پارلیمان میں کھلے مباحثے کی ضرورت ہے
انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے دنیا بھر میں مختلف اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ بنیاد پرستی کا خاتمہ، غیر فعالیت،رجوع، مفاہمت، مصالحت، قومی دھارے میں واپسی، مکالمہ، انتہا پسندی سے گلوخلاصی جیسی اصطلاحات اگرچہ مقصدیت کے اعتبار سے باہم مترادف ہو سکتی ہیں لیکن ان کا لائحہِ عمل ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔مختلف معاشروں میں مختلف اصطلاحات کا استعمال بنیادی طور پردراصل کسی سماج میں ان اصطلاحات سے منسلک مخصوص سماجی و سیاسی سرگرمیوں کے ادراک کااظہارہے۔ مگردواصطلاحات، بنیادپرستی کاخاتمہ (Deradicalization)اورانتہاپسندی سے گلو خلاصی (Disengagement) کا استعمال عموماًزیادہ ہوتا ہے۔ ان دونوں اصطلاحات سے انفرادی یا اجتماعی دستبرداری کا عمل مراد لیا جا سکتا ہے۔انتہا پسندی سے گلوخلاصی کی اصطلاح رویہ جاتی تبدیلی کے لیے استعمال ہوتی ہے جبکہ بنیاد پرستی کے خاتمے کاتعلق فکری تبدیلی سے ہے، جس سے مرادتفہیم میں اساسی تغیر کا رونماہونا ہے۔ مرکزی دھار ے میں شمو لیت ایک حد تک ان افعال کے بعدہی ممکن بنائی جائی سکتی ہے۔ بنیاد پرستی کا خاتمہ اور انتہا پسندی سے گلو خلاصی ، یا آپ انہیں کوئی بھی نام دے دیجیے، اس وقت روبہ عمل ہوتے ہیں جب کسی جگہ پر نظریاتی، سیاسی اور سماجی و معاشی حوالے سے تبدیلیاں وقوع پذیرہوتی ہیں اور اس کے نتیجے میں غیر ریاستی عناصر کو سماج کے مرکزی دھارے میں شمولیت کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ ایسی متعدد عملی مثالیں افریقااور لاطینی امریکا میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
سال 2016۔2017 میں پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز اسلام آبادکے زیرِ اہتمام کالعدم جماعتوں کی قومی دھارے میں شمولیت کے ممکنہ مواقع سے متعلق موضوع پرماہرین کے ایک گروپ کے مابین مباحثے کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ اس گروپ کے سامنے دو کالعدم جماعتوں کی مرکزی قیادت کا موقف بھی پیش کیا گیا۔ ماہرین کے اس گروپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کالعدم گروہوں کی قومی دھارے میں شمولیت کے کسی بھی منصوبے سے متعلق قومی سمت کا تعین پارلیمان کی ذمہ داری ہے۔ اس مقصد کے لیے قومی سطح کے ایک با اختیار ’’سچائی اور مفاہمتی کمیشن‘‘ کا قیام عمل میں لایا جائے جو پہلے پہل ان پالیسیوں کا جائزہ لے جن کے نتیجے میں عسکریت پسندی کی نمو ہوئی۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ اس مباحثے میں واضح طور پر (قومی دھارے میں واپسی کے) ان امکانات سے استفادے کا اہل صرف ان روایتی گروہوں کو قرار دیاگیا ، جنہیں ریاستی پراکسی کہا جاتا ہے۔
