گلگت بلتستان میں آئینی اصلاحات۔۔۔۔کمیٹی پہ کمیٹی

923

اس ماہ کی بیس تاریخ کو وزیر اعظم کا دورہ گلگت بلتستان متوقع ہے اور کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں وزیر اعظم اپنے دورہ گلگت بلتستان کے موقعے پرآئینی اصلاحات کا اعلان کریں گے۔

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے درمیان اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں یہ انکشاف ہوا کہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین کے حوالے سے مشیر خزانہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی سفارشات وزیر اعظم کو وصول ہوگئی ہیں لیکن اب ان سفارشات کا جائزہ لینے اور ان پر عمل درآمد کا طریقہ کار طے کرنے کئے لئے ایک اور کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ بلکہ یہ کمیٹی تشکیل  دے بھی دی گئی ہے ۔ کمیٹی میں وزیر اعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز ،وزیر خزانہ اسحاق ڈار ،وزیر قانون زاہد حامد ،وزیر اُمور کشمیر و گلگت بلتستان برجیس طاہر،وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن اور متعلقہ وزارتوں کے وفاقی سکرٹریز شامل ہیں۔ یہ اعلیٰ سطحی کمیٹی ہے جسے 20 روز دئے گئے ہیں کہ وہ اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کرے۔ کیونکہ اس ماہ کی بیس تاریخ کو وزیر اعظم کا دورہ گلگت بلتستان متوقع ہے اور کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں وزیر اعظم اپنے دورہ گلگت بلتستان کے موقعے پر گلگت بلتستان کے لئے آئینی اصلاحات کا اعلان کریں گے۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات سے قبل انتخابی مہم کے سلسلے میں جب دورے پر گلگت پہنچے تو اُنھوں نے 14 اپریل 2015 ؁ء کو گلگت میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کیا ۔اس خطاب میں اُنھوں نے پہلی مرتبہ گلگت بلتستان میں آئینی اصلاحات کے لئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کمیٹی تین ماہ کے عرصے میں گلگت بلتستان میں آئینی اصلاحات کے لئے سفارشات مرتب کر کے وزیر اعظم کوپیش کرے گی۔اگرچہ یہ کمیٹی وزیر اعظم کے احکامات کی روشنی میں فوری طور پر قائم ہوگئی لیکن یہ کمیٹی مقررہ مدّت میں سفارشات تیار کرنے میں ناکام رہی۔کمیٹی نے سفارشات کو تیار کرنے میں دوسال سے بھی زیادہ عرصہ صرف کیا ۔اس کمیٹی کو سفارشات تیار کرنے میں کئی ایک رکاوٹوں کا سامنا رہا۔ جب یہ کمیٹی سفارشات کو حتمی شکل دینے کے مرحلے پر آگئی تو آزاد کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات سر پر آگئے ۔ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے 21 جولائی 2016 ء کو ہونے والے انتخابات کی انتخابی مہم میں وفاقی وزرا نے بھی بھر پور اندازمیں حصّہ لیا۔ انتخابی مہم کے دوران جہاں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم اور مسئلہ کشمیر موضوعِ سُخن رہا وہاں گلگت بلتستان کی قانونی وآئینی حیثیت اور وہاں آئینی اصلاحات کے نفاذ کے لئے جاری اقدامات کی تفصیلات بھی زیرِ بحث رہی۔مسلم لیگ ن کی قیادت اور وفاقی وزرا جو گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے موقع پہ تواتر کے ساتھ اس عزم کا اظہار کرچُکے تھے کہ گلگت بلتستا ن کو ملک کا پانچواں صوبہ بنایا جائے گااُن کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے لوگ ملک کے کسی بھی شہر کے لوگوں سے زیادہ مخلص اورمحبِ وطن پاکستانی ہیں۔