جنگ ابھی جاری ہے
ایسٹر کے روز سری لنکا میں ہونے والے اندوہناک حملے عکاسی کرتے ہیں کہ کس طرح دہشت گرد آسان اہداف تلاش کرتے اور انہیں نشانہ بناتے ہیں۔ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں کشت و خون بپا کرنے کے لیےمقامی تنازعات کو ہوا دینے کا گر سیکھ چکے ہیں، اس کے ذریعے انہیں اپنی شہرت اور ہم خیال نظریاتی گروہوں کے ساتھ مطابقت برقراررکھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ عالمی دہشت گرد گروہ مقامی بنیاد پرستوں میں غم و غصے کو بڑھاوا دینے کا کام کرتے ہیں جبکہ باقی ماندہ کام مقامی گروہ اپنے طریقے سے انجام دیتے ہیں۔
مقامی گروہوں کے ساتھ انسلاک کے لیے القاعدہ کی حکمتِ عملی داعش سے قدرے مختلف تھی۔ مختلف خطوں میں موجود القاعدہ سے ملحق گروہ اپنے مقامی ایجنڈوں پر اگرچہ آزادنہ طور پر بھی کام کرسکتے تھے لیکن القاعدہ ایک مرکز کے طور پر اپنی حیثیت برقراررکھے ہوئے تھی۔ جبکہ داعش نے دہشت گردی کے ایسے عالمی سلسلے کو جنم دیا ہے جوکسی بھی نوعیت کے مرکزی نظم کاحامل نہیں ہے، اس لائحہِ عمل سے دہشت گردی زیادہ مہلک بن چکی ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ مستقبل قریب میں دہشت گردی کا یہ طوفان مقامی یا علاقائی سرحدات تک محدود نہیں رہے گا اور اس عالمی خطرے سے نمٹنے کے لیے علاقائی بنیادوں پر مختلف حکمتِ عملیاں اپنانے کی ضرورت پڑے گی۔ انسداد دہشت گردی کا لائحہِ عمل مرتب کرنےکے لیے مقامی تنازعات اور ان کی شدت، متعلقہ نظریاتی و سیاسی عوامل اور محرومی کا شکار سماجی طبقات میں مظلومیت و پستی کے احساسات کا جامع تجزیہ ضروری ہوگا۔ اسی طرح سماج کےمختلف افراد یا حلقوں میں غم و غصے کے اظہار کے لیے انتہا پسندی اور تشدد کی طرف میلان کے امکانات کی جانچ بھی ازبس لازمی قرار پائے گا۔
داعش اگرچہ زمینی حوالے سے پسِ منظر میں ضرور چلی گئی ہے کہ اس کے زیرِ تسلط علاقے اس سے واگزار کرائے جا چکے ہیں لیکن سائبر اسپیس میں اس کی نمایاں اور موثر موجودگی ہنوز باقی ہے۔ جنوبی ایشیا میں سری لنکا اس کے نظریاتی توسع کا تازہ ترین شکار ہے جبکہ افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش بھی اسی طرح کے حالات کا سامنا کر چکے ہیں۔ داعش ان جنوب ایشیائی علاقوں میں مستقل توجہ مرکوز رکھے گی کیوں کہ یہاں گروہی اور فرقہ وارانہ تنازعات کی موجودگی دہشت گرد گروہوں کی تشکیل کے لیے زرخیز ثابت ہو سکتی ہے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سری لنکا حملوں کے ذمہ داروں کا تعلق کیرالہ سے تعلق رکھنے والے ایسے عناصر سے ہو سکتا ہے جو داعش سے متاثرتھے۔ 2015ء سے اب تک خواتین و بچوں سمیت دو درجن سے زائد بھارتی افراد داعش میں شمولیت کے لیے عراق اور شام کا سفر کر چکے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں مہاراشٹرا اور تامل ناڈو سمیت مختلف بھارتی علاقوں میں داعش کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔ گذشتہ تین برسوں سے داعش مقبوضہ کشمیر کی آزادی کا علم بلند کیے ہوئے ہے اور اپنے تشہیری مواد میں کشمیر میں ہونے والےبھارتی ظلم و تشدد کو نمایاں جگہ دے رہی ہے۔
یہ خوف بے وجہ نہیں ہے کہ داعش مقبوضہ کشمیر میں اپنے قدم جما سکتی ہے اور یہاں کچھ بڑے حملے بھی منظم کر سکتی ہے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو یہ علاقائی استحکام کے لیے بڑا دھچکا ہوگا۔ ہمیں اس بات سے پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ القاعدہ کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی تھی تاکہ اس کے لیے مزید طبعی گنجائشوں کی نمو ممکن ہو اور وہ کسی بڑی تبدیلی کی راہ ہموار کر سکے۔ القاعدہ سے وابستہ کئی افراد داعش میں شامل ہیں اور وہ اسے اس نقطہِ نظر کے ساتھ آگے بڑھنے کی تجویز دے سکتے ہیں۔
انسداد دہشت گردی کی حکمتِ عملی مرتب کرنےکے لیے مقامی تنازعات اور ان کی شدت، متعلقہ نظریاتی و سیاسی عوامل اور محرومی کا شکار سماجی طبقات میں مظلومیت و پستی کے احساسات کا جامع تجزیہ ضروری ہے۔ اسی طرح سماج کےمختلف افراد یا حلقوں میں غم و غصے کے اظہار کے لیے انتہا پسندی اور تشدد کی طرف میلان کے امکانات کی جانچ بھی ازبس لازمی ہے
