دولت کے لئے حکومت درکار ہے۔ جو پاکستانی زیادہ سمجھدار تھے انہوں نے جلد بھانپ لیا کہ عربوں کی ترقی کا راز اقامہ ہے۔ انہوں نے اس ترقی کو استحکام  دولت کو موروثی بناکر حاصل کیا ہے۔ جمہوریت میں پارٹی اور الیکشن پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ وہ پاکستان میں اس عزم کے ساتھ واپس آئے کہ اس کی قسمت بدل دیں گے۔ ورنہ کم از کم اپنی قسمت تو بدل ہی لیں گے۔ ورنہ واپس  آجائیں گے۔ اس لیے اقامے سمیت واپس آئے۔

دبئی پلٹ پاکستانیوں  کے اقامے کام آئے۔ دولت کی ریل پیل ہوگئی۔ ریاست دولت میں تبدیل ہوتی گئی۔ سیاست کے ذریعے دولت کمانے کے لئے مستقل طور پر سیاست اور حکومت میں رہنا ضروری تھا۔ دولت کی عربی صفت اس کا ہرجائی ہونا  ہے۔ بہت جلد ایک سے دوسرے کے پاس چلی جاتی ہے۔ اس بے حیائی کو روکنے کے لئے اس کو خاندانی اقدار کا پابند بنانا ضروری ہے۔ اس کے لئے ریاست، حکومت، دولت، الیکشن، جمہوریت اور پارٹی سب کو موروثی بنانا لازمی ہے۔ اس کے لئے جمہوریت کو حبالہ عقد میں لانے کی ضرورت تھی۔ یوں  پاکستان کی قسمت بدل گئی۔

ہم نے اس بیانیے پر اعتراضات اٹھائے تو ماہر مویشیات نے راز کھولا کہ پاکستان زرعی ملک ہے۔ یہ پٹرول پر نہیں چلتا۔ پاکستان کو شروع میں مملکت کا نام دیا گیا۔ لیکن جلد ہی پتا چلا کہ یہاں ملک اکثر زمیندار ہوتے ہیں۔ بادشاہ اور شہنشاہ کو ملک نہیں کہا جاسکتا۔ پاکستان کے ملک انگریزوں کے زمانے سے رئیس کہلانا پسند کرتے ہیں۔ اس لئے پاکستان مملکت کی بجائے ریاست کہلایا۔ ملک اپنی ذات سے ملک اور رئیس ہوتے ہیں۔ ان کی یہ حیثیت موروثی ہے، کسی الیکشن کی محتاج نہیں۔ چنانچہ سیاست کو موروثی بنانے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ زرعی ملک کی معاشیات کا تعلق براہ راست  فصلوں اور مویشیوں سے ہوتاہے۔ مویشیوں کو مال مویشی کہتے ہیں۔ زرعی دنیا میں  دولت، وقت اور موسم سب فصل سے جڑے ہوتے ہیں۔ فصل پیداوار کا نام بھی تھا اور ریاست سے واسطے کا بھی۔ زرعی ملکوں میں سیاسیات کا تعلق بھی جانوروں اور مویشیوں سے ہوتا ہے۔ عربی میں سیاست  گھوڑا سدھانے کو کہتے ہیں۔ حاکم کو راعی یعنی چرواہا اور محکوم کو رعایا یعنی بھیڑ اور اونٹ کہا جاتا تھا۔ پاکستان زرعی ملک ہے اس لئے یہاں راعی چرواہا نہیں ہوتا زمیندار، وڈیرا، سردار اور سائیں یا مالک کہلاتا ہے۔ کسان، غریب  گائے، بھینس، مال مویشہی سب رعایا ہوتے ہیں۔ یہ شہر سے پرے رہتے ہیں۔ جانوروں کے ساتھ رہنے والے انسانوں اور مویشیوں میں بہت زیادہ  فرق نہیں ہوتا۔ یہ بستیاں گاوں اور وہاں رہنے والے گنوار یا گاودی کہلاتے ہیں۔ زرعی زندگی میں انسان اور مویشی کا کھانا پینا جینا مرنا سونا جاگنا اکٹھا ہوتا ہے۔ پرانے زمانوں میں  زمین اور کھیت بکتے تو مویشیوں کے ساتھ غریب کسانوں کو بھی نئے مالک مل جاتے۔ دولت اور ریاست موروثی ہوتی تھی تو غربت بھی موروثی۔ آفات سما وی کی وجہ سے پیداوار میں کمی آتی یا پیداوار ضائع ہو جاتی، زمین سوکھ جاتی، مویشی مر جاتے، قحط پڑتے تو غریب مرتے اور کم ہو جاتے۔ مہنگائی بدنام نہیں ہوتی تھی۔ کیونکہ مہنگائی کا لفظ مہیں اور گائے سے  بنا ہے۔ بھینس والا لوک کہانیوں میں مہینوال، اور ماہیا  ہوتا ہے اور گوپی اور گوپیاں گائے یا گئو سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس دور میں لوک کہانیوں میں یہی ہیرو ہوتے ہیں۔

جدید دور میں غریب گاوں میں نہیں خط غربت کی حدود میں رہتا ہے۔ جب تک اس خط سے نیچے رہتا ہے، امن و سکون رہتا ہے۔ جب خط  غربت سے اوپر اٹھنے لگتا ہے تو ماہرین معاشیات اسے مہنگائی یا مویشیوں کی ہجرت کا نام دیتے ہیں۔ کیونکہ غریب گاوں سے شہر کا رخ کرتے ہیں تو محنت کا معاوضہ بڑھنے لگتا ہے۔ موروثی مالدار  کو یہ نودولتیے زہر لگتے ہیں۔ بھینس رسہ تڑا کے شہر میں کیسے آگئی۔  اس کو گاوں واپس بھیجنے کے لئے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ضروری ہے۔ اتنا کہ محنت کے معاوضے کی شرح سے زیادہ ہو جائے۔ ترقی کے لئے اسے خط غربت کا پابند رکھنا ضروری ہے۔ سیانے کہتے ہیں ماہر معاشیات مہنگائی کی بھینس کے آگے بین تو بجا سکتے ہیں اس کا دودھ نہیں نکال سکتے۔ مہنگائی کی بھینس کو صرف ماہر مویشیات قابو کرسکتے ہیں۔ وہ خط غربت کھینچنے کی بجائے   بھینس کو رسہ ڈال کر واپس گاوں لے جاتے ہیں اور اس کی اوقات کے کلے سے باندھ کے رکھتے ہیں۔

2019 کی اقتصادی رپورٹ کے مطابق 2006 میں غربت کی شرح 50 فی صد ہو گئی تھی، 2016 میں کم ہو کر 24  فیصد رہ گئی- اس حساب سے 2019  میں صفر ہو جائے گی۔ یوں 2019 غربت کےخاتمے کا سال ہے۔ اعداد و شمار کا یہ گورکھ دھندا پاکستانیوں کی سمجھ میں نہیں آرہا۔ وہ مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں۔ انہیں تو خوش ہونا چاہئے کہ ماہرین مویشیات میدان میں آگئے ہیں۔ متوسط طبقہ جو شہروں میں آکر جدی پشتی رئیسوں کے منہ آرہا تھا وہ مہنگائی کی بھینس کے ساتھ ہی گاوں میں واپس چلا جائے گا۔ ان کے جانے سے شہروں میں غربت کا خاتمہ ہوگا اور شہر چین کی بنسری بجائیں گے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...