لیکن جب آزاد کشمیر کی انتخابی مہم شروع ہو گئی تو ان کے موقف میں یکسر تبدیلی آگئی اور اچانک سے یہ کہنا شروع کردیا کہ گلگت بلتستان متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصّہ ہے اور گلگت بلتستان میں کوئی اصلاحات کا نفاذنہیں ہوگا جو مسئلہ کشمیر کو متاثر کرتا ہو۔یہ بھی کہا گیا کہ گلگت بلتستا ن میں آئینی اصلاحات نہیں بلکہ صرف مالی اور انتظامی اصلاحات کے زریعے وفاق سے مزید اختیارات گلگت بلتستان منتقل کئے جائیں گے۔ موقف میں یہ تبدیلی آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کے ووٹ بنک کو بڑھانے کی کوشش تھی ۔کیونکہ آزاد کشمیر کی قیادت نہیں چاھتی کہ حکومت گلگت بلتستان کو ملک کا پانچواں صوبہ بنائے ۔ گلگت بلتستان سے متعلق حکومتی موقف کی تبدیلی کا مسلم لیگ ن کی جماعت کو اُن کی توقعات کے مطابق بھرپور فائدہ بھی ہوا۔ گلگت بلتستان سے متعلق موقف میں یہ واضح تبدیلی وزرا کی انفرادی رائے کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہ پارٹی پالیسی کا نتیجہ معلوم ہوتی تھی کیونکہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اور وزیر اعظم بھی واضح انذازمیں گلگت بلتستان سے متعلق ماضی کی نسبت متضاد موقف کا اظہار کرنے لگ گئے تھے۔وزیر اعلیٰ نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں کہا کہ بلتستان ، استور اور گلگت متازعہ ریاست جموں و کشمیر کاحصّہ ہیں یہ خطے اقوام متحدہ کی قرارداوں کے تحت استصوابِ رائے میں حصّہ لینگے جبکہ ہنزہ، نگر ،غذراور دیامر کا پاکستان سے پہلے الحاق ہوچُکا ہوا ہے اِن کو آئینی حقوق دیے جائیں گے۔وزیر اعظم نے کشمیری راہنما یاسین ملک کے نام ایک خط میں لکھا کہ گلگت بلتستان میں اصلاحات کے نتیجے میں یہاں کی آئینی حیثیت میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں لائی جارہی ہے بلکہ وہاں صرف انتظامی اصلاحات کے ذریعے لوگوں کو امپاور کیا جارہا ہے۔ مذکورہ خط میں اختیار کیا گیا یہ موقف مسلم لیگ ن کے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے موقعے پرکئے گئے اعلانات کے بالکل برخلاف تھا ۔ یہ وہ وجوہات تھیں کہ سر تاج عزیز کمیٹی کو گلگت بلتستان سے متعلق سفارشات تیار کرنے میں دوسال سے بھی زیادہ کا عرصہ لگا۔کیونکہ یہ تاخیر گلگت بلتستان کی آئینی و قانونی حیثیت سے متعلق حکومتی پالیسی کے تحت تھی لہذا کسی مرحلے پر بھی وزیر اعظم نے سرتاج عزیز کمیٹی سے سفارشات کے مرتب کرنے میں اس غیر معمولی تاخیر سے متعلق پوچھنے کی ضرورت محسو س نہیں کی۔بلکہ اس کمیٹی کو جو ٹاسک تین مہینے میں مکمل کرنے کا ہدف دیا گیا تھا اُسے دوسال سے بھی زائد عرصے میں مکمل کرناتو گویا کوئی تاخیر ہی نہیں تھا ۔اس پر مذید ستم یہ کہ وزیر اعظم نے کمیٹی کی جانب سے پیش کردہ ان سفارشات کو پھر سے دیکھنے کے لئے ایک اور کمیٹی کا قیام عمل میں لاتے ہوئے ان سفارشات کو اُس کمیٹی کے حوالے کردیا ۔اس نئی کمیٹی کو20 روز میں ان سفارشات کو نئے سِرئے سے جائزہ لینے اور اس پر عمل درآمد کا طریقہ کار طے کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کمیٹی کتنے عرصے میں یہ ٹاسک مکمل کرپائے گی۔ سابقہ تجربہ یہ ہے کہ پچھلی کمیٹی نے