تاہم ریاست کے لیے ایسے گروہوں کو بے اثر کرنا ایک بڑا مسئلہ ہے جو ماضی میں اس کے تزویراتی مفادات کی آبیاری کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔بیشتر ماہرین اور پاکستانی سماجِ عامہ کے ایک بڑے طبقے کی رائے یہ ہے کہ ان گروہوں کے ساتھ قانون کے مطابق معاملہ کرنا چاہیے اور پاکستان کے لیے لازمی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ چند ماہرین کا خیال ہے کہ ایسے گروہوں کو کس طرح قومی دھارے میں شامل کیا جاسکتا ہے جو دہائیوں سے جمہوریت اورآئین (جس کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ انسان کی جانب سے بنایا گیا ہے)مخالف ذہن سازی کرتے آئے ہیں۔ابھی بھی جماعۃ الدعوۃ کی جانب سے شائع کردہ آئین اور جمہوریت مخالف مواد دیکھا جا سکتا ہے۔اس جماعت کے جمہوریت مخالف نظریات کے پسِ منظر سے آگاہی کے لیے جماعۃ الدعوۃ کے بانی حافظ امیر حمزہ کی کتاب ’’قافلہ دعوت و جہاد‘‘سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
روایتی عسکریت پسند گروہوں کی قومی دھارے میں شمولیت کے مخالف ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عمل سے ان کے حوصلے بڑھیں گے اور ریاستی دباؤ میں نرمی آجانے کے بعدیہ گروہ دوبارہ اپنے بنیاد پرست اور متشدد نظریات کی جانب رجوع کر لیں گے۔ انہیں یہ خوف ہے کہ یہ گروہ پاکستانی سماج میں نفرت کے بیانیے کی ترویج پر کمر بستہ رہیں گے۔ موجودہ حالات میں صرف ان روایتی تنظیموں کوقومی دھارے میں شامل کرنے کا نقطہ نظر سودمند ہوسکتا ہے جنہوں نے کبھی ریاستِ پاکستان کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے۔ اگرچہ ان گروہوں میں بھی قومی دھارے میں شمولیت کا رجحان مختلف رہے گااور ان میں سے اس مفاہمتی عمل کی طرف کچھ گروہوں کا میلان باقیوں کی نسبت زیادہ ہو سکتا ہے۔تاہم یہ خوف بھی ساتھ موجود رہے گاکہ ان جماعتوں میں سے کوئی فرد یاکچھ چھوٹے دھڑے اپنی جماعت کو خیرباد کہہ کر کسی دوسرے متشدد گروہ میں شمولیت اختیار کرنا شروع ہو جائیں۔ان منتشر عناصر کے حوالے سے بھی کسی مصالحتی منصوبے کی موجودگی انتہائی ضروری ہے۔
ایک خیال یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ کالعدم جماعتوں کے اراکین کو نیم فوجی اداروں میں بھرتی کرلیا جائے۔ان جماعتوں کے اراکین کی نیم فوجی اداروں میں شمولیت کی تجویز 2002ء میں پرویز مشرف کے دور میں ان گروہوں پر پابندی کے پہلے فیصلے کے بعد سامنے آئی تھی جس پر بوجوہ عملدرآمد نہیں کیا جا سکا، جن میں سے ایک وجہ یہ خوف بھی تھا کہ اس طرح یہ نیم فوجی اداروں میں بنیاد پرستی کے فروغ کا باعث بن سکتے ہیں۔بنیاد پرستانہ رجحانات کی بیخ کنی کے ایک جامع عمل سے گزرنے کے بعد ہی یہ عسکریت پسند افراد نیم فوجی اداروں میں مختلف حیثیتوں سے شامل کیے جا نے کے اہل ہوسکتے ہیں۔ تاہم کم تجربہ کاری کے باعث یہ عمل حکومتِ پاکستان کے لیے ایک مشکل اور وقت طلب ثابت ہوسکتا ہے۔ فوج اگرچہ عسکریت پسند قیدیوں کی ذہن سازی کے لیے اس طرح کے تربیتی مراکز چلا رہی ہے، لیکن قانون نافذ کرنے والے سول اداروں میں ایسی گنجائش نہ ہونے کے سبب ایسا کوئی بھی نظم قائم کرنے کے لیے کافی وقت درکار ہوگا۔