پاکستان ان جنوب ایشیائی ممالک میں سے ایک ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑی ہے اور اپنی سرزمین سے دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کو یقینی بنایا ہے۔ تاہم ابھی بھی مقامی، علاقائی اور عالمی دہشت گرد گروہ یہاں موجود ہیں اورایک موثر حد تک اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں دولتِ اسلامیہ سے وابستہ عناصر مقامی ہیں۔ یہاں داعش کی نمو میں چند فرقہ وارانہ گروہوں اور عسکریت پسند تنظیموں کا حصہ رہا ہے۔ مثلاً سری لنکا میں داعش کے وجود کے لیے وہاں کی قومی توحید جماعۃ نے بنیادیں فراہم کی ہیں۔ 2015ء سے اب تک داعش پاکستان میں 22 دہشت گردانہ کارروائیاں کر چکی ہے اور ان میں سے بیشتر حملے انتہائی خطرناک تھے۔ داعش کی بدلتی ہوئی حکمتِ عملی سے متعلق سکیورٹی اداروں کو انتہائی محتاط اور چوکنا رہنا چاہیے۔
کالعدم تنظیموں کے خلاف جاری حالیہ ریاستی کارروائی سے یہ خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تنظیموں کے شکست خوردہ اور سخت گیر اراکین نئے عسکریت پسند گروہ تشکیل دے سکتے ہیں یا پھر القاعدہ، داعش اور تحریکِ طالبان پاکستان جیسی پہلے سے موجود تنظیموں کی مضبوطی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس خدشے کے پیشِ نظر حکومت کو ان کالعدم تنظیموں کے مستقبل سے متعلق ایک جامع اور منظم لائحہِ عمل ترتیب دینا ہو گا۔ مارچ میں حکومت نے کالعدم تنظیموں کے حوالے سے ایک جامع حکمتِ عملی وضع کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن ابھی تک ایسی کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی۔ اگرچہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنر ل آصف غفور باجوہ نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ کالعدم تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کی پالیسی یکم جنوری کو ہی وضع کر لی گئی تھی اور فروری میں اس کے لیے درکار وسائل بھی مہیا کر دیے گئے ہیں۔ تاہم انہوں نے ان تنظیموں کو غیر فعال کرنے یاقومی دھارے میں واپس لانے کے کسی ضابطہِ کار یا لائحہِ عمل کی وضاحت نہیں کی۔ انہوں نے کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ تمام مدارس حکومتِ پاکستان کے زیرِ انتظام لائے جائیں گے اور وزارتِ تعلیم کے ماتحت کام کریں گے۔
اگرچہ یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ تمام معاملات متعلقہ وزارتوں میں کب زیرِ بحث لائے گئے اور کابینہ اراکین نے کب ان اقدامات کی منظوری دی، تاہم سکیورٹی ادارے کافی عرصے سے پیغامِ پاکستان کے عنوان سے مختلف مذہبی طبقات کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ مختلف مذہبی طبقات کے ساتھ ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ یہ ملاقاتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ملک کے سکیورٹی ادارے اب کے بار کالعدم تنظیموں کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ہر ممکن حد تک سنجیدہ ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ فیصلہ سازی کے اس عمل میں تمام متعلقہ ادارے شامل ہونے چاہییں کیوں کہ ان پالیسیوں کا اطلاق آخرکار سیاسی حکومت کے ذریعے ہی عمل میں لایا جائے گا۔ مثال کے طور پر مدارس کی مرکزی دھارے میں شمولیت سیاسی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ گذشتہ حکومت مذہبی رہنماؤں کے ساتھ کافی گفت وشنیدکے بعد نتیجہ خیز مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ اس بارے میں بھی کوئی معلومات نہیں ہیں کہ حالیہ فیصلوں میں ان نتائج سے بھی استفادہ کیا گیا ہے یا نہیں۔ اسی طرح اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم ایک صوبائی معاملہ بن گیا ہے، کسی بھی طرح کی آئینی پیش بندی کے بغیر تمام مدارس کو وفاقی وزارتِ تعلیم کے ماتحت کیسے کیا جاسکتا ہے؟
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سیاسی حکومت بذاتِ خود سکیورٹی سے متعلقہ امور اپنے ہاتھ میں لینے سے گریزاں ہے، اس کے کندھوں پر پہلے ہی معیشت اور ’احتساب ‘ کا بھاری بھرکم بوجھ ہے۔ تاہم حکومت کو چاہیے کہ وہ کم از کم کالعدم تنظیموں کے مسئلے پر پارلیمان میں کھلی بحث کروائے کیوں کہ ماضی میں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ دباؤ کم ہوجانے کے بعد یہ تنظیمیں ریاستی بیانیوں کی آڑ میں دوبارہ سر اٹھانے لگتی ہیں۔
احتساب اور معیشت کی طرح سکیورٹی بھی انتہائی اہم معاملہ ہے۔ کوئی ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ سیاسی و تزویراتی بگاڑ کا باعث بن سکتا ہے اوراس سے معیشت کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ علاقائی سیاسی منظرنامہ پہلے ہی غیر مستحکم ہے، اور داعش کا خطرہ علاقائی و عالمی سطح پر زیادہ مہلک اور کثیر الجہت بن کر سامنے آرہا ہے۔ ریاست اور سماج کو دھیان رہنا چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی باقی ہے۔
مترجم : حذیفہ مسعود، بشکریہ: ڈان
فیس بک پر تبصرے