جدید دور میں حفظِ قرآن کی رسم پر نظرثانی کی ضرورت ہے

965

قرآن مجید کے حفظ کی رسم صدیوں سے مسلم سماج میں رائج ہے۔ عام تأثر یہ ہے کہ یہ قرآن مجید کی حفاظت کا ذریعہ اور باعث اجر و سعادت ہے ۔ ہماری دانست میں اس تصور کے اندر کچھ غلط فہمیاں موجود ہیں، جن پر نظرثانی کی دعوت دی جاتی ہے۔ حفظ قرآن کی رسم کے بارے میں جو حوالے اور اسباب ذکر کیے جاتے ہیں ہم ان کامختصر جائزہ لیں گے۔ واضح رہے کہ اس کا مقصد قرآن کریم کے حفظ کی حوصلہ شکنی نہیں ہے بلکہ مدنظر یہ ہے کہ اس عمل پر زیادہ وقت صَرف کرنے کی بجائے اس کی تفہیم اور پیغام پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔

قرآن مجید کا مقصد اس کے کلام اور پیام کا ابلاغ ہے۔ ابلاغ کے لیے متن کا حفظ ہونا ضروری نہیں۔ قرآن مجید کے حفظ کرنے کی ہدایت بلکہ ذکر تک قرآن مجید میں موجود نہیں۔ قرآن مجید کی ایک آیت سے حفظ کامفہوم اخذ کیا جاتا ہے: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِر، (ہم نے اِس قرآن کو یاددہانی کے لیے نہایت موزوں بنادیا ہے۔ پھر کیا ہے کوئی یاددہانی حاصل کرنے والا؟) “ذکر”  کا لفظ اس پر دلالت کر رہا ہے کہ یہاں اس کا مطلب نصیحت وہدایت حاصل کرنا ہے۔ ماہِ رمضان میں تراویح کی نماز، جو درحقیقت نماز تہجد ہی ہے، میں پورے قرآن مجید کی تلاوت اور اس کے سماع  کا اہتمام مسلمانوں کا اپنا انتخاب ہے۔ رسول اللہﷺ جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ماہِ رمضان میں قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے نہ کہ نماز تہجد میں۔ نماز تہجد میں قرآن مجید کی تلاوت کا ذکر جہاں قرآن مجید میں آیا ہے تو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہاں یہ سہولت دی گئی کہ جتنا ہو سکے اتنا پڑھ لیا جائے۔ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ (چنانچہ اب قرآن میں سے جتنا ممکن ہو،اِس نماز میں پڑھ لیا کرو۔) رسول اللہﷺ سے منقول قرآن مجیدحفظ  کرنے کی ترغیب دلانے والی روایات میں اس تصور کا پایا جانا ممکن نہیں کہ آپؐ نے لوگوں کو بلا سمجھے قرآن مجید کو زبانی یا دکرنے کی ترغیب دی ہو۔ آپؐ کے مخاطبین قرآن مجید کی زبا ن سے واقف تھے۔ ان کے لیے اسےسمجھے بغیر یاد کرلینا متصور ہی نہیں۔ البتہ، عرب کی غالب اکثریت لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی۔ قرآن مجید کی تعلیم کے ساتھ  اسے حفظ کرلینےکی یہ ہدایات انہیں اس بنا پر دی گئیں کہ ان کے لیے قرآن مجید سے مراجعت کا یہی طریقہ رہ جاتا تھا کہ وہ اسے زبانی یاد بھی کرلیں۔ اس طرح اُس دور میں قرآن مجید کے حفظ کے ذریعے سے بھی اس کی حفاظت کا کام لیا گیا۔

واضح رہے کہ اس کا مقصد قرآن کریم کے حفظ کی کی حوصلہ شکنی نہیں ہے بلکہ مدنظر یہ ہے کہ اس عمل پر زیادہ وقت صَرف کرنے کی بجائے اس کی تفہیم اور پیغام پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔

