ایران میں وزیراعظم کے دورے کو کس طرح دیکھا گیا؟
وزیراعظم عمران خان ایران کے دو روزہ دورے سے واپس آچکے ہیں۔ یہ دورہ کئی طرح سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا لیکن پاکستان میں اس کے سنجیدہ پہلؤوں پر بہت کم گفتگو کی گئی۔ ایران میں اس کو کس نظر سے دیکھاگیا، وہاں کتنی دلچسپی ظاہر کی گئی۔ یہ جاننے کے لیے چند سیاسی بیانات، اخباری سرخیاں اور صحافیوں کی آراء یہاں پیش کی جاتی ہیں۔
وزیراعظم کے ایران پہنچنے پر ایرانی اخبار ’’آفتاب‘‘ نے لکھا کہ عمران خان کا دورہ پاکستان کی مجبوری ہے۔ جس ملک میں پچیس فیصد شیعہ آبادی بستی ہو اس کے وزیراعظم کا مشہد آنا سمجھ میں آسکتا ہے۔ ’’اعتماد‘‘ نامی اخبار نے یہ سرخی لگائی ’’بالآخر ایران میں‘‘۔ یہ اشارہ تھا کہ پہلے تو سعودی عرب تشریف لے گئے، اب ایران بھی آہی گئے۔
پاکستانی سیاسی امور کے ماہر وتجزیہ کار محمد ملازھی نے ’’آرمان‘‘ نام کے اخبار میں کالم لکھا اور توقعات ظاہر کیں کہ عمران خان ایران و سعودیہ کے مابین تعلقات بہتر کرنے میں کردار ادا کریں گے۔ صحافی محمد نیک بخش نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کی جیت سے قبل تک ایسے محسوس ہوا تھا کہ عمران خان اپنے پیشروں سے قدرے الگ ثابت ہوں گے لیکن وہ آٹھ ماہ بعد ایران کے دورہ پر آسکے۔ صحافی نوذر شفیعی نے آرمان اخبار میں اپنے خیالات کا اس طرح اظہار کیا ’’ایک وقت تھا پاک ایران سرحد امن اور دوستی کی علامت سمجھی جاتی تھی لیکن اب وہاں بدامنی ہے۔امید ہے عمران خان سرحد کو محفوظ وپرامن رکھنے میں دلچسپی دکھائیں گے‘‘۔
ایرانی پارلیمنٹ کے رکن مرتضی صفاری کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان سعودی عرب کی جانب پہلے گیا ہے تو وہ اس کی ضرورت تھی۔ سعودی عرب نے اس کے ساتھ تعاون کیا۔ ہم جن مالی مشکلات سے گزر رہے ہیں اس حالت میں پاکستان کی مدد کرنا مشکل تھا۔ بہرحال اس سے اغماض ممکن نہیں کہ پاکستان دونوں ممالک کے درمیان توازن چاہتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہوسکتا ہے عمران خان سعودی عرب کا کوئی پیغام بھی ساتھ لائے ہوں۔ اگر پاکستان دونوں ملکوں کو قریب کرسکتا ہے تو بہت اچھی بات ہوگی۔
ایرانی رہبرمعظم علی خامنہ ای نے وزیراعظم سے ملاقات کے دوران کہا کہ دشمن ہمارے تعلقات خراب کرنا چاہتا ہے۔ ہماری سرحد پہ کچھ دہشت گرد جماعتیں فعال ہیں جنہیں دشمن کی جانب سے پیسہ اور اسلحہ فراہم کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے تعلقات تاریخی ہیں، ہم انہیں مزید مضبوط کریں گے۔
اگر ان سیاسی بیانات اور صحافتی حلقے کے ردعمل کودیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں اس دورہ کو خوش آئند تو قرار دیاگیا لیکن وہ بہت زیادہ پرجوش نظر نہیں آئے۔
فیس بک پر تبصرے