زیر تبصرہ کتاب گجرات سے تعلق رکھنے والے سینئر کالم نگار افتخار بھٹہ کے منتخب اردو کالموں کا مجموعہ ہے جو انہوں نے پچھلے 30 سالوں میں قومی اردو اخبارات میں تحریر کیے ہیں۔افتخار بھٹہ آج کل روزنامہ اوصاف، روزنامہ دن، روزنامہ مشرق لا ہور کے علاوہ گجرات کے مقامی روزنامہ جذبہ اور شانہ بشانہ کے لیے مضامین لکھ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لاہور، گجرات اور اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ادبی اور نظریاتی وفکری نشستیں ان کے بغیر ادھوری ہیں۔ وہ عوامی ورکرز پارٹی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ فاضل مصنف ایک ریٹائرڈ بینکار ہیں۔ معیشت اور معاشیات کے موضوعات ان کی 30 سالہ پیشہ ورانہ زندگی کا حصہ رہے ہیں لہٰذا ان کے تجزیوں اور تبصروں میں ان موضوعات پر ان کی گرفت صاف دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ ان کے جو کالم اس کتاب میں شامل ہیں وہ موضوعاتی اعتبار سے متنوع ہیں۔ ان کالموں میں سماجی موضوعات کے علاوہ عالمی امور، علاقائی مسائل، ملکی وعالمی سیاست ، ملکی و عالمی معیشت، دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ، پاکستان کی خارجہ پالیسی، ہمارے عمومی سماجی رویے، پاکستان میں دائیں اوربائیں بازو کی سیاست کا ارتقا ،اس کے پیچ و خم اور بعض صورتوں میں مستقبل کی بصیرت افروز پیش بینی بھی شامل ہے۔
موضوعات کے حوالے سے اس قدر کثیر عنوانات پر قلم اٹھانا اور موثر و متوازن تجزیے پیش کرنا اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ مصنف کا مطالعہ وسیع اور اپنے موضوعات پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ ان کے وہ کالم جو محض عالمی و علاقائی واقعات کا تجزیہ ہیں ان میں بھی عمومی کالم نگاروں کے چلن کی مانند یہ نہیں ہے کہ کالم کی عمر چھوٹی ہو کیونکہ اس کا تجزیہ عارضی ہے۔ بلکہ وہ اپنے کالموں میں تجزیے اور تبصرے کا کینوس اتنا وسیع کردیتے ہیں کہ وہ زیادہ مدت کے لیے موزوں رہتا ہے۔
اگر وہ ایک جانب وار آن ٹیرر اور گلوبل فنانشل ایشوز جیسے عالمی، سیاسی اور اقتصادی موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں تو دوسری جانب موٹر سائیکل زدگان کے عنوان پر گلی محلے میں روز ہوتے ہوئے موٹر سائیکل حادثات پر بھی نگاہ رکھتے ہیں اور اپنے پڑھنے والوں کو یہ بھی سمجھاتے ہیں کہ سواری اور ٹریفک کی درست اخلاقیات کیا ہیں۔
فاضل کالم نگار اگر ایک جانب کل وقتی مصنف ہیں تو دوسری جانب وہ سنجیدہ ادبی و صحافتی تنظیموں میں کلیدی عہدوں پر انتظامی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کے قلم کا فکری ارتقا پاکستان کی سیاست میں بائیں بازو کے جھنڈے تلے پروان چڑھا ہے۔ ان کی تحریروں میں پرانے کامریڈوں کادرد بھی ہے اور نئے سیاسی کارکنوں کے لیے پند و نصائح بھی ۔وہ آج بھی اس سویرے کے منتظر ہیں جس کا احوال اور انتظار فیض کی نظموں میں دکھائی دیتا ہے۔ وہ عابد حسن منٹو اور فانوس گجر کے قبیلے کی سیاست سے عملی طور پر وابستہ ہیں۔
زیر نظر کتاب میں ان کے منتخب کالموں سے اگر راقم کے پسندیدہ کالموں کی فہرست بنائی جائے جو اپنے موضوع اور دلچسپی کے حوالے سے یادگار ہیں تو اس فہرست میں سب سے پہلے’’ہم بھی کیالوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے ‘‘، اس کے بعد ’’دہشت گردی اور تحریک آزادی کا بدلتا ہوا تصور‘‘، ’’نیو ورلڈ آرڈر کا نظریہ ترقی و ثقافت‘‘، ’’قو م پرست قیادت کی تلاش‘‘، ’’ نیا عالمی نظام اور پاکستا ن کا اقتصادی بحران‘‘،’’مقامی کلچر عالمی ثقافت کی زد میں‘‘،’’خارجہ پالیسی کے حقیقت پسندانہ پہلو‘‘، ’’صحت اور زندگی کے ساتھ کھانا ‘‘، ’’دال مرغی ایک برابر‘‘، ’’بند دماغ کب کھلیں گے‘‘ اور’’عسکری نہیں نظریاتی جنگ کی ضرورت ہے ‘‘، یہ تمام ایسے کالم ہیں جنہیں تاریخ، سماجیات، سیاسیات اور معیشت کے طلبہ کو لازمی پڑھناچاہییے۔ کتاب میں کتابت اور پروف ریڈنگ کی غلطیاں پڑھنے والے کا دل کھٹا کر سکتی ہیں مگر انہیں پہلی طباعت سمجھ کر نظرانداز کرتے ہوئے ان کالموں کو توجہ سے پڑھنا کوئی بے معنی مشق نہیں ہوگا۔
Next Post
فیس بک پر تبصرے