زیرِ نظر کتاب ’’پاکستان: ایک نظریہ، ایک حقیقت‘‘ مختلف قلم کاروں کے مضامین کا مجموعہ ہے، ان موضوعات میں تاریخِ تحریکِ پاکستان، بانیانِ پاکستان کے خیالات اور ان کے ذاتی محاسن، اور دوقومی نظریے کی ضرورت و اہمیت جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ یہ کتاب شعبہ تعلقاتِ عامہ افواجِ پاکستان کے اشاعتی ادارے، ہلال پبلیکیشنز نے شائع کی ہے۔اس موضوع پر لکھے گئے مضامین کو مجتمع کر کے افواجِ پاکستان کے نمائندہ ادارے کاکتاب کی صورت میں شائع کرنا جہاں ایک طرف پاکستان،اس کی بقا اور اس کی غرض و غایت کے حوالے سے ہمارے دفاعی اداروں کی حساسیت کو ظاہر کرتا ہے وہیں اس کتاب کے مشمولات اور بالخصوص عنوان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہمارے ملکی سلامتی کے ادارے حب الوطنی، قومی سلامتی، قومی مفاد اور اس طرح کے دیگر نوعیت کے موضوعات سے متعلق کیا سوچتے ہیں اور ان کے نزدیک ان موضوعات کا پاکستان کی بقا اور سلامتی سے کیا تعلق ہے۔
پاکستان ایک حقیقت ہے، یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔لیکن کیا ہمیں اس کے حقیقت ہونے کا یقین ہے؟ اگر اس بات کا جواب ہاں میں ہے تو ہمیں اس طرح کے مظاہر کیوں دیکھنے کو ملتے ہیں، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید ہم یا تو پاکستان کے وجود کو ابھی صحیح طرح سے تسلیم نہیں کر پائے یا پھر یہ کہ ہمیں اس کے عدم ہو جانے کا مستقل خوف لاحق ہے۔ ہم اپنی خارجہ پالیسی پر نظر دوڑائیں، داخلی صورتِ حال کا جائزہ لیں، ہمیں اکثر ایسے مناظر نظر آتے ہیں، جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ان گنت اندیشوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ایسے اندیشے جن کا تعلق ہماری بقا سے ہے، ہمارے وجود اور ہماری بنیاد سے۔ ہم خارجہ پالیسی کو حقیقت پسندی سے ہم آہنگ کبھی نہیں کر پائے۔ ہم چین سے تعلق کو رومانوی سمجھتے ہیں، ہم عرب ممالک سے تعلق کو اعتقاد کے پیرائے میں دیکھتے ہیں ، ہم ایران اور ترکی سے روابط کو اسلامی بھائی چارے کا عنوان دیتے ہیں۔ حالانکہ ملکوں کے مابین تعلقات باہمی مفادات کے تناظر میں دیکھے جاتے ہیں اور دنیا کے تمام ممالک، بشمول ہمارے مسلمان بھائی اور کوہ ہمالیہ سے بلند تر دوستی کا حامل چین، اپنے معاشی و تزویراتی مفادات کے پیشِ نظر اپنا لائحہِ عمل مرتب کرتے ہیں۔
اس کی نظیر بھارت کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں حالیہ پیش رفت، بھارت کے ساتھ تنازعات کے باوجود چین کی بھارت میں سرمایہ کاری، اور حال ہی میں پاکستان کے پرزور احتجاج کے باوجود اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھارت کی شرکت جیسے واقعات میں ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ لیکن ہم نرگسیت کا شکار ہیں، اپنے ماضی کے بارے میں، اپنے حال اور حتی ٰ کہ مستقبل کے حوالے سے بھی۔ پاک چین اقتصادی راہداری کا ہی معاملہ لے لیجیے، یوں لگتا ہے جیسے پاکستان کو چین کے ہاتھ گروی رکھ دیا گیا ہے۔ یہیں سے داخلی انتشار کے سوتے پھوٹتے ہیں، بلوچستان میں اٹھنے والی اقتصادی راہداری مخالف آوازیں دراصل ایسی ہی تشویش کا اظہار ہیں، یعنی آپ جن لوگوں کے لیے ترقی اور بہتری کے دروازے کھولنے جا رہے ہیں، وہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ ان کے ہاں اس طرح کے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں۔ اس کی وجہ ان کی افتادگیِ طبع ہرگز نہیں کہ انہیں دنیا سے سو سال قبل جینے کی عادت ہو چکی ہے، بلکہ وہ گذشتہ 70 برسوں کی تاریخ دیکھ کر یہ سوچی سمجھی رائے بنا چکے ہیں کہ ریاست ان کے لیے کوئی خیر کا قدم اٹھا ہی نہیں سکتی۔ یہ سوچ اسی خوف اور ڈر اور ان امتیازی پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو اپنے آغاز سے ہی ریاست کو لاحق ہے اور جن پالیسیوں کی بنیاد پر اس ملک کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