یہ بات سچ ہے کہ عسکریت پسند گروہوں کا اپنے نظریات سے رجوع کرنا ایک مشکل امر ہے۔درحقیقت بعض اوقات چند فرقہ وارانہ اور عسکریت پسند گروہوں کا بدلتا رویہ ریاست کو جوابی طرزِ عمل کے حوالے سے مخمصے میں ڈال سکتا ہے، بالخصوص اس وقت جب یہ گروہ ہمہ قسم تشدد سے مکمل ناطہ توڑنے کے بدلے قومی سیاسی دھارے میں شمولیت کی گنجائش کا تقاضہ کرتے ہیں۔تاہم ہمیں نہ توایسے کوئی قابلِ اعتبار اشاریے میسرہیں، جن کی بنا پر ہم ان گروہوں کے نظریات یا رویوں میں تبدیلی کی جانچ کر سکیں اورنہ ہی ان جماعتوں یا گروہوں کے رہنما اپنی دوسری اور تیسری درجے کی قیادت اور کارکنان کی اس حوالے سے کوئی ضمانت دے سکتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کی کارروائیوں سے گریز کریں گے یا پھر کسی اور متشدد گروہ یا جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کر لیں گے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ عسکریت پسنداپنے پرتشدد نظریات اور ایجنڈوں پر کاربند رہتے ہوئے فلاحی کاموں اور سیاسی عزائم کے بل پر سماج میں اپنا نرم تأثرقائم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں، اورہم دیکھتے ہیں کہ ان کی یہ حکمتِ عملی کامیاب بھی رہی ہے۔بنیادی طور پر یہ گروہ نظریہ پاکستان سے،جو اپنی اصل میں مذہبی ہے، اپنے نظریات کو آسانی سے ہم آہنگ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، اور وہ اسی خلاسے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ان متشدد نظریات کی اثر انگیزی کو کم کرنے کے لیے لازمی ہے کہ سب سے پہلے عسکریت پسندوں کو چھپنے کے تمام تر مواقع، جو انہیں ریاست کے مذہبی و قومی دائرے میں میسر ہوتے ہیں، ان کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ثانیاً، ان گروہوں کے لیے ریاست کی تزویراتی جمع تفریق میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ثالثاً، ریاست عسکریت پسندوں اور فرقہ پرستوں کی ذرائع ابلاغ اور عوامی دائروں سے کامل بے دخلی کو یقینی بنائے، ان کے تشہیری و نظریاتی مواد پر مکمل پابندی عائد کرے، اور سائبر دنیا سے ان کی مکمل عدم موجودگی کی تدبیر کرے۔یہ تمام اقدامات انسداد عسکریت کی قومی پالیسی کا لازمی حصہ ہونے چاہییں۔
جہاں تک کالعدم تنظیموں کے انتخابی عمل میں شمولیت اور پارلیمان کاحصہ بننے کی بات ہے تو یہ خیال کسی طور درست نہیں ہوسکتا ،کیوں کہ یہ گروہ اس مصالحتی عمل کو اپنی بقا کے لیے استعمال میں لا سکتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ان تنظیموں کو اپنی سیاسی جماعتیں تشکیل دینے کی اجازت دی جائے، ان تنظیموں کے ایسے افراد جو کسی جرم یا ممنوعہ سرگرمی کا حصہ نہیں رہے ہیں، انہیں مذہبی سیاسی جماعتوں سمیت قومی سیاسی جماعتوں میں شمولیت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔کالعدم گروہوں کے ساتھ معاملہ کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی لائحہِ عمل درکار ہوتا ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ پارلیمان اور سماج کے تمام متعلقہ طبقات کی مدد ومعاونت اور رضا مندی سے یہ لائحہِ عمل طے کرے۔