رسول اللہ ﷺ کے دور میں قرآن مجید کا حافظ یا قاری ہونے کا مطلب قرآن مجید کا عالم ہونا تھا۔ حفظ کا یہ مفہوم حافظ الحدیث کی اصطلاح میں آج بھی زندہ ہے۔ کوئی یہ تصور نہیں کر سکتا کہ حافظ الحدیث ایسا شخص بھی ہوسکتا ہے جس کو احادیث کی ایک بڑی تعداد تو یاد ہو لیکن ان کا مطلب و مفہوم معلوم نہ ہو۔ حافظ الحدیث کے مفہوم میں یہ لازمی نہیں کہ اسے تمام احادیث حفظ ہوں، اسی طرح حافظ القرآن کے مفہوم میں بھی یہ لازم نہ تھا کہ اسے اوّل تا آخر سارا قرآن بالترتیب یاد ہو۔ عجمی قومیں جب اسلام میں داخل ہوئیں تو انہوں نے ان روایات کو قرآن مجید کے الفاظ کو بغیر سمجھے یاد کرنے سے متعلق سمجھ لیا۔ حفظ قرآن مجید کی جاری رسم کے ساتھ جڑے ثواب اور گناہ کے تصورات پر علما کرام کو نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ تاریخ میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ صحابہ اور ان کی اولادیں قرآن مجید حفظ کرنے کے لیے کوئی مخصوص وقت لگاتے یا اس کے لیے الگ مدارس کھولتے تھے۔ قرآن مجید ان کی زندگی کا حصہ اور اس کی تلاوت ان کے روزانہ کے معمولات کا لازمی جزو تھا۔ وہ قرآن مجید کی تلاوت اور مزاولت اتنی کثرت سے کرتے تھے کہ قرآن مجید ان کی زبانوں پر رواں رہتا تھا اور اس کا بہت سا حصہ خود بخود انھیں یاد رہتا تھا۔

جدید دور میں بھی  بعض مدارس کے اندر طلبہ سے متن قرآن کے ساتھ صفحہ نمبر بلکہ آیت نمبر تک یاد کروائے جاتے ہیں۔ پھر بین الاقوامی مقابلوں میں یاداشت کے یہ کارنامے پیش کر کے داد تحسین وصول کی جاتی ہے۔ تاہم، مقابلے کے چند دن بعد ہی یاداشت کا یہ ذخیرہ طلبہ کے ذہن سے محو ہو نے لگتا ہے۔ چند د ن دہرائی نہ کی جائے تو حفظ بھی بھولنا شروع ہوجاتا ہے۔ اسے یاد رکھنے کے لیے مسلسل دہرائی کی محنت کرنا پڑتی ہے، جیسے کسی بھی دوسرے یاد کیے ہوئے کلام کے لیے کرنا پڑتی ہے۔ تاہم، قرآن مجید کے اکثر حفاظ یہ مستقل مزاجی نہیں دکھا پاتے۔ پچپن اور جوانی میں قرآن مجید کو یاد رکھنے کی یہ مشقت اٹھا بھی لی جائے تو بڑھاپے میں ان حفاظ سے یہ کشٹ نہیں اٹھایا جاتا۔ خواتین حفاظ کےحفظِ قرآن بھولنے کے عوامل اور بھی زیادہ ہیں۔ حفاظ جب  کسی وجہ سے قرآن مجید بھولنے لگتے یا بھول جاتے ہیں تو وہ احادیث ان کے سامنے آجاتی ہیں جن میں قرآن مجید کو بھلا دینے پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔ یہ لوگ بقیہ عمر اس  قصورواری کے احساس میں گزارتے ہیں انہوں نے قرآن مجید بھلا کر سخت  گنا ہ کردیا ہے اور ان کا حشر اب برا ہوگا۔ حالانکہ ان روابات کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید سے تعلق پیدا کرلینے کے بعد اگر وہ یہ تعلق توڑ دیں گے تو ان سے سخت مواخذہ ہوگا۔ صحابہ اور ان کی اولادیں قرآن مجید حفظ کرنے کے لیے کوئی مخصوص وقت لگاتے یا اس کے لیے الگ مدارس نہیں کھولتے تھے۔ وہ قرآن مجید کی تلاوت اور مزاولت اتنی کثرت سے کرتے تھے کہ قرآن مجید ان کی زبانوں پر رواں رہتا تھا اور اس کا بہت سا حصہ خود بخود انھیں یاد رہتا تھا۔

موجودہ دور میں جب کہ قرآن مجید کو محفوظ رکھنے، پڑھنے اور آیات و موضوعات تلاش کرنے کے جدید ترین ذرائع وجود میں آ چکے ہیں تو کوئی وجہ نہیں انسان کےوقت کو ایک ایسے عمل میں لگایا جائے جس کا کوئی مطالبہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے نہیں کیا اورنہ دین کا کوئی مفاد اب اس سے وابستہ ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...