شاہ راگ: بے حسی کی آماجگاہ ایک پاکستانی قصبہ

اکبر نوتے زئی مترجم: شوذب عسکری

1,486

اکبر نوتے زئی پاکستان کے موقر قومی جریدے’ڈان‘ سے وابستہ صحافی ہیں، ان کے تحقیقی مضامین ’ڈان‘ میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔ سماجیات ان کا خاص موضوع ہے۔ ’ڈان‘ میں شائع شدہ ان کازیرِنظر مضمون بلوچستان کے معروف سیاحتی قصبے شاہراگ میں بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی پر لکھا گیا ہے۔ اس قصبہ میں کوئلے کی کانوں میں تنگ دست گھروں کے بچے اپنے خاندان کی کفالت کی غرض سے کام کے لیے آتے ہیں لیکن وہاں ان کو پْر مشقت مزدوری کے ساتھ جنسی اذیت کا سامنا بھی رہتا ہے۔دکھ کی بات یہ ہے کہ یہاں اس استحصال اور قبیح فعل پر نہ صرف اہلِ علاقہ بلکہ والدین بھی مجرمانہ حد تک چپ سادھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں لڑکوں پر جنسی تشدد پاکستان کے ایسے چند بنیادی مسائل میں سے ایک ہے جس پر تمام معاشرہ دانستہ آنکھیں بند کیے دکھائی دیتا ہے۔اکبر نوتے زئی کا یہ مضمون ہمیں اس مسئلے سے مفصل آگاہی فراہم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہاں آپ جب بھی کبھی دیکھیں گے تو آپ کو انسانوں کے روپ میں بھیڑیے دکھائی دیں گے ۔شاہ راگ کا قصبہ ایسی ہی جگہوں میں سے ایک ہے۔

بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں ایک وادی کے اندر واقع اس قصبے میں کوئلے کی تین سو سے زائد کانیں موجود ہیں جہاں تیس ہزار کے لگ بھگ کان کن مزدور کام کرتے ہیں۔ یہاں کام کرنے والوں میں بچے بھی شامل ہیں مگر ان کی تعداد کا کوئی سرکاری حساب نہیں رکھا گیا ہے۔ اس قصبے کی اکثریتی آبادی پشتون ہے تاہم پہاڑوں پر کہیں کہیں بلوچ آبادیاں بھی موجود ہیں۔ قصبے کی اکثر زمینوں کے مالک پشتون ہیں جو یہاں کی اکثریتی آبادی بھی ہے۔ تحصیل شاہ راگ کے جنوب میں کوئلے کی کانیں موجود ہیں۔ اسی پہاڑی علاقے میں بلوچ مری قبائل آباد ہیں جو ان کانوں پر محنت مزدوری کرتے ہیں۔

ایک مقامی پشتو ن خانہ بدوش کا کہنا ہے کہ ’’ شاہ راگ میں کوئلے کی کانوں پہ اتنا کام ہے کہ یہاں کوئی بھی فارغ نہیں رہتا۔ اگر کوئی میرے پاس 200 افراد کو بھی لے آئے تومیں انہیں اسی وقت ان کانوں میں مزدوری پر لگادوں ۔‘‘یہاں کام کرنے والوں میں اکثر پنجاب اور خیبرپختونخوا سے آئے ہوئے لوگ شامل ہیں۔ کچھ مزدور ایسے بھی ہیں جن کاتعلق سرحد پار افغانستان سے ہے ۔باہر سے آ کر کام کرنے والوں کی تعداد لگ بھگ یہاں کام کرنے والوں کی کل تعداد کا 80 فیصد ہوگی جبکہ باقی 20 فیصد یہاں کے مقامی کان کن ہیں جس میں نمایاں تعداد مری قبیلے سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کی ہے۔

شاہ راگ کا قصبہ ایک روایتی علاقہ ہے جہاں مذہب پسندی کا رنگ نمایا ں ہے اور یہ ایک روایتی طرز کا پدرسری معاشرہ ہے۔ خواتین کبھی کبھار ہی گھروں سے باہر آتی ہیں۔ زندگی کے عمومی رنگ پر مردوں کی حکمرانی غالب ہے۔ شاہ راگ ویسے بھی باقی بلوچستان سے الگ تھلگ واقع ہے ۔ یہاں کے باسیوں میں شاید ہی کوئی اس بات سے آگاہ ہو کہ باقی ملک میں کیا ہورہا ہے۔ ملک بھر میں بھی شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے یہ فکر ہو کہ شاہ راگ میں کیا ہورہا ہے۔ اس تنہائی میں شاہ راگ نے کامیابی سے اپنے مکروہ راز کو چھپا رکھا ہے۔
’’ یہاں کے لڑکے یہاں کے مردوں کے شر سے محفوظ نہیں ہیں۔‘‘