کسی بھی فرد کو اس حقیقت سے انکار نہیں کرنا چاہیے کہ یہ تنظیمیں سیاسی چھتری کو اپنے سیاسی اثرور سوخ اور پہنچ کو بہتر کرنے اور حکومت کے ساتھ تصادم سے بچنے کی بجائے سماج میں اپنا نرم تاثر پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ملی مسلم لیگ کا قیام اس طرزِ عمل کی نمایاں مثال ہے۔ایک اور بات جو انتہائی اہم ہے، وہ یہ کہ مدارس کا مسئلہ انسداد عسکریت پسندی کی حکمتِ عملی کے تحت حل کرنے کی بجائے ریاست کو علیحدہ لائحہِ عمل مرتب کرنا چاہیے جو مکمل نگرانی اور درجہ بہ درجہ اصلاحات جیسی خصوصیات کا حامل ہو۔ابتدائی طور پر مدارس کی رجسٹریشن یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ مدارس کو رسمی تعلیم کے لیے روزانہ کی بنیاد پر چند گھنٹے مختص کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
تاہم عسکریت پسندوں کے اثاثہ جات ، جو اسکولوں، فلاحی تنظیموں اور مراکزِ صحت کی صورت موجود ہیں،کی تنظیم ان گروہوں کے ساتھ مصالحت کے حکومتی لائحہِ عمل کا ایک مشکل مرحلہ ہو گا۔ہاں البتہ یہ فلاحی مراکزقانونی فلاحی اداروں یا مقامی حکومتوں کے سپرد کیے جا سکتے ہیں۔ عسکریت پسند گروہوں کو قانون کے دائرے میں لانے کے حکومتی اقدامات پر نظرِ ثانی انتہائی ضرروی ہے۔ حکومت ان تنظیموں کے مالی اثاثے منجمد کر سکتی ہے،ان کی فلاحی و تنظیمی سرگرمیوں کو روک سکتی ہے، ان کی قیادت کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قوانین کی مختلف شقوں کے تحت کارروائی بھی کر سکتی ہے ،اور سب سے انتہائی قدم یہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ ان کی شہریت ہی منسوخ کر دے ۔ لیکن کیا ان اقدامات سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا؟کیا ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ سماج میں ان عناصر کی جڑیں کس قدرگہری ہیں؟ان کے اوسط اور نچلے درجے کے اراکین کا اثرو رسوخ اور ان کی عددی قوت کیا ہے؟اور ان اقدامات پر ان کا رویہ اور جوابی طرزِ عمل کیا ہوگا؟
ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ انتہا پسندی نے اس وقت تقریباً پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس کے انسداد کے لیے مختلف مسلم اورمغربی ممالک میں مختلف حکمتِ عملیاں مرتب کی گئی ہیں۔ یہ پالیسیاں ایک سی نہیں بلکہ ہر ملک نے اپنے مخصوص ثقافتی، سماجی اور سیاسی تناظر میں ان کو ترتیب دیا ہے۔ان منصوبوں کا بنیادی مقصد انتہا پسندی اور عسکریت پسندانہ رجحانات کی اثر پذیری کے آگے بند باندھنا، رویوں میں تبدیلی اور مسلح تحریکوں سے علیحدگی اختیار کر لینے والوں کی سماج میں واپسی ممکن بنانا ہے۔چونکہ کوئی بھی عسکریت پسند کسی خاص سیاسی یا نظریاتی کاز سے منسلک ہوتا ہے، چنانچہ اسے اس کے انتہا پسند اور متشدد رجحانات سے علیحدہ ہونے پر مائل کرنایقیناً ایک مشکل امر ہے۔
اسی طرح کسی بھی لائحہِ عمل کے کامیاب یا ناکام ہونے کے بارے میں فیصلہ کرنا بھی آسان نہیں ہے، حکومتوں کے دعوے کچھ بھی ہوں، کسی بھی ملک میں انسداد عسکریت پسندی کی کسی بھی حکمتِ عملی کے نتائج و مضمرات بہرحال بحث طلب ہیں۔
فیس بک پر تبصرے