جلال الدین مغل آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقی صحافی ہیں، اورامیج ڈاٹ کام نامی آن لائن میگزین کے مدیر منتظم ہیں۔وہ خود اپنے تعارف میں اپنے آپ کو مصنف اور فلم میکر بتاتے ہیں۔ان کی تحریریں کشمیر میں اقلیتوں کے مسائل اور ان کے حقوق سے متعلق مختلف جرائد و اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کو ریاست اور سماج، ہر دو جانب سے مختلف النوع خدشات اور عدمِ تحفظ کا احساس رہتا ہے لیکن آزاد جموں و کشمیر میں اقلیتوں کا المیہ مختلف ہے کہ وہ قابلِ ذکر تعداد کے باوجود بھی سرکاری سطح پر تسلیم کیے جانے کے حق سے محروم ہیں، یہ ایک دوہرا مسئلہ ہے کہ کسی قومیت یا طبقے کو اس کے حقِِ شناخت سے ہی محروم رکھا جائے۔ اس موضوع سے متعلق ان کا زیرِ نظر مضمون ’فرائیڈے ٹائمز ‘ میں شائع ہوا، جس کا اردو ترجمہ قارئینِ تجزیات کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔
احمدی اور بہائی برادری کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے ایک سال بعدبھی آزاد جموں و کشمیر کی حکومت ریاست میں موجود مختلف نسلی اور مذہبی برادریوں کی تعداد کے اعداد و شمار ظاہر کرنے میں پس و پیش کررہی ہے۔
آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان میں ہونے والی سال 2017 کی مردم شماری کے نتائج تاحال شائع نہیں کیے گئے۔ لہٰذا ابھی تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان لوگوں کی تعداد کتنی ہے جنہیں مذہبی اقلیت قرار دیا گیا ہے۔ ریاست کی جانب سے نہ تو ابھی تک اقلیتی برادری کے لیے تعلیمی اور ملازمتی کوٹے کے متعلق کوئی حکمت عملی واضح ہے اور نہ ہی شہری وقانون ساز اداروں میں ان کی نمائندگی کے حوالے سے کسی حکمت عملی کا اعلان کیا گیا ہے۔
اگرچہ ریاست میں اکثریتی آبادی مسلمان ہے تاہم ایک قابل ذکر تعداد میں مسیحی، احمدی اور بہائی برادریاں بھی یہاں رہائش پذیر ہیں۔ ان لوگوں کی زیادہ تعداد مظفر آباد، کوٹلی، میرپور اور بھمبر میں آباد ہے۔یہ شہرت بھی ہے کہ ریاست میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو الحاد کے پیروکار ہیں تاہم آزاد جموں وکشمیر روایتی طور پر مسلم اکثریتی خطہ ہی شمارکیا جا تا ہے۔
آزاد کشمیر کی ثقافت بہت متنوع ہے اور یہاں مختلف نسلی اور مذہبی گروہ آباد ہیں۔ ماہر امور ثقافت اور یونیورسٹی آف آزاد جموں و کشمیر کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رخسانہ خان کہتی ہیں کہ ’’ یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے معاشرے اور ہماری حکومت نے اس کا کبھی اعتراف نہیں کیا ۔‘‘ ڈاکٹر خان کہتی ہیں کہ عید، نوروز اور صوفی بزرگان کے عرس وہ مذہبی تہوار ہیں جنہیں تقریباََ تمام مذاہب کے لوگ مناتے ہیں۔