جس روز 13 سالہ کلیم، جس کا تعلق ضلع دیر سے ہے یہاں پہنچا تو اسے اپنے استقبال کی کوئی توقع نہیں تھی تاہم کان کن مزدوروں کی کالونی میں اس کی آمد کا انتظار کیا جارہا تھا۔جب وہ الگیلانی نامی پہاڑوں کے سلسلے میں پہنچا، جہاں کوئلے کی لگ بھگ آٹھ کانیں واقع ہیں ،وہاں اس کی آمد سے پھیلنے والا جوش و خروش واضح ہوگیا۔ دیر سے تعلق رکھنے والے کان کنوں نے ایک نئے لڑکے کو بلوایا ہے، یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ جلد ہی وہ شہر بھر کا موضوع سخن بن چکا تھا اور اسے دیکھنے کی خاطر دیگر کانوں کے مزدور بھی آرہے تھے۔ کلیم کوئی نئی نویلی دلہن نہیں تھا تاہم وہ ایک نیا لڑکا ضرور تھا، جو ہوس ناک حریص مردوں کی ہوس پوری کرنے کا سامان بن سکتا تھا۔

میں شاہ راگ قصبے سے پہاڑوں کی جانب صبح سویرے ہی نکل گیا تھا۔ مجھے مقامی لوگوں نے کلیم کے متعلق بتایا تھا۔ کلیم پہاڑوں پر گارے اور پتھروں سے بنے جس مکان میں رہتا ہے وہاں تقریباََ 20 افراد رہ رہے ہیں جن میں سے 2 اس کے ہم عمر ہیں۔ اس مکان میں 2 کمرے اور ایک باورچی خانہ ہے۔ وہ کمرہ جہاں ہم گفتگو کی خاطر بیٹھے تھے، وہاں کوئی بلب یا روشنی نہیں تھی بس وہی روشنی تھی جو کمرے میں موجود جلتے ہوئے چولہے سے آرہی تھی۔

کلیم نے پیلی سپورٹس شرٹ کے ساتھ کالی شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔جب ہماری ملاقات ہوئی تو اس وقت سہ پہر کے 3 بجے تھے۔ خوش قسمتی سے وہاں ہمارے علاوہ اور کوئی موجود نہیں تھا۔ اس کے تمام ساتھی تقریباََ 1700 فٹ زیرزمین کوئلے کی کان میں کام کررہے تھے۔چولہے پر سیاہ رنگ کا چائے کا برتن دھرا تھا جس میں پانی ابل رہا تھا۔ کلیم ہمیں بتاتا ہے کہ پچھلے ایک ہفتے سے شاہ راگ کا موسم منجمد کردینے والا ہے۔ وہ چولہے کے ساتھ اکیلا بیٹھا ہوا ہے، صاف ستھرا، اس کے بال سیاہ ہیں اور اس نے سر کے درمیان سے مانگ نکال رکھی ہے۔ ہمارا خیر مقدم کرنے کے بعد اس نے ہم سے کوئی بات نہیں کی ،بس چپ چاپ باہر گیا۔ دو کپ دھوئے اور ہمارے لییقہوہ لے آیا۔
کلیم ایک شرمیلا لڑکا ہے، وہ ان تمام سوالوں کو نظرانداز کردیتا ہے جو ہم نے اس سے پوچھے ہیں۔ بہت سے سوالوں کے جواب میں وہ محض ہوں ہاں ہی کیے جارہا ہے۔ وہ اچانک پھٹ پڑتا ہے۔
’’ میرا باپ مر چکا ہے، میں یہاں کام کرنے آیا ہوں تاکہ دیر میں اپنے خاندان کی مالی مدد کر سکوں۔‘‘
’’کس طرح کا کام؟‘‘’’میں یہاں باورچی ہوں۔‘‘ وہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتا ہے۔
کلیم شاہ راگ میں اپنے بھائی کی جگہ پر آیا ہے۔ وہ کل چار بھائی ہیں، وہ بتاتا ہے کہ اس کا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے۔ اس نے اپنے آبائی گاؤں میں ہی پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے اور پھر سکول چھوڑدیا۔ اس کا خاندان غربت میں پس رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ مجھ سمیت تمام بچے یہاں کام کرتے ہیں، کیونکہ ہمارے بزرگ موجود نہیں ہیں۔ یا تو وہ مرچکے ہیں ، یا معذور ہیں یا پھربیمار۔ کلیم بتاتا ہے کہ میری تنخواہ دس ہزار ہے۔

یہاں سے شاہ راگ کی کوئلے کی کانوں کا بدصورت سچ شروع ہوتا ہے۔ کلیم جیسے بچوں کو خیبر پختونخوا یا افغانستان جیسے علاقوں سے جنسی تشدد کی خاطر یہاں لایا جاتا ہے۔ ان بچوں کو کوئلے کی کانوں کے مزدور بطور جنسی ساتھی استعمال کرتے ہیں۔ یہ بچے یا تو خوف کے سبب کچھ نہیں کہتے یا وہ پیسے کے بدلے میں خاموش رہتے ہیں۔ پہلے پہل تو کلیم اس صورت حال پر بات کرنے کو رضامند نہیں تھا۔ جب یہ پوچھا گیا کہ کیا اسے بھی جنسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ کان پر کام کی پہلی شفٹ 3 بجے سہ پہر ختم ہوتی ہے تو کان کن باہر آجاتے ہیں۔ وہ سب ہمارے پاس آکر بیٹھ گئے تو ہم نے اپنا موضوع گفتگو جلدی سے بدل دیا۔ اب ہمارا موضوع کان کے اندر کام کرنے والے مزدوروں کی مشکلات تھا۔ جب میں وہاں سے رخصت ہورہا تھا تو میں نے دیکھا کہ کلیم دور پتھروں پر ایک لمبے قد کے آدمی کے ساتھ بیٹھا تھا اور اس سے گپ شپ کررہا تھا۔

’’وہ (کلیم) ان کا خاص لڑکا ہے ۔‘‘ ایک مقامی کان کن جو میرے ساتھ آیا تھا اس نے مجھے بتایا۔ جو ماہانہ تنخواہ اسے ملتی ہے ،وہ جنسی تسکین فراہم کرنے کے لیے ملتی ہے نہ کہ کسی کام کاج کے بدلے میں۔ یہ سب اس کو کوئلے کی کان میں جانے ہی نہیں دیتے کہ کہیں اس کا رنگ نہ کالا ہوجائے۔

16 سالہ شاہ فرمان جو کہ 2017 میں سوات سے آیا تھا، اس کے ساتھ یہ معاملہ نہیں تھا۔ وہ کان کے اندر کوئلے کاٹنے کا کام کرتا ہے۔ جس کے بدلے میں اسے 35 ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔ لیکن جب وہ کان کے اندر کام کررہا ہوتا ہے تو اسے اکثر مردوں کی طرف سے جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی کو بھی اس کی کوئی پروا نہیں کہ اس کا روزانہ ریپ ہوتا ہے ،وہ بتاتے ہیں کہ یہ سب روز کا معاملہ ہے۔

جنسی تشدد کرنے والوں میں ہر عمر اور ہر طرح کے لوگ شامل ہیں، تاہم وہ خود کو ایک عام آدمی کے طور پر ظاہر کرتے ہیں جو ایک عام زندگی گزار رہا ہے۔ مثال کے طور پر ثاقب، جو ایک مقامی کان کن ہے۔ جس کی عمر 40 کے پیٹے میں ہوگی۔ اس کی سیاہ داڑھی اور مونچھوں میں سفید بال جھلکتے ہیں ،جس وقت ہماری ملاقات ہوئی اس نے سفید ٹوپی پہن رکھی تھی اور ایک پرانی چادر میں خود کو لپیٹ رکھا تھا۔ وہ پچھلے 15 سالوں سے کان کنی کے کاروبار میں تھا۔ وہ ہمیں شاہ راگ قصبے سے دور ہرنائی روڈ کے پاس کھیل کے ایک گراؤنڈ میں ملا۔

جب میں نے اس سے سوال پوچھا تو وہ چلایا،’’ وہ معلومات جو آپ مانگ رہے ہیں وہ بہت عجیب سی بات ہے، میں تمہیں یہ کیسے بتا سکتا ہوں کہ ہم لڑکوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں ‘‘۔ تاہم تھوڑی ہی دیر بعد وہ بات کرنے پر رضامند ہوگیا۔ وہ بول رہا تھا’’ہاں! میں نے کان میں اور کان کے باہر بھی لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کی ہیں۔ یہ کچھنئی بات نہیں ہے۔ سواتی اور افغانی کان کن اپنے اپنے’’چھوٹے ‘‘ ساتھ رکھتے ہیں۔ جنہیں وہ جنسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔میرا کوئی ’’چھوٹو‘‘ نہیں ہے۔ میں مقامی ہوں۔ یہ میری استطاعت سے باہر ہے ۔

کوئلے کی کانیں لگ بھگ 6000فٹ گہری ہیں۔ ثاقب بتاتا ہے کہ بچے وہاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ’’اندر کوئلے کی کان میں ہمارے ساتھ دو یا تین بچے بھی کوئلہ کاٹنے کا کام کرتے ہیں اور جب بھی ہم مردوں کا دل چاہتا ہے ہم ان کے ساتھ جنسی زیادتی کر لیتے ہیں۔ یہ ایک عام اور معمول کا کام ہے ”۔وہ سوچنے کیلیے خلا میں گھورنے لگتا ہے۔’’ جیسے جیسے آپ کوئلے کی کان میں کام کرتے ہو، آپ کو اس کام سے نفرت ہونے لگتی ہے۔‘‘ایسالگ رہا تھا جیسے وہ بچوں کے ساتھی جنسی زیادتی کو فرار کا ایک ذریعہ بتانا چاہتا ہے۔

شاہ راگ کے قصبے میں ایک مرکزی جگہ بسوں کا اڈا ہے۔ وہ تمام کان کن افراد، جو پہاڑوں سے کوئلہ نکال کرقصبے میں لاتے ہیں یا وہ سب جو قصبے سے باہر سفر پرنکلتے ہیں، چائے اور سستانے کے لییلاری اڈے پر ضرور رکتے ہیں۔ہم اڈے پر بیٹھے ہیں۔ ہمارے ارد گرد درجن بھر چھوٹے بڑے ٹرک کھڑے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو کان سے کوئلہ بھر کے واپس آئے ہیں اور کچھ خالی ہیں جنہیں ابھی وہاں تک کا سفر طے کرنا ہے۔ اس سارے شور شرابے میں ہمیں اس آدمی کا انتظار ہے جسے ’’سراپِشی‘‘ یعنی لال بلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سرا پشی ایک 56 سالہ ادھیڑ عمر مرد ہے جو علاقے میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے حوالے سے بدنام زمانہ تصورکیا جاتا ہے۔ اڈے پر لوگ اسے سرخ بلی کی عرفیت سے جانتے ہیں کیونکہ اس کی جلد کا رنگ اور اس کی داڑھی مونچھوں کا رنگ سرخ ہے۔وہ ایک کونے سے ہوٹل میں داخل ہوا۔ اس نے چادر اوڑھ رکھی تھی اور سرخ رنگ کی افغانی ٹوپی اور ایک ڈھیلا ڈھالا کوٹ پہن رکھا تھا۔ اس نے ہمیں سلام کیا اور پھر خاموش ہوگیا۔ میں نے اپنا چائے کا کپ اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے معذرت کی کہ وہ چائے نہیں پیے گا۔ اس نے اپنی جیب سے کچھ اخروٹ نکالے اور ان کا چھلکا پتھر سے توڑ کر کھانے لگا۔’’کیا تمہیں لگتا ہے کہ میں کوئی پاگل ہوں کہ ایسے آدمی کے سامنے بولوں گا جس کے ہاتھ میں کاغذ قلم ہو گا؟‘‘سر اپشی اپنے اخروٹ کھاتا رہا جب تک کہ میں نے اپنا قلم اور ڈائری بیگ میں نہیں رکھی۔ آخرکار اس نے ثاقب کی طرح مان لیا کہ وہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کرتا ہے۔

’’ بعض دفعہ بچے خود ہی آجاتے ہیں ‘‘، سراپشی نے دعویٰ کیا ، اور اگر ایسا نہ ہو تو میں پہچان لیتا ہوں کہ کون سا بچہ میرا شکار بن سکتا ہے۔
اگرچہ بچوں کو بسوں کے اڈے پر چھوٹا موٹا روزگار مل ہی جاتا ہے، لیکن اگر ایسا نہ ہو تو جنسی مشقت ایک متبادل ذریعہ آمدنی کے طور پر ہمیشہ موجود رہتی ہے۔اس کی بات سن کر میں حیران رہ گیا۔ بسوں کے اڈے پر بہت سارے بچے موجود تھے۔ ہم نے دیکھا کہ ان میں سے اکثر کی عمریں 7 سال سے لے کر 18 سال تک کے درمیان تھیں۔ ان میں سے کتنے ایسے ہوں گے جن کے ساتھ جنسی زیادتی کا خطرہ ہوگا؟اگر سراپشی کی بات کا یقین کرلیا جائے تو ان تمام بچوں کے ساتھ عمر کے کسی نہ کسی حصے میں جنسی زیادتی ہوئی ہے۔ سراپشی کے جنسی تشدد کا سامنا کرنے والوں میں 9 سالہ ذوالفقار بھی شامل ہے جو کوئلے کی کان سے مٹی اور ریت نکالنے کا کام کرتا ہے۔ وہ وہاں اس وقت سے کام کررہا ہے جب وہ 6 سال کا تھا۔

’’ یہ جنسی تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے‘‘ ،ذوالفقار اس سوال کو اہمیت ہی نہیں دیتا۔ ’’ہمارے والدین ہمیں یہاں پیسے کمانے کے لییبھیجتے ہیں، انہیں اس کی کوئی پروا نہیں کہ ہم کس طرح کمائیں۔‘‘ذوالفقار کی ایک بہن اور چار بھائی ہیں۔اس کا باپ بڑھاپے کی وجہ سے کمانے کے قابل نہیں ہے۔اسی سبب اسے اڈے پر آنا پڑا، اس کی ماں نے اسے اسی خاطر یہاں بھیجنا گوارا کیا کیونکہ اسے رقم کی ضرورت ہے۔ 9 سالہ ذوالفقار نے وضاحت کی کہ’’میری ماں نے ہمارے ہمسایوں کے بچوں کو پیسے کما کرلاتے ہوئے دیکھا تھا اس لیے مجھے بھی کمائی کے لیے باہر بھیج دیا‘‘۔ذوالفقار یہاں اڈے پر ٹرکوں پرکوئلے لادنے کا کام کرتا ہے۔ بعض دن ایسے بھی ہوتے ہیں جب وہ اپنے ننھے ہاتھوں سے 60 کلو تک کاکوئلہ اٹھا کر ٹرک پر لادتا ہے۔ ’’مجھے یہ سب کام کرنے آتے ہیں۔ کبھی کبھار میں دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر چار ٹرکوں پر مال لوڈ کر لیتا ہوں۔‘‘ ذوالفقار نے سردی سے بچنے کے لیے اپنے جسم کے گرد چادر لپیٹتے ہوئے فخریہ انداز میں کہا۔’’ایک ٹرک کو لادنے کیلیے چار بچوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں ایک دن کے 400 روپے ملتے ہیں۔‘‘

مگر اس طرح کے کام کے دوران بچے مردوں کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں۔ اکثر اوقات انہیں جوان مردوں کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس دوران انہیں اپنے جسم پر اختیار نہیں رہتا کیونکہ مرد انہیں غیر اخلاقی طریقے سے چھوتے ہیں اور دراز دستی کرتے ہیں۔ یہ جنسی تشدد کی سب سے چھوٹی شکل ہے اور اس کی انتہا ریپ ہے۔’’میں ٹرک ڈرائیور بننا چاہتا ہوں، اور کچھ نہیں۔‘‘ذوالفقار نے اپنی زندگی کی خواہش کا اظہار کیا۔ اگر اس خواہش کی جانچ کریں تو شاید بہت سے بدصورت سچ سامنے آنے لگیں۔ ٹرک ڈرائیور عام طور چھوٹے بچوں کے ساتھ سفر پر نکلتے ہیں ،جنہیں وہ جب چاہیں جنسی جارحیت اور تشدد کانشانہ بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر 12 سالہ فقیر سارا دن ٹرک ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا رہتا ہے اور ٹرک ڈرائیور اسے صرف جنسی مقاصد کے لییاستعمال کرتا ہے۔ اسے روزانہ کے 400 روپے ملتے ہیں۔

سرا پشی نے دعویٰ کیا تھا کہ بچے اس کے پاس خود ہی آجاتے ہیں، کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ و ہ پیسے دیتا ہے۔20 بچوں سے انٹرویو کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ اس خوف کی وجہ سے کہ اگر وہ گھر خالی ہاتھ گئے تو کیا ہوگا، یہ بچے جنسی تشدد سہنے پررضامند ہوجاتے ہیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ان بچوں کے ساتھ سہانے وعدے کییجاتے ہیں، یا ان سے تحفے تحائف کا وعدہ کیا جا تا ہے۔ سراپشی بتاتا ہے کہ وہ ایک بچے کو موبائل فون کے بدلے میں کافی عرصے تک جنسی تشدد کا نشانہ بناتا رہا۔ ان بچوں کو دییجانے والے دیگر تحائف میں منشیات بھی شامل ہیں۔
پس پردہ انٹرویوز اور شاہ راگ کے بچوں سے گفتگو کے دوران مجھے علم ہوا کہ ان کے والدین کو پتہ ہے کہ ان کے بچے جنسی تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔ لیکن وہ اپنے کان اس شکایت سے اس لیے بہرے کر لیتے ہیں کہ یہ بچے پیسے کما کرلاتے ہیں۔ اور انہیں اپنے گھروں کے گزارے کے لیے ان پیسوں کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے شاہ راگ کے بچوں کی’’دوستیاں‘‘ جن مردوں کے ساتھ ہیں وہ ان کے والدین کی عمروں کے ہیں۔اسی اثنامیں سرا پشی نے ہمیں بتایا کہ وہ ٹرکوں کے پاس کھڑے بچوں کو گھیرتا ہے، ایک لڑکا اس کا پسندیدہ ہے،وہ اسے سہ پہر کے بعد اپنے ہاں بلاتا ہے، وہ اس کے ساتھ جنسی عمل اپنے گھر پر انجام دیتا ہے تاکہ وہ بچہ اپنے آپ کو’’اہم ‘‘ محسوس کرے۔