اس کتاب میں شامل مضامین میں سے بیشتر اس ریاست کے نظریاتی پہلوؤں سے متعلق ہیں، جن میں اس بات پر حد درجے اصرار کیا گیا ہے کہ پاکستان مسلم قومیت کی بنیاد پر وجود میں آیا، بانیانِ پاکستان ایک کامل اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے اور دوقومی نظریہ پاکستان کی حقیقی بنیاد اور آج بھی اتنا ہی مکمل اور ضروری ہے جس قدر یہ ماقبل تقسیم ہندوستان میں تھا۔محمد امین زبیری کا مضمون ’’قیامِ پاکستان کا پہلا قدم‘‘ سرسید احمد خان کے ذاتی محاسن اور ان کی خدمات کے اعتراف پر مبنی ہے، پروفیسر احمد سعید کا مضمون ’’ایک منزل۔۔۔ دوقائد‘‘، ڈاکٹر صفدر محمود کا مضمون ’’قراردادِ پاکستان کا پسِ منظر‘‘، ڈاکٹر خواجہ عابد نظامی کا مضمون ’’سب نے دیکھاسب نے کہا‘‘، پروفیسر حسنین کا ظمی کے مضامین’’فکرِ اقبال‘‘ اور ’’قیامِ پاکستان: ہمارے ایمان کا تقاضا‘‘، ’’یہ ہے نظریہ پاکستان‘‘، جو مطیع اللہ محمود نے لکھا ہے، انصار ناصری کے دو مضامین ’’اسی لیے تو پاکستان بنا‘‘ اور ’’پاکستان زندہ باد‘‘، سید حسن ریاض کا مضمون ’’آزادی کی پہلی للکار‘‘ اور داکٹر سید اسعد گیلانی کی تحریر ’’معمارِ پاکستان کی آواز‘‘، یہ تما م کے تمام مضامین بانیانِ پاکستان کے زبان زدِ عام خیالات و نظریات، ان کے ذاتی محاسن و اخلاق اور کردار، پاکستان کی غرض و غایت اور ضرورت، تاریخِ تحریک پاکستان اور ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت کے جذبات و احساسات کی ترجمانی جیسے موضوعات سے متعلق ہیں۔ ’’پاکستان ضروری تھا‘‘ لیفٹیننٹ کرنل (ر) محمد اعظم نے لکھا ہے، جس میں وہ بچپن کے ایک ذاتی واقعے کی بنیاد پر تقسیمِ ہند کو ناگزیر ٹھہراتے نظر آتے ہیں، ’’قائدِ اعظم اور دفاعِ پاکستان‘‘ لیفٹیننٹ کرنل (ر) محمد الیاس کا تحریر کردہ ہے جس میں وہ افواجِ پاکستان کی مختلف تقاریب سے قائدِ اعظم کے خطبات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کو انتہائی زیرک مہم جو اور جنگی حرکیات سے واقف گردانتے ہیں، یہ مضمون کافی حد تک مبالغہ آرائی پر مبنی ہے، کسی بھی رہنما کا اپنی افواج کو اس طرح، جیسا کہ بانیِ پاکستان کے خطبات سے معلوم ہوتا ہے، وطن کی حفاظت اور اپنے آپ کو تیار اور مستعد رکھنے کی نصیحت کرنا ایک عام بات ہے۔
دو مضامین، ’’قائدِ اعظم اور مسئلہِ کشمیر[آغا حسن ہمدانی]‘‘ اور ’’کشمیر کا بھارت سے الحاق[ملک ممتاز اقبال]‘‘، مسئلہِ کشمیر کے حوالے سے ہیں جن میں قائدِ اعظم کے کشمیر کے حوالے سے موقف اور ان کی تشویش، کانگریسی قیادت اور برطانوی نمائندہ شاہی کی ملی بھگت سے کشمیر کو متنازعہ بنا دینے کے عمل سے لے کر مسئلہِ کشمیر کے حل کے لیے پاکستانی وفد کے اقوامِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانے تک کے تاریخی وقائع و نظائر کو احاطہِ تحریر میں لایا گیا ہے۔’’منزلِ آزادی کا سیدھا راستہ‘‘ میں مسعود جاوید ہمدانی دوقومی نظریے کی سچائی پر اصرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کی بھاری اکثریت سے متخالف بعض علما ہندو کانگریس اور انگریز کے فریب میں آکر قرآنِ مجید کے دو قومی نظریے کے مقابلے میں متحدہ قومیت کے نظریہ کے حامی اور مبلغ بن گئے تھے۔ انہیں مسلمانوں نے کانگریسی علما کے خطاب سے یاد کیا۔‘‘ یہ نقطہِ نظر یہاں کا اکثریتی نقطہِ نظر ہے،اس موضوع سمیت مندرجہ بالا تما م تر موضوعات پر طرفین کی آرا و دلائل پر کتابوں کی کتابیں چھپ چکی ہیں، ہم غلط یا صحیح کی بجائے دو بنیادی سوال اٹھاتے ہیں؛ اول یہ کہ دو قومی نظریہ، قرآن سے کہاں اخذ ہوتا ہے اور اس تطبیق و استدلال کا استحقاق کون رکھتا ہے؟ دوم یہ کہ ہم ان زعماے ملت، جنہوں نے اگرچہ ہم سے الگ راہ اپنائی، ان کی فکر ہم سے مختلف تھی لیکن وہ بھی اپنے تئیں مسلمانانِ ہند کی خیر خواہی چاہتے تھے، ان سے متعلق اس طرح کی بدگمانی ہمیں کس راستے پر لے جائے گی؟ ان دونوں سوالات کے جوابات اس نقطہِ نظر کے حامی افراد اور اداروں پر قرض ہیں۔
ان مضامین کا اگر خلاصہ کیا جائے تو تین باتیں ذہن میں آتی ہیں، اولاً بانیانِ پاکستان سے بے بہا عقیدت و محبت اور غلطیوں سے مبرا ان کی شخصیت و کردار، ثانیاً حب الوطنی کا جذبہ اور ثالثاً پاکستان کے ہمسائے بھارت، بالخصوص ہندو آبادی سے مذہبی اختلاف کی بنیاد پر بے پناہ نفرت و حقارت۔ یہ مضامین دوقومی نظریے کے حامی اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار صاحبانِ قلم نے تحریر کیے ہیں، اور وہ یہی جذبہ اور یہی احساس اپنی اگلی نسل میں منتقل کرنے کا فرض ادا کرتے نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ مضامین کسی نصابی کتاب کے مندرجات سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ جہاں تک بانیانِ پاکستان سے محبت و عقیدت کی بات ہے تو یہ غیرمنطقی صحیح، لیکن قابلِ فہم ہے، وطن سے محبت کا جذبہ بھی قابلِ قدر ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ وطن سے کیا مراد ہے اور ایک ایسی ریاست جو اپنے عوام کو ان کے حقوق کی فراہمی میں مسلسل ناکام رہی ہو، اسے وطن قرار دے کر اس سے محبت پر اصرار کس طور درست ہے اور اپنے حقوق کے لیے سراپاصدا ہونا جرم اور غداری کے زمرے میں کیوں کر آتا ہے؟ ایک مضمون کا اقتباس ملاحظہ کیجیے، ’’صوبائی عصبیت کی آگ ان مٹھی بھر مفاد پرست لوگوں نے سلگا رکھی ہے جن کا اسلامی نظامِ زندگی میں کوئی ٹھکانہ نہیں اور پاکستان ان کے ارادوں کے لیے عظیم خطرہ ہے۔ پھر انہیں پاکستان اور اسلام عزیز تر ہو تو کیوں کر؟ بات یہ ہے کہ متعدد قومیتوں کا نعرہ لگانے والے لوگ زندگی کے ہر میدان میں نا اہل ہیں۔۔۔۔ پاکستان کی سالمیت کیابلکہ اسلام کے بنیادی عقیدہ کے تحفظ کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے عناصر پر نگاہ رکھی جائے۔‘‘[مطیع اللہ محمود، یہ ہے نظریہ پاکستان]
آپ دیکھتے ہیں کہ کتنے مسائل اسی فکر سے جنم لیتے ہیں۔ یعنی پاکستان کے ان نظریاتی محافظوں کے نزدیک مختلف قومیتوں کا اپنی شناختوں پر اصرار، اپنی تہذیب و ثقافت سے وابستگی اور بالخصوص ازل ازل سے میسر حقوق کے لیے جدو جہد کا مطلب نہ صرف پاکستان بلکہ اسلام سے بھی غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ اب ایک نظریاتی ریاست میں پاکستان اور پھر مذہبِ اسلام سے پہلو تہی کا ایک ہی حل ہے، جس کا اندازہ جا بجا کوچہ و بازار میں لتھڑے ہوئے جسموں اور بنی آدم کی بوری بند لاشوں سے ہو جاتا ہے۔