“ہےگا” اور وزیر اعظم پاکستان

547

تمام بچے کھیل کود سے لطف اندوز ہو رہے تھے مگر” ہیگا ” ایک کونے میں اکڑ کر کھڑا تھا ۔ اسے ان عام اور آسان سے کھیلوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔اس کی اسی اکڑی ہوئی گردن کی وجہ سے ہم اسے ” ہے گا ” کہتے تھے جو ہمارے بچپن میں فاروق قیصر کی تحریر کردہ پی ٹی وی کی مشہور عالم مزاحیہ پتلی سیریل” کلیاں ” کا کردار تھا ۔ہم سب کچی پکڈنڈی پر اپنی اپنی سائیکلیں چلا رہے تھے ۔جو بچہ اس پتلی سی پگڈنڈی پر بغیر توازن کھوئے ایک سرے سے دوسرے سرے پر چلا جاتا، فاتح قرار پاتا تھا ۔”ہیگا ” نے بھی اس پگڈنڈی پر توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا جس پر اس نے جھنجلا کر اپنی سائیکل پکڑی، توازن برقرار رکھنے کی اس مشق کو آسان ترین اور فضول ترین قرار دیا اور ہمیں بزدلی اور تن آسانی کے طعنے دیتا ہوا ہمارے روکنے کے باوجود اس عمیق پگڈنڈی کی طرف چل پڑا جس کا اختتام ایک گہری کھائی پر ہوتا تھا ۔ پھر وہی ہوا جو ایسوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔ آسان کام کرنے والے تمام تن آسان جب اسے اس کی سائیکل سمیت گہری کھائی سے باہر نکال رہے تھے تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ توازن برقرار رکھنے کا بنیادی تجربہ اور مشق نہ ہونے کی وجہ سے کسی سرپھرے کا کھائی میں گر جانا کون سا مشکل کام ہے ۔ اس زمانے کے مشہور کردار ہے گا  کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اسے ہیگا بھی اسی لیے کہتے تھے کہ وہ نہ کسی کی سنتا تھا اور نہ ہی کسی کی مانتا تھا ۔

بچپن کا یہ واقعہ گذشتہ روز وزیراعظم پاکستان کی رینالہ خورد میں کی گئی تقریر سننے کے بعد یاد آیا ۔ پچاس لاکھ گھروں کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پچھلی حکومتیں آسان کام کرتی رہی ہیں اور کوئی مشکل کام نہیں کیا جبکہ ہماری حکومت تمام مشکل ترین کام کر رہی ہے اور مزید کئی ایسے کام کرے گی ۔جناب وزیراعظم کے ان تاریخی الفاظ نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا اور میں نے تن آسانی پر ن لیگ کو دل ہی دل میں کوستے ہوئے مشکل پسند وزیر اعظم اور انکی حکومت کو   بھرپور داد دی ۔ پھر جوں جوں غور کرتا گیا توں توں ان الفاظ کے نئے نئے معنیٰ کھلتے گئے ۔ دوسری سیاسی پارٹیوں کے ماضی کے وزیروں سے اپنی کابینہ کا انتخاب کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ مشرف اور زرداری جیسے زمانہ سازوں کے ہاتھ سے تراشے ہوئے ہیرو ں میں سے” تبدیلی چناؤ ” کوئی خالہ جی کا گھر نہیں تھا۔ اگست میں بنائی جانے والی پہلی کابینہ سے لے کر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان تک کی کابینہ سازی میں جس تابعداری اور برداشت کا مظاہرہ کیا گیا، وہ انتہائی مشکل کام ہے اور اس کی داد نہ دینا سراسر نا انصافی ہو گی ۔ پھر یہ خیال آیا کہ جب باڑے کا پھاٹک مضبوط اور چوکیدار تگڑا ہو تو منہ زور گھوڑے بھی بھیڑیں بن جایا کرتی ہیں، بالخصوص جب چارہ وافر اور ہرا بھرا ہو ، لہذا کابینہ سازی زیادہ مشکل نہیں ہوتی۔ اصل مشکل کام تو افراط زر کی شرح میں تبدیلی ہے ۔ جہاں افراط زر کی شرح میں آدھ فیصد کی تبدیلی بھی جان جوکھوں کا کام ہو وہاں محض چند ماہ میں پانچ فیصد افراط زر کو بارہ فیصد پر لے جانا ایک ایسا مشکل اور نا ممکن کارنامہ ہے جس کی نظیر تاریخ میں مشکل ہی سے ملتی ہے ۔ پھر مجھے 108 روپے سے 143 روپے تک ڈالر کی اونچی چھلانگ کا خیال آیا تو نئی حکومت کی پیشانی چومنے کو جی چاہا ۔سابقہ حکومتیں اپنی بھرپور کوشش کے باوجود چار پانچ روپے سے زیادہ چھلانگ نہیں لگا پائیں ۔یہ مشکل کام کرنے والی بھی موجودہ حکومت ہی تھی جس نے 8 ماہ کے قلیل عرصے میں 35 روپے کی بلند ترین چھلانگ لگا کر نیا ریکارڈ قائم کیا ۔

یہی وجہ ہے کہ آج وزیراعظم سینہ تان کر ببانگ دہل یہ کہہ رہے ہیں کہ تمام مشکل کام ان کی حکومت نے سرانجام دیے اور سابقہ حکومتیں صرف آسان کام کرتی رہی ۔پچھلی حکومت محض 11 ہزار میگاواٹ کے توانائی منصوبوں جیسا آسان کام کرکے محض گونگلووں سے مٹی جھاڑ کر سرخرو ہونے کی ناکام کوشش کرتی رہی ، اصل مشکل کام تو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہے کیونکہ ایک روپے کے اضافے کی صورت میں بھی عوام اکثر ماں بہن ایک کر دیتے ہیں ۔یہ ہمارے دلیر کپتان کی پرعزم حکومت کا ہی کارنامہ ہے کہ بجلی اور بالخصوص گیس کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کیا گیا ۔اسی طرح پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ بھی وہ مشکل کام تھا جو گزشتہ حکومت نہیں کر پائی اور موجودہ حکومت نے نہ صرف کئی بار اضافہ کیا بلکہ حال ہی میں رمضان سے صرف دو دن پہلے تقریباً دس فیصد تک اضافہ کرکے اپنے ہر دلعزیز وزیراعظم کے بیان پر تصدیق کی مہر ثبت کردی ۔ اسی طرح نون لیگ کی حکومت نے سٹاک مارکیٹ کے میدان میں چھوٹے چھوٹے اور آسان سے کام کیے ۔پانچ سال حکومت کرنے کے باوجود کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں تھا جب سٹاک مارکیٹ میں پچاس یا سو پوائنٹ سے زیادہ کا فرق ڈالا ہو ، کوئی بہت بڑی چھلانگ لگائی تو کبھی کبھار 200 پوائنٹ کی کمی بیشی کرلی ۔اس طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر گذشتہ حکومت چار پانچ سال کے عرصے میں محض 15000 پوائنٹ کا فرق پیدا کر کے اسٹاک ایکسچینج کو بمشکل ترین ہزار تک لانے میں کامیاب ہوئی ۔جو سیدھا سادہ اور آسان کام پانچ سال کی مشقت کے بعد گذشتہ حکومت بمشکل کر پائی ، موجودہ حکومت نے یہ مشکل بلکہ تقریبا ناممکن کام چند ماہ میں ہی کرلیا اور آج بھی معاشی ماہرین دانتوں میں انگلیاں دبا کر اس محیر العقول کارنامے پر اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ ہر باشعور شخص یہ بات بخوبی سمجھتا ہے کہ صرف چار ماہ میں سٹاک مارکیٹ کو 53ہزار سے 36000 پوائنٹ پر لے جانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ۔ یہی نہیں گذشتہ چار ماہ میں 36 ہزار کی نفسیاتی سطح کے آس پاس بڑی کامیابی سے اسے برقرار رکھنا بھی بہت بڑا کارنامہ ہے ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر اور ایک کروڑ نوکریوں کی فراہمی کا اعلان بھی ایک انتہائی مشکل کام ہے اور گذشتہ آٹھ ماہ میں سینکڑوں مرتبہ یہ اعلان کر کے مشکل ترین کام کرنے کے تمام ریکارڈ توڑ دیے گئے ہیں ۔ یاد رہے کہ گذشتہ حکومت پورے پانچ سال میں ایک بھی ایسا مشکل اعلان نہیں کر پائی تھی البتہ اس نے لاتعداد چھوٹے چھوٹے اور آسان کاموں کے اعلانات کرکے ان کی تکمیل کی جن میں بارہ ہزار میگاواٹ بجلی کے منصوبوں کی تعمیر ، پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ذریعے کروڑوں بچوں کی مفت تعلیم ، پنجاب ایجوکیشن انڈوومنٹ فنڈ کے ذریعے لاکھوں ذہین مگر مستحق بچوں کی مفت اعلی تعلیم کے لیے وظائف ، درجنوں نئے اسپتالوں کی تعمیر اور صرف پنجاب میں تین لاکھ سے زائد اساتذہ کی میرٹ پر بھرتی شامل ہے ۔

اب قارئین خود ہی انصاف سے فیصلہ کریں کہ کہاں ایک کروڑ نوکریوں کے بار بار اعلانات کا مشکل ترین کام اور کہاں محض تین لاکھ اساتذہ کی میرٹ پر بھرتی کا آسان ترین کام ۔ آپ بیوروکریسی کو ہی لے لیں یہ وہ منہ زور گھوڑا تھا جس کو کوئی بھی حکومت نکیل نہ ڈال سکی ،حتیٰ کہ مارشل لاء کے ذریعے آنے والے فوجی آمر بھی ہمیشہ یہ رونا روتے رہے کہ بیوروکریسی اپنی من مانی کرتی ہے ۔ یہ موجودہ حکومت ہی تھی جس نے نیب ، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کے ذریعے اس کی وہ ایسی تیسی پھیری کہ اب خوف سے سانس روکے پورے ملک میں محض ہاتھ پر ہاتھ دھرے اربوں روپے کی بچت کر کے حکومتی ایجنڈے کی تکمیل کر رہی ہے اور حکومتی رعب کا یہ عالم ہے کہ کسی بڑے سے بڑے پھنے خان بیوروکریٹ کی مجال نہیں کہ   کسی سرکاری کاغذ پر دستخط کرنے کی جرات کرے۔     بیوروکریسی کا ” مکو ٹھپنے “جیسا مشکل ترین ہدف حاصل ہونے کے بعد اب راوی پورے ملک میں چین ہی چین لکھ رہا ہے ۔ اب سٹیٹ بینک کے گورنر کو ہی لے لیں ، یہ ایک آئینی عہدہ ہے جس پر تین سال کے لیے تعیناتی کی جاتی ہے ۔ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت ، چیف جسٹس سجاد علی شاہ ، حتی کہ صدر غلام اسحاق خان اور صدر فاروق لغاری جیسے طاقتور صدور کو گھر بھجوانے والے وزیراعظم نوازشریف کو کبھی یہ جرات نہیں ہوئی کہ سٹیٹ بینک کے گورنر کی مدت ملازمت میں ایک دن کی بھی کمی کرے   ، مگر موجودہ حکومت نے ایک ہی دبکا مارا اور گورنر سٹیٹ بینک دو گھنٹے کے اندر اندر دم دبا کر بھاگ گیا۔ اس سے بھی بڑھ کر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے کسی ملازم کو وہاں سے زبردستی استعفی دلوا کر محض چوبیس گھنٹے کے اندر اپنے قومی بینک کا سربراہ بنا دینا بھی ایک ایسا کارنامہ ہے جسے مشکل ترین تو کیا کہنا ، جدید تاریخ میں اس جیسی کوئی ایک مثال بھی ڈھونڈے سے نہیں ملتی ۔ جناب وزیراعظم کے اس بیان کی سچائی اس امر سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ملکی خزانہ خالی ہو یا لبریز   ، تاریخی طور پر اس ملک کا کاروباری طبقہ ہمیشہ خوشحال رہا ہے اور معاشرے میں روزگار کا ذریعہ بنا رہا ہے مگر ایسی خوشحالی بھاڑ میں پھینکنے کے قابل رہ جاتی جب ملک کا وزیراعظم کشکول اٹھائے ملکوں ملکوں کی خاک چھان رہا ہو ۔ ملک کے کونے کونے اور گلی گلی میں پائے جانے والے اس طبقے کی ” بیخ کنی ” کرنا ایک مشکل ترین کام تھا کیونکہ ان کا تو اتا پتا ہی حکومت کے پاس نہیں تھا مگر جب ایک لیڈر کوئی فیصلہ کرتا ہے تو وہ ہار نہیں مانتا اور اپنا مقصد حاصل کرکے رہتا ہے۔ لہذا موجودہ حکومت اپنے کپتان کی زیر قیادت اپنے عزم صمیم سے یہ مشکل ترین کام بھی کر گزری۔ نہ صرف یہ کہ انتہائی مختصر مدت میں کاروباری طبقے کو کوڑی کوڑی کا محتاج کرکے ان کا غرور اور تکبر خاک میں ملا دیا بلکہ انہوں نے جو لاکھوں لوگ اپنے کاروباری اداروں میں کم تنخواہ پر ” بسلسلہ چاکری ” رکھے ہوئے تھے کو اس ظالمانہ استحصال سے نجات دلادی کہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا ۔ ویسے بھی اعلان کردہ ایک کروڑ نوکریوں کے لیے بھی تربیت یافتہ افراد کی ضرورت تو ہوگی اور پچھلی حکومتوں کی پھیلائی گئی بےروزگاری تو موجودہ حکومت نے حلف اٹھانے کے محض ایک ماہ کے اندر ہی ختم کر دی تھی ۔ کاروباری طبقے کے اس حشرنشر میں مخالف سیاستدانوں کے لیے بھی پیغام ہے کہ اگر موجودہ حکومت بغیر اتے پتے کے کاروباری برادری کا یہ حشر کرسکتی ہے تو ملکی سلامتی کے لیے مختص اداروں کی وساطت سے پوری جزئیات کے ساتھ سیاستدانوں کی ایک ایک تفصیل حکومت کے پاس موجود ہے اور ان کو جیل میں ڈالنا حکومت کے لیے چٹکی بجانے کی بات ہے ۔

اس کے علاوہ موجودہ حکومت نے دیگر بہت سے مشکل ترین کام کیے ہیں جن پر علیحدہ سے کئی کالم لکھے جاسکتے ہیں ، ابھی کل ہی پنجاب اسمبلی سے مقامی حکومتوں کا قانون پاس کروا کر بلدیاتی ادارے تحلیل کر دیے گئے ہیں ۔ وزیراعظم نے رینالہ خورد کی اسی تقریر میں اس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ مشکل ترین کاموں کا یہ سلسلہ جاری رکھا جائے گا اور بقول ایک “حکومتی راوی ” کے ان مشکل ترین کاموں کے سلسلے کا آخری کام جناب شاہد خاقان عباسی کے مطالبے کے عین مطابق جلد از جلد نئے عام انتخابات کا انعقاد ہے ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...