سرا پشی نے بتایا کہ 12 سالہ ناصر ایک خوبصورت لڑکا تھا، جیسا کہ اکثر افغان لڑکے ہوتے ہیں۔ اس کا خاندان افغانستان سے ہجرت کرکے پناہ کی تلاش میں پاکستان آیا تھا۔ اپنے خاندان کی آمدن کے لیے ناصر کوئلے کی کان کے باہر روزمرہ استعمال کی چیزیں بیچا کرتا تھا۔ کان کن بتاتے ہیں کہ وہاں موجود مزدور اسے جنسی طور ہراساں کیا کرتے تھے۔ وہ ایک کان کن کی جنسی جارحیت کو جھٹک دیا کرتا تھا مگر اسے مالی امداد کیلیے پھراسی سے ہی پیسے ملتے تھے۔ ایک دن اس کی زندگی کا سب سے بُرا دن آگیا۔ اس روز وہ کان پر گیا مگر وہاں سے واپس آتے ہوئے اسے مبینہ طور پر دو مزدوروں نے، جن کا تعلق افغانستان سے تھا، اغواکر لیا۔اس کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد اسے اغوا کرنے والوں نے اس خوف سے کہ وہ کہیں پولیس کو اطلاع نہ کردے،اسے قتل کردیا۔ انہوں نے اس کی لاش کو وہیں کان کے پاس دفن کردیا کہ کہیں پولیس اور اس کے گھر والے اس کی لاش کو تلاش نہ کرلیں۔ اس سے پہلے کہ کوئی اس کی قبر کو تلاش کرسکتا اس کے قاتل قندھار افغانستان فرار ہوگئے اور انہیں کبھی بھی گرفتار نہیں کیا جا سکا۔

اس کہانی کے ذریعے شاہ راگ کے کچھ مقامی لوگ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بچوں کے جنسی استحصال کا معاملہ صرف کوئلے کی کانوں تک محدود ہے، شاہ راگ قصبے میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دیگر کے مطابق یہ بہت سی ان گنت کہانیو ں میں سے محض ایک ہے۔ بچوں کے جنسی استحصال کے ان گنت واقعات اس کے علاوہ ہیں۔ شاہ راگ کے قصبے میں ہرنائی روڈ کے پاس پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کوآپریشن کا دفتر واقع ہے۔ اس کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ پی ایم ڈی سی نے شاہ راگ میں6551 ایکڑسے زائد کی زمین لیز پر دے رکھی ہے۔ چائے پیتے ہوئے وہاں دفتر میں موجود نوجوان اسسٹنٹ شاہ عباس شاہ نے مجھے بتایا کہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے پاس یہاں اس علاقے میں 300 سے 400 کے لگ بھگ کانیں موجود ہیں مگر ہمارے دفتر کے ساتھ محض 500 کان کن رجسٹرڈ ہیں۔

شاہ عباس بتاتے ہیں کہ ان کا ڈیپارٹمنٹ بہت مستعد ہے۔ وہ ہر کان کا روز معائنہ کرتے ہیں کہ اس کی گہرائی کہاں تک پہنچی ہے۔ وہ ان بچوں کی بھی دیکھ بھال کرتے ہیں جو کانوں پر کام کرتے ہیں۔ اگرچہ سچائی اس سے یکسر مختلف ہے۔ ایک اقدام جو حکومت نے اٹھایا ہے وہ یہ کہ اس نے شاہ راگ میں کان کن مزدوروں کے بچوں کے لییکانوں کے پاس ایک اسکول قائم کررکھا ہے۔ اگرچہ یہ ایک ہائی اسکول ہے، تاہم پہلی نگاہ میں ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک پرائمری اسکول ہے اور بہت بُری حالت میں ہے۔ا سکول کی دیواریں ٹوٹی ہوئی ہیں۔طلبہ اور اساتذہ دونوں ہی کے لیے پانی کا انتظام ہے نہ ہی بیت الخلا۔ تاہم یہ ا سکول یہاں کے بچوں کے لیے امید کی ایک کرن ہے اور اس میں بڑا کردار یہاں کے اسلامیات کے استاد حافظ بشیر کا ہے۔

حافظ بشیر نے سفید شلوار قمیض کے ساتھ سیاہ واسکٹ پہن رکھی تھی اور انہوں نے سفید رنگ کی پگڑی باندھ رکھی تھی۔ اپنے ساتھی اساتذہ میں وہ ایک اصول پسند استاد کے طور پر مشہور ہیں۔ و ہ کوئلے کی کانوں پر جاتے ہیں اور والدین کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو کام پر بھیجنے کی بجائے سکول میں بھیجا کریں۔ بعض دفعہ والدین نرم روی سے پیش آتے ہیں اور بعض اوقات وہ ان سے الجھتے ہیں۔ ’’ میرا صرف اورصرف ایک مقصد ہے کہ کوئلے کی کان پر کام کرنے والے مزدورو ں کے بچے سماجی برائیوں کا نشانہ نہ بنیں۔ میں صرف اس ایک مقصد کی خاطر ان کے پاس جاتا ہوں۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ وہ اس امر سے آگاہ ہیں کہ ان بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کی جارہی ہیں اور یہ ان کے لیے بھی بہت تکلیف دہ ہے۔

شاہ راگ بلوچستان میں واقع ایسی جگہوں میں سے ایک ہے جہاں کے بچے جنس سے وابستہ کشش سے بے زار ہوتے جارہے ہیں۔ جنسی تعلق شاید پیسے کمانے کا ایک ذریعہ ہے، یا اس کے ذریعے سے کسی اور پریشانی کو بھلایا جارہا ہے۔ بچوں میں یہ صورت حال اس لیے بھی شدید خطرناک ہے کہ انہیں یہ سب کچھ نارمل لگنے لگا ہے اور وہ خود بھی دوسرے بچوں کے ساتھ ایسا ہی جنسی تشدد کرنا چاہتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ایسا 16 سال کی عمر سے بھی پہلے ہونے لگتا ہے۔

حافظ بشیر بتاتے ہیں کہ جب بچے یہاں داخل ہوتے ہیں تو انہیں کسی چیز کا کوئی علم نہیں ہوتا۔ انہیں باہر کی دنیا کا کوئی علم نہیں ہوتا اور جسے مہذب دنیا کہتے ہیں اس کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی پتھر کے زمانے میں رہ رہا ہو۔ تعلیم کے ذریعے ہم انہیں غلط اور صحیح کی پہچان کروا رہے ہیں۔ ہم انہیں ان کے حقوق کے متعلق تعلیم دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
حکومت پاکستان نے شاہ راگ میں بھی لڑکے اور لڑکیوں کیلیے سکول قائم کیے ہیں۔ ان ا سکولوں کے علاوہ قصبے میں مدارس بھی موجود ہیں۔ جب ہم نے بچوں کے والدین سے پوچھا کہ وہ اپنے بچوں کو مدرسے میں کیوں بھیجنا چاہتے ہیں، ا سکول میں کیوں نہیں بھیجتے تو کم و بیش سب کا یہی جواب تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ قیامت کے دن ان کے بچے جنت میں جائیں۔ اسی لیے ان کے بچے مدرسے میں پڑھتے ہیں، ا سکول میں نہیں ۔ حافظ بشیر اسلامیات کے استاد ہونے کے باوجود بچوں کے والدین کو اس بات پر آمادہ نہیں کرسکے کہ وہ اپنے بچوں کومدرسے کی بجائے ا سکول بھیجیں۔ ایک اور وجہ جس کی بنا پر والدین اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیجتے ، وہ دیر سے تعلق رکھنے والا ایک بچہ ہے جس کا نام عابد صدیق ہے۔

عابد صدیق 2008 تک ایک لائق طالب علم تھا اور اس نے میڑک یہاں کے ہی ا سکول سے پاس کی تھی۔ اگرچہ اس کے اساتذہ کو اس کے مستقبل کے حوالے سے بہت امیدیں تھیں مگر وہ اب اسی الگیلانی نام کی کوئلے کی کان میں کام کرتا ہے جہاں وہ بچپن میں کام کیا کرتا تھا ۔ بین السطور میں استاد نے نفسیاتی تکلیف کی جانب اشارہ کیا، جس سے شاہ راگ کے لڑکے گزر رہے ہیں۔ وہ جن کے ساتھ بچپن میں جنسی تشدد کیا گیا وہ اب خود سے چھوٹے بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کررہے ہیں جیسے ان کے ساتھ بچپنے میں کیا گیا تھا۔ اس موضوع پر بہت زیادہ تحقیق کی جا چکی ہے کہ وہ بچے جن کے ساتھ جنسی تشدد ہوتا ہے ،وہ بڑے ہوکر خود بھی یہی عمل دہراتے ہیں ۔ یہ تشدد نسل در نسل چلتا ہے۔جنسی تشدد کا سفر دائروی ہے خاص طور پر وہ افراد جو بچپن میں مسلسل جنسی تشدد کا سامنا کرتے ہیں جب وہ جوان ہوتے ہیں تو وہ بھی بچوں کے ساتھ اسی قسم کا تشدد روا رکھتے ہیں۔ مگر شاہ راگ کے قصبے میں نقسیاتی طرز کی یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوئی امداد میسر نہیں ہے۔ حتیٰ کہ کوئٹہ میں موجود چیف انسپکٹر آف مائنز انجینئر افتخار احمد خان نے ہمیں انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ شاہ راگ کے قصبے میں واقع کوئلے کی کانوں پر کوئی بچہ کام نہیں کرتا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ مسئلے کی موجودگی سے ہی یکسر انکار کردیں گے تو مسئلے کا حل کس طرح تلاش کیا جائے گا؟ لڑکوں اور نوبالغ مردوں کا جنسی استحصال صرف بلوچستان کے قصبے شاہ راگ تک محدود نہیں ہے۔ اسلام آباد میں واقع ”ساحل” نامی ادارہ ،جو بچوں کے جنسی استحصال کے اعدادو شمار ترتیب دیتا ہے نے سال 2018 میں شائع کردہ اپنی رپورٹ میں سال 2017 کے اعداد و شمار بیانکیے تھے جن کے مطابق 2017میں 3445 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے ،ان میں 2077 بچیاں اور 1368 بچے شامل ہیں۔ یہ اعداد ان تمام واقعات کے ہیں جو اخبارات میں شائع ہوئے ہیں۔ ایسے واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہے جو اخبارات میں رپورٹ نہیں ہوتے۔

اس رپورٹ میں درج مزید تفصیلات کے مطابق 467 واقعات میں بچوں کا ریپ کیا گیا، 366 واقعات میں بچوں کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا، 158 واقعات میں بچوں کا گینگ ریپ ہوا، 180 واقعات میں بچوں کو ایک سے زائد افراد نے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا، جبکہ 206 واقعات ایسے تھے جن میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوشش کی گئی۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بیان کیا گیا کہ 29 بچوں اور 36 بچیوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ جنسی جرائم سے متاثرہ 961 بچے ایسے تھے جن کی عمریں 11 تا 15 سال کے درمیان تھیں۔ 640 واقعات میں بچوں کی عمریں 6 سال سے 10 سال کے درمیان تھیں۔16 سال تا 18 سال کی عمر کے 351 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

ایک نکتہ جوشاہ راگ کو اس معاملے میں انوکھا بناتا ہے وہ یہ ہے کہ یہاں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ایک عمومی سماجی رویہ بن چکا ہے۔ اس کی مثال حکومتی ریکارڈ سے ہی ظاہر ہے۔اگرچہ مائن ڈیپارٹمنٹ نے بالغ مزدور کان کنوں کی تعداد کے اعداد و شمار درج کیے ہیں مگر یہ تعداد درست تعداد سے کہیں کم ہے۔ ان اعداد و شمارمیں بچوں کی تعداد کا کوئی حساب نہیں ہے، چاہے وہ وہاں کسی کے گھر پر کام کررہے ہیں یا کان میں کام کررہے ہیں۔

دوسری جانب پاکستانی قانون نوعمر کان کنان کے لیے کچھ حفاظتی اقدامات یقینی بناتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان پینل کوڈ کی ان دفعات میں اپریل 2017 میں ترمیم کی گئیں جو بچوں کے خلاف جرائم سے متعلق تھیں ۔ سیکشن 292 150 اے کسی بھی ایسے فعل کو جرم گردانتا ہے جس میں بچوں کو بہکایا جائے ۔اسی طرح سیکشن 328۔اے بچوں کے ساتھ کسی بھی طرح کے تشدد اور ستم کوجرم تصور کرکے اس کی سزا تجویز کرتا ہے۔ سیکشن 377۔اے اور سیکشن 377۔بی بطور خاص بچوں کے ساتھ جنسی تشدد اور اس کے متعلق سزا کے لیے بنائے گئے ہیں۔

شاہ راگ میں کام کرنے والے بچوں پر ستم اور ان کے خلاف تشدد کو ایک حقیقت سمجھ کر بے حسی اور مایوسی کے ساتھ قبول کرلیا گیا ہے۔ حکومت ان بچوں کے اعداد و شمار کا حساب رکھتی ہے نہ ہی ان کی مددگار بنتی ہے۔ بچوں کے تحفظ کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے کیونکہ مسائل کا دائرہ بہت وسیع ہے۔حافظ بشیر کہتے ہیں،’’کبھی کبھار ہم بطور استاد بھی نا امید ہوجاتے ہیں۔‘‘ میرا خیال تھا کہ عابد صدیق کان کنوں کے بچوں کیلیے ایک نمونہ بنے گا اور ایک روز حکومت میں کہیں افسر بن جائے گا۔ ہماری امیدوں کے برخلاف اس نے بھی کان پر مزدوری شروع کردی ہے۔ اسیلیے میں نے جب بھی کان کن مزدوروں کے بچو ں سے سکول آکر پڑھنے کو کہا ،وہ مجھے عابد صدیق کی مثال سنا دیتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے ان کے چہرے پر افسردگی کے آثار نمایاں تھے۔

* اس تحریر میں حقیقی ناموں کو فرضی ناموں سے تبدیل کیا گیا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...