جہاں تک بھارت اور ہندو دشمنی کی نفسیات ہیں تو ان کے نتائج ومضمرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، آئے دن ہمیں اس کے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں، خارجی تعلقات میں بھارت کی مرکزیت ایک بحث طلب موضوع ہے، بھارت کا اپنا کردار بھی کوئی خاص امید افزا اور قابلِ تعریف نہیں ہے لیکن داخلی معاملات میں ہی دیکھ لیجیے کہ یہاں صوبے میں بلاشرکتِ غیرے حکمران رہنے والی تنظیموں، خود آمرانہ حکومتوں میں شریک جماعتوں اور حتیٰ کہ وزراے اعظم تک کو بھارت دوستی اور ان سے ساز باز کا الزم لگا کر غدار اور پاکستان دشمن جیسے القابات سے نوازنا کارِ ریاست کا اہم جزو سمجھ لیا گیا ہے۔ جبکہ ایسی جماعتوں اور گروہوں کو ملکی اثاثہ سمجھ کر ان کی پرورش کی جاتی ہے جن کی وجہ سے پاکستان کوعالمی تنہائی، اندرونی خلفشار، اقتصادی تنزلی اور عوام میں عدمِ تحفظ جیسے کئی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
سانحہ سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے اس کتاب میں شامل محمد اکرم ذکی کا تحریر کردہ مضمون ’’مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک‘‘ ایک متوازن مضمون ہے، جس میں نہ صرف سیاسی قیادت کی غلطیوں سے آگاہ کیا گیا ہے بلکہ اس سانحے میں فوجی قیادت کے کردار سے بھی پردہ ہٹایا گیا ہے۔ ہمیں اس مضمون سے سیکھنا چاہیے، ہمیں اس سانحے سے سیکھنا چاہیے۔خواہش ہی کی جاسکتی ہے کہ اردو بنگالی تنازعے، جس کی بنیاد خود قائدِ اعظم نے رکھی اور ڈھاکہ یونی ورسٹی میں طلبہ پر فائرنگ، ریاستِ قلات پر چڑھائی( جو قائدِ اعظم کی زندگی میں کی گئی)،وفاقیت یا صوبائیت کی بجائے زبردستی کی یکسانیت اور دوقومی نظریے کو ریاستی خدوخال کی بنیاد بنانے جیسے مسائل کے تناظر میں پاکستان کے استحکام اور مستقبل کی پیش بندی کا سامان کرنے کی کوشش کی جائے۔کاش ہم یہ سیکھ سکیں کہ تنوع اور اختلاف سے سماج مضبوط ہوتا ہے، اختلافات کو ختم کرنے کی بجائے مختلف آوازوں کو دبا دینے کی روش سے رجوع اور تنوع سے خوف کی نفسیات کے خاتمے کی کوشش ہی مسائل کے حل کا عنوان بن سکتی ہے۔
آپ کومعروف قلم کار اور صحافی محمود شام کے مضمون ’’آزادی ایک مسلسل سفر‘‘ اور سلیم ساقی کا مضمون ’’قائدِ اعظم کے پاکستان کی سچی تصویر‘‘، جس میں ایک اسلامی ریاست کے خدو خال واضح کیے گئے ہیں، اور اگر اسلامی ریاست کے واقعتاً یہی خدوخال ہیں تو کم از کم وہی اب تک نظر آنے لگ جاتے، لیکن چونکہ یہ ہمارا مفاداتی طرزِ عمل ہے، اسی لیے ہم ریاست کے اونٹ کو کسی کروٹ بیٹھنے نہیں دینا چاہتے، ان دو مضامین کے علاوہ کوئی بھی مضمون مستقبل کی راہ سجھاتا نظر نہیں آتا، ماضی کی مختلف کڑیوں کو حال سے ملانے کا کام تو نظر آئے گا، وہ بھی صرف نظری بنیادوں پر، لیکن حقیقی بنیادوں پر ان تمام محرکات و نظریات کے نتائج و مضمرات پر نظر نہیں ڈالی گئی، بالخصوص ایک نظریاتی ریاست پر اصرار سے ہمارے ہاں جن مسائل نے جنم لیا ہے، ان مسائل پر گفتگو عنقا ہے۔ یہی نرگسیت اور رومانویت جس کو عقل و منطق سے کوئی واسطہ نہیں، جس نے ہمارے لیے مسائل پیدا کیے ہیں، اسی نے ہمیں ایک نظریاتی ریاست پر اصرار کے لیے مجبور کیے رکھا ہے اور نتیجتاً ہم ایک سکیورٹی ریاست بن کر رہ گئے ہیں۔ ہم جب ’’پاکستان، ایک نظریہ‘‘ کی بات کرتے ہیں تو ہم دراصل ’’پاکستان، ایک حقیقت‘‘ سے انکار کررہے ہوتے ہیں۔ یہ نظریاتی ریاست کا تصور دراصل ہمارے لاشعور میں بسے ایک انجانے خوف کی جانب توجہ دلاتا ہے جس کے ہم زیرِ اثر رہے ہیں، اب بھی ہیں اور مستقبل میں بھی اس خوف سے پیچھا چھڑانے کا کوئی لائحہِ عمل ہمیں نظر نہیں آتا۔
Prev Post
فیس بک پر تبصرے