جب میں نے اس معاملے پر معلومات کے حصول کے لیے بورڈ آف ریونیو پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں سے رابطہ کیا تو مجھے بتایا گیا کہ سرکاری دفتر میں ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ اگرچہ سال 2017 کے مردم شماری فارم پر باقاعدہ ایک علیحدہ خانہ بنا ہوا تھا جس پر مذہبی شناخت کا سوال پوچھا گیا تھا لہٰذا ظاہری طور پر تمام اقلیتی برادری نے اپنی اپنی مذہبی وابستگیاں اس خانے میں درج کی تھیں۔یہ معلومات تاحال عوام سے پوشیدہ رکھی گئی ہیں۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس میں تعینات مردم شماری کے ڈپٹی کمشنر محمد ریاض کے مطابق آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان سے حاصل کیا گیا مردم شماری کا ریکارڈ محض سرکاری استعمال کے لیے ہے۔ انہوں نے ای میل میں درج پیغام کے ذریعے کہا کہ وزارت داخلہ اور وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کی جانب سے یہ واضح احکامات ہیں کہ ا ن اعداد وشمار کو عام نہیں کیا جاسکتا۔ راقم نے دونوں وزارتوں سے متعدد بار ان اعداد و شمار کے متعلق پرسش کی مگر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ ان اداروں میں موجود ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ راقم کو مطلع کیا کہ حالیہ مردم شماری کے اعداد و شمار کو موجودہ حکومت کے علم میں تاحال نہیں لایا گیا اور ایسا ہوتا ہوا جلدی دکھائی نہیں دیتا۔
آزاد جموں وکشمیر سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ نے سرکاری خط کے ذریعے تسلیم کیا کہ ریاست میں غیر مسلموں کے لیے مختص کوئی ملازمتی کوٹہ ہے نہ ہی اس پورے خطے میں گریڈ 16 سے بڑا کوئی غیر مسلم سرکاری ملاز م موجود ہے۔ مختلف میونسپلٹی دفاتر میں محض صفائی ستھرائی کے کام کے لیے چند غیر مسلم بھرتی کیے گئے ہیں اور وہ بھی دیہاڑی دار ہیں یا انہیں جزوقتی کنٹریکٹ ملے ہوئے ہیں۔ ایک حوالے کے ذریعے یہ اطلاع ملی ہے کہ آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کے پاس ریاست میں موجود اقلیتوں کے اعداد و شمار موجود ہیں مگر وہ انہیں ان کے تحفظ کے پیش نظر عام نہیں کررہی ۔ اس شخص کا کہنا تھا کہ کہ اگر انہیں شہری و قانون ساز اداروں میں علیحدہ نمائندگی دے دی جائے اور انہیں ملازمتوں میں مختص کوٹہ دے دیا جائے تو اس کے ذریعے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
ڈاکٹر خان حکومت پر زور دیتی ہیں کہ وہ علاقے میں موجود اقلیت کے درست اعداد و شمار ترتیب دے اور ان کے سماجی و معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے حکمت عملی واضح کرے۔ وہ کہتی ہیں کہ اقلیتوں کے لیے نہ صرف سرکاری شعبوں، بلکہ نجی شعبے میں بھی ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے جائیں۔
آزاد کشمیر میں موجود مسیحی برادری
مظفر آباد میں واقع وزیر اعظم آزاد کشمیر ہاؤس کے ایک اندھیرے اور سیلن زدہ کمرے میں، جسے ٹیلیفون ایکسچینج روم کہا جاتاہے، میری ملاقات ایک لڑکی سے ہوئی جس کی عمر 27 سا ل تھی۔ وہ وزیر اعظم اور دیگر سرکاری اہلکاروں کی ٹیلیفون کالز سننے اور آگے منتقل کرنے میں مصروف تھی۔
سونیا ریاست نامی یہ لڑکی دیگر درجن بھر سے زائد میونسپلٹی خاکروبوں سمیت جموں و کشمیر کی واحد اقلیتی خاتون سرکاری ملازمہ ہیں۔ ان کے پاس انگریزی ادب میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری ہے۔ انہیں سرکاری ملازمت سال 2009 میں ملی تھی۔ 9 سال کا عرصہ بیت چکا ہے مگر سونیا ریاست کو تاحال مستقل ملازمت کا پروانہ نہیں ملا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایسے بہت سے افراد جنہوں نے ان کے ساتھ ملازمت کا آغاز کیا تھا، انہیں کچھ ہی مہینوں میں مستقل ملازمت کے احکامات جاری کردیے گئے تھے۔ وہ مزید بتاتی ہیں کہ ان کے بہت سے ساتھی جو ان کے ساتھ بھرتی ہوئے تھے ان کے گریڈز میں اضافہ ہوا ہے مگر وہ تاحال اسی جگہ نوکری کرنے پر مجبور ہیں جہاں سے انہوں نے آغاز کیا تھا۔ ان کی ترقی نہ ہونے کی یہی وجہ ہے کہ ان کی ملازمت کا اسکیل عارضی ہے۔
’’ میں نے وزیرِ اعظم آزاد کشمیر سمیت بہت سے دیگر اعلیٰ حکام کو درخواستیں دی ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ ‘‘وہ بتاتی ہیں کہ وزیر اعظم صاحب نے بہت شفقت سے کوشش کی۔انہوں نے مجھے ریاستی آئین کی وہ شق جس کے تحت مجھے ریاست کا مقامی باشندہ نہ ہونے کے سبب یہاں مستقل ملازمت نہیں مل سکتی ، اس میں بھی چھوٹ دی۔ لیکن شاید اعلیٰ حکام ہی جانتے ہوں کہ کیوں مجھے اس کے باوجود بھی یہاں مستقل ملازمت نہیں دی گئی۔
غیر تصدیق شدہ اعدادو شمار کے مطابق اس خطے میں 40 ہزار تا 45 ہزار کے لگ بھگ غیر مسلم آباد ہیں۔ ان میں امکانی طور پر جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے افراد سب سے بڑی اقلیتی برادری ہیں جبکہ مسیحی اور بہائی برادریوں کے افراد اس کے بعد آبادی کے لحاظ سے بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔
ان میں سے اکثر افراد مقامی ہیں اور مختلف شہروں میں ان کی جائیدادیں ہیں۔ مسیحی یہاں کی واحد اقلیتی برادری ہیں جنہوں نے پنجاب سے نقل مکانی کی ہے ان میں سے اکثر افراد کا تعلق راولپنڈی اور سیالکوٹ کے شہروں سے ہے ۔سونیا ریاست بتاتی ہیں کہ آزاد کشمیر کے اعلیٰ حکام نے ہمارے باپ دادا کو یہاں مکمل حقوق دینے کے وعدوں پر ملازمتیں دی تھیں۔ ہم لوگ عرصے سے بنیادی انسانی حقوق، جیسا کہ شہریت ، تعلیم اور ملازمتوں میں کوٹہ کی فراہمی کے لیے کوششیں کررہے ہیں۔
میرپور سے تعلق رکھنے والے حقوق انسانی کے کارکن ثاقب جاوید راجہ بیان کرتے ہیں کہ بھمبر شہر میں تقسیم سے پہلے کے زمانے سے چند مسیحی خاندان آباد ہیں اور ان کے پاس یہاں جائیداد رکھنے کا حق ہے۔ لیکن یہ سہولت محض چند خاندانوں کو ملی ہے اکثر مسیحیوں کے پاس یہ حق نہیں ہے۔
دہائیوں سے مسیحی برادری کے لوگ سرکاری دفاتر میں خاص طور پر میونسپلٹی کے دفاتر میں صفائی کا کام کرتے چلے آئے ہیں اور انہوں نے دیہاڑی کی بنیادوں پر ملازمتیں کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالا ہے۔ ان میں سے اکثریت اپنے بچوں کو بہتر تعلیم فراہم نہ کرسکی اور اس کے سبب ان کے بچے سرکاری اور نجی شعبو ں میں بہتر ملازمتیں حاصل نہیں کرسکے۔
سال 2005 کے قیامت خیز زلزلے کے بعد کچھ امدادی اداروں نے مسیحی برادری کی امداد کی کہ وہ اپنا معیار زندگی بہتر بناسکیں اور انہیں وسائل اور مواقع مہیا کیے تاکہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا سکیں۔ مسیحی برادری کے مطالبات پر حکومت نے مسیحی برادری کے مردوں کی ایک بڑی تعداد کو صفائی ستھرائی کے کاموں کے لیے مختلف سرکاری محکموں میں بھرتی تو کرلیا تاہم یہ بھرتیاں صرف دیہاڑیوں کی بنیاد پر دیے گئے عارضی کنٹریکٹ کے تحت کی گئیں۔ سونیا بتاتی ہیں کہ حالیہ چند سالوں میں بہت سے نوجوان، جن کا تعلق اقلیتی برادری سے ہے، انہوں نے یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم مکمل کی ہے تاہم حکومت کے لیے ان کے پاس روزگار نہیں ہے کیونکہ اکثر ملازمتیں ریاست کے مسلم باشندوں کو دی جاتی ہیں۔ چونکہ اقلیتوں کے لیے ملازمت میں کوٹہ نہیں دیا گیا لہٰذا وہ ملازمتوں سے محروم رہتے ہیں۔
ایک مسیحی ادارے کی جانب سے مرتب کیے گئے اعدادو شمار کے مطابق خطے میں 45 ہزار کے لگ بھگ مسیحی افراد آباد ہیں۔ان کی سب سے زیادہ تعداد بھمبر میں آباد ہے جبکہ اس کے بعد بالترتیب میر پور اور مظفر آباد کا نمبر آتا ہے۔کچھ درجن خاندان کوٹلی، پونجھ اورباغ میں بھی رہتے ہیں۔ تاہم مسیحی برادری کے لوگ ابھی تک ریاست میں شہریت کے حقوق اور جائیداد خریدنے کے حق کے لیے قانونی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس محض چرچ اور قبرستان کے لیے کچھ ملکیتی زمینیں بھمبر اور میرپور میں موجود ہیں۔
مظفرآباد میں سال 2005 تک مسیحیوں کے لیے کوئی قبرستان موجود نہیں تھا۔ ایک دفعہ ایک خاندان اپنی مرحوم بیٹی کی تدفین کے لیے سیالکوٹ کا سفر کررہا تھا کہ راستے میں ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آگیا۔ اس المناک حادثے میں اس خاندان کے سات مزید افراد جان کی بازی ہار گئے۔ اس موقع پر حکومت نے مظفر آباد کے قریب مکری گاؤ ں میں مسیحی قبرستان کے لیے زمین کا ایک ٹکڑا الاٹ کردیا۔ حال ہی میں مظفر آباد شہر میں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک گرجا گھروں کے لیے بھی کچھ زمینیں الاٹ کی گئی ہیں۔
سال 2008 میں حکومت نے مظفرآباد ایئرپورٹ کے قریب 50 کینال زمین صفائی کے عملے کی رہائشی کالونی کے لیے الاٹ کی۔ متوقع طور پر یہ کالونی محض مسیحی برادری کیلیے مختص تھی۔ مظفر آباد میں موجود سینٹری ورکرز فیڈریشن کے صدر یاسین نے ہمیں یہ بتایاکہ’’کچھ مکانات تعمیر کیے گئے اور انہیں صفائی کے عملے کے مسلمان ملازمین کو دے دیا گیا جو 2010 کے سیلاب میں بے گھر ہوگئے تھے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ مسیحی برادری کے لوگ ریاستی آئین کے تحت یہاں زمین نہیں خرید سکتے۔ ان کے لیے یہاں پناہ محض ایک خواب ہی ہے۔‘‘
پرائم منسٹر انسپیکشن کمیشن کے چیئرمین زاہد امین کاشف بتاتے ہیں کہ یہ منصوبہ مظفر آباد سٹی ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کے تحت شروع کیا گیا تھا مگر سال 2011 میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہونے پر اس کو نظر انداز کر دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت اگر چاہے تو اس کے پاس مسیحی برادر ی کو رہائشی جگہ دینے کے بہت سے متبادل ذرائع بھی ہیں، وہ چاہے تو سرکاری زمینوں پر بھی انہیں عارضی بنیادوں پر آباد کرسکتے ہیں لیکن یہ سب حکومتی ترجیحات پر منحصر ہے۔ میں نے اب دوبارہ عہدہ سنبھالا ہے تو میں نے وزیر اعظم سے بات کی ہے۔ ہم جلد ہی اس معاملے کو حل کریں گے۔
بہائی برادری کے آثار
چھتر کے راستے مظفر آباد شہر میں داخل ہونے سے تھوڑا پہلے ہی ایک بوسیدہ بورڈ پر نیلے رنگ کی لکھائی میں بہائی برادری کے قبرستان کی نشاندہی کی گئی ہے جو اوپر پہاڑوں پر موجود ہے۔ تقریباً 2 کلومیٹر کی سیدھی چڑھائی والی پکی سڑک پراوپر جائیں تو چرک پورہ گاؤں آئے گا۔ یہاں ایک مثلث نما تین کونوں والی عمارت موجود ہے جس کا دھاتی دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔
سفید رنگ کی سنگ مرمر کی سلیپ کی جانب مقامی صحافی فائزہ گیلانی نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس علاقے کا واحد بہائی قبرستان ہے جسے ہم جانتے ہیں۔ مظفر آباد اور اس کے گردونواح میں رہنے والے بہائیوں نے یہ جگہ 1996 میں خریدی تھی۔بہائی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی بھی کوئی سرکاری تعداد دستیاب نہیں ہے۔ مظفرآباد میں چھ بہائی خاندان معروف ہیں اور دیگر چند آس پاس کے دیہاتوں میں رہتے ہیں۔فائزہ بتاتی ہیں کہ بہائی عقیدے کے پیروکار دراصل ایرانی النسل ہیں اور وہ یہاں تقسیم ہند سے کچھ وقت پہلے ہی آ کر آباد ہوئے تھے۔ انہیں یہاں آزاد جموں و کشمیر میں ہر طرح کے شہری حقوق حاصل ہیں مگر ان کے پاس مذہبی اقلیت ہونے کی شناخت نہیں ہے۔ بہائی برادری سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد نے تعلیم، ادب اور صحت کے شعبے میں بہت نام کمایا ہے۔
جماعت احمدیہ کو درپیش عدم تحفظ
6 فروری 2018 کو آزاد جموں وکشمیر کی مجلس قانون ساز نے آزاد جموں و کشمیر کے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے مجوزہ بل کو پوری حمایت سے پاس کردیا۔ مجھے کوٹلی سے تعلق رکھنے والے مدثر نامی ایک شخص نے فون کال کی جس سے میری واقفیت نہیں تھی۔ اس نے بتایا کہ اس کا تعلق احمدی برادری سے ہے اور وہ چاہتا ہے کہ میں احمدیوں کو درپیش عدم تحفظ کے مسائل پر تحریر لکھوں۔ اس نے کہا کہ علاقے کے بہت سے صحافی اس امر سے آگا ہ ہیں کہ احمدیوں کے خلاف سماجی و ثقافتی سطح پر شدید تفریق موجود ہے لیکن کوئی صحافی بھی ان کے حالات پر لکھنے کی جرأت نہیں کرتا۔
مدثر کا کہنا تھا کہ گوئی نام کے گاؤں میں بہت سے احمدی نسلوں سے اس مذہب کے پیروکار ہیں اور اب انہیں مذہبی بنیادوں پر تشدد کا خطرہ ہے۔ اس نے بتایا کہ ہمارا سماجی بائیکاٹ کیا جاتا ہے ،ہماری عبادت گاہوں پر پتھراؤ کیا جاتا ہے اور ہمارے بچوں کو سرکاری سکولوں سے نکال دیا جاتاہے۔ ہم ان سماجی حالات میں جی رہے ہیں۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ ان حالات میں حکومت کی جانب سے اس آئینی ترمیم کے بعد پہلے سے ہی عدم تحفظ کا شکار ایک برادر ی کیلیے مزید مشکلات بڑھ جائیں گی۔وہ کہتا ہے کہ حکومت نے ایک مذہبی برادری کو لازمی تحفظ کے انتظامات کیے بغیر آئینی تفریق کا شکار کردیا ہے۔
کچھ ہفتوں بعد میں مدثر سے اسلام آباد میں ایک سڑک کے کنارے موجود ڈھابے پر ملا۔ میں نے پوچھا کہ اس آئینی ترمیم کے نتیجے میں اس کی برادری کو کیا مسائل درپیش ہوئے ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ اگرچہ ان کے خلاف کوئی جسمانی تشدد کا کوئی عملی واقعہ نہیں ہے تاہم انہیں باقاعدگی سے دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔ باقی دیگر اقلیتی برادریوں کی مانند احمدی برادری کی تعداد کا بھی کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ اندازے کے مطابق ان کی مجموعی آبادی 20 ہزار تا 25 ہزار کے درمیان ہے اور یہ لوگ کوٹلی، میرپور، بھمبر اور مظفر آباد میں رہتے ہیں۔احمدی تعلیمات کے ماننے والے ان علاقوں میں تقسیم سے پہلے کے زمانے سے آباد ہیں اور انہیں یہاں مکمل شہری حقوق حاصل رہے ہیں۔ ماضی میں اس برادری کے لوگوں کے پاس اعلیٰ انتظامی اور عدالتی عہدے موجود رہے ہیں اور اس برادری کے لوگوں نے بہت سی تعلیمی کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔
مدثر بتاتا ہے کہ ہماری برادری کے تما م لوگوں کے ووٹ بنے ہوئے ہیں اور ہم لوگ یہاں انتخابات میں اپنے ووٹ دیتے ہیں اور ہماری کسی بھی انتخابی سطح پر کوئی علیحدہ سیاسی شناخت اور نمائندگی نہیں ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ ہم نے کوئی علیحدہ سیاسی نمائندگی کا تقاضہ نہیں کیا کیونکہ ہم اس کے نتائج سے آگاہ ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ہم حکومت سے صرف آئینی اور سماجی تحفظ کی فراہمی کا تقاضہ کرتے ہیں اور ان بنیادی حقوق کی ضمانت چاہتے ہیں جو ریاست آزاد جموں وکشمیر کے شہری کی حیثیت سے ہمارا حق ہیں۔
مدثر شکایت کرتا ہے کہ انتخابات سے پہلے تمام بڑی سیاسی جماعتیں وعدے کرتی ہیں مگر انتخابات کے بعد کوئی بھی اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کرتا۔ جب آئین میں متوقع بارہویں ترمیم کا بل پیش ہورہا تھا تو قانون ساز اسمبلی کے کسی بھی رکن نے اقلیتوں کے سماجی تحفظ پر کوئی بات چیت تک نہیں کی۔ وہ بتاتا ہے کہ انتخابات کے وقت انہی ارکان اسمبلی نے ان لوگوں سے ووٹ مانگتے وقت انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کے سماجی تحفظ کے لیے ایوان میں آواز اٹھائیں گے۔بہت سی کوششوں کے باوجود کسی بھی عوامی نمائندے نے آزاد جموں و کشمیر میں اقلیتوں کے مسائل اور موجودگی کے موضوع پر بات کرنے سے انکار کردیا۔ ایک سرکاری اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر راقم کو بتایا کہ آزاد جموں وکشمیر میں بہت سے احمدی افراد اعلیٰ سرکاری عہدوں پر اور تعلیمی اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں، تاہم انہو ں نے اپنی مذہبی وابستگی کو خفیہ رکھا ہوا ہے۔
برطانیہ میں مقیم ایک کشمیری سکالر آمنہ میر نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ’’گلگت بلتستان کا بڑا مسئلہ مسلکی انتہاپسندی اور دہشت گردی تھا۔ شایدیہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومت کسی بھی خاص مذہبی برادری کے اعداد و شمار ظاہر نہیں کرنا چاہتی ۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں کہ کوئی بھی شخص آسانی سے مشاہدہ کرسکتا ہے کہ کس طرح ایک خاص مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگ پالیسی سازی کے عمل پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
1947 سے پہلے کشمیر میں ہندو اور سکھ بھی آباد تھے۔ ان میں سے بہت سارے قتل ہوگئے اورجو بچ گئے انہوں نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کی جانب نقل مکانی کرلی ۔ کچھ نے اسلام قبول کرلیا۔ 1965 تک میر پور اور بھمبر کے علاقوں میں کچھ ہندو اور سکھ آباد تھے بعد ازاں یا تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا یا لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب نقل مکانی کرلی۔ اس وقت سے آج تک آزاد کشمیر کی حکومت نے ریاست میں اقلیتوں کی موجودگی کا کبھی سرکاری اعتراف نہیں کیا۔
فیس بک پر تبصرے