قطر خلیج بحران کے اثرات اور مستقبل کا منظرنامہ
27 اپریل 2019 کو الجزیرہ فورم کے زیر اہتمام تیرہویں کانفرنس کا انعقاد شیریٹن ہوٹل دوحہ (قطر) میں کیا گیا جس کا موضوع ’’قطر خلیج بحران،اس کے اثرات اور خلیج کونسل کا مستقبل‘‘ تھا۔ کانفرنس میں بہت سارے اصحاب فکر، دانشوروں اور خلیجی ممالک کی اہم شخصیات نے متعدد ذیلی موضوعات پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا اور موضوع پر سیرحاصل گفتگو کی، سامعین شرکا میں بڑی تعداد سفارت کاروں، خلیجی امور پر نظر رکھنے والے مفکرین ومحققین کی تھی۔ ذیل میں زیرِبحث آنے والے اہم نکات کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔
سابق کویتی رکن پارلیمنٹ ناصر الدویلہ نے سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے قطر کے ساتھ بائیکاٹ کی مہم کو سعودی عرب کی توسیع پسندانہ تاریخ کے ساتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کی حدود میں تین دفعہ توسیع ہو چکی ہے اور اب یہ بات اس ملک کی سرشت میں شامل ہو چکی ہے کہ اپنی حدود کو پھیلانے کے لیے قرب و جوار کے ملکوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے۔ ناصر الدویلہ نے کہا کہ ماضی میں سعودی عرب متعدد دفعہ کویت کا محاصرہ بھی کر چکا ہے اس لیے اگر آج قطر کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے تو یہ سعودی عرب کی تاریخ پر نظر رکھنے والوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔
سعودی عرب کی جغرافیائی حدود تاحال غیر واضح ہیں اور حال ہی میں اس نے مصر کے دو جزیروں تیران اور سنافر کو اپنی حدود میں شامل کیا ہے جس پر مصر کے عوام احتجاج کناں ہیں۔ ناصر الدویلہ کا کہنا تھا کہ اگر آج سعودی عرب اپنی تاریخ کے برعکس قطر یا پھر کسی دوسرے پڑوسی ملک کا بائکاٹ نہ کرتا تو انہیں اس پر زیادہ تعجب ہوتا۔
قطر کی ثابت قدمی سے اس بات کی گارنٹی ضرور حاصل ہوگئی ہے کہ اب سعودی عرب کے دیگر پڑوسی ممالک عمان یا کویت وغیرہ کے ساتھ ایسا نہیں ہو گا
حمد بن خلیفہ یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر محمد مختار شنقیطی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ آج کے دور میں اسلحے کی جنگ سے گریز کرتے ہوئے سفارتی جنگ کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور سافٹ پاور میں قطر کی اہمیت کو دنیا تسلیم کرتی ہے اور حجم کے اعتبار سے چھوٹا ہونے کے باوجود اس کےبڑھے ہوئے سفارتی اثر و رسوخ کا اعتراف کرتی ہے۔ شنقیطی نے کہا کہ یہ بات قابل افسوس ہے کہ سعودی عرب اور امارات اپنی ذہانت کو سب کچھ سمجھ رہے ہیں اور حکمت و دانشمندی سے عاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں ذہانت سے زیادہ حکمت اور دانائی کی ضرورت ہوتی ہے اور قطر کی خوش قسمتی ہے کہ اس کی زمامِ قیادت حکیم اور دانا ہاتھوں میں ہے۔
لیبیا کونسل کے نمائندے خالد المشری نے خلیج تعاون کونسل کو اپنے اہداف یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اس اس کا مقصد عربوں کو آپس میں متحد کرنا تھا لیکن آج یہی کونسل عربوں کی نسل کشی میں پیش پیش ہے۔ انہوں نے 2014 میں امریکہ میں شائع ہونے والی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہ کہ طرابلس میں قتلِ عام کے ذمہ دار امارات اور مصر ہیں اور یہ وہی ممالک ہیں جو قطر کے ساتھ بائیکاٹ کیے ہوئے ہیں۔ افسوس کہ یہ ممالک خلیج کے پیسوں اور خلیجی ممالک کے تعاون کے ساتھ تباہی پھیلا رہے ہیں۔
خلاد المشری نے قطر کی ثابت قدمی کو سراہتے ہوئے کہا کہ جو ممالک یہ سمجھتے تھے کہ قطر ان کے آگے جھک جائے گا انہیں شرمندگی کا سامنا ہے، انہوں ے کہا کہ خطے کا استقرار خلیجی ممالک کے آپس میں تعاون میں ہے اس لیے بائکاٹ کرنے والے ممالک اپنے رویے پر نظر ثانی کریں اور کونسل کو بحال کریں۔
کویتی سٹریٹیجک سنٹر کے سربراہ سامی الفرج نے کہا کہ کویت اس بحران کو حل کرنے کے لیے ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ خلیج تعاون کونسل کے نام سے اتحاد بنانے کا ہمارا مقصد کیا تھا؟ اور ہمیں اس مقصد میں کس حد تک کامیابی ملی؟ 1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد اس کے اثرات کو روکنے کے لیے 1981 میں ہم نے یہ کونسل بنائی تھی کہ ہم ملکوں کے آپس میں گہرے ثقافتی، جغرافیائی، لسانی اور مذہبی روابط ہیں اس لیے ہمیں اتحادی ممالک میں ایک ہی پاسپورٹ اور ایک ہی کرنسی کو رائج کرنا ہے لیکن افسوس کہ انتالیس برس گزرنے کے باوجود ہم ایسا کچھ بھی نہیں کر سکے۔ سامی الفرج نے کہا اس وقت خلیجی ممالک کی جو داخلی صورتحال ہے اس کو دیکھتے ہوئے دور دور تک یہ بحران ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
عبد العزیز آل اسحاق کا کہنا تھا کہ اس بحران کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ خلیجی ممالک کا آپس میں جو اعتماد کا رشتہ تھا وہ ٹوٹ چکا ہے، اب جلد یا بہ دیر جی سی سی بحال تو ہو جائے گی لیکن اس میں اعتماد کا فقدان برقرار رہے گا جس سے نئے دھڑے بھی جنم لیں گے اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ مستقبل میں کسی خلیجی اتحاد میں ایران اور عراق بھی شامل ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض لوگ قطر کی ثابت قدمی کو اس کی کامیابی سمجھتے ہیں جو کہ درست نہیں، لیکن قطر کی ثابت قدمی سے اس بات کی گارنٹی ضرور حاصل ہوگئی ہے کہ اب سعودی عرب کے دیگر پڑوسی ممالک عمان یا کویت وغیرہ کے ساتھ ایسا نہیں ہو گا۔
فیس بک پر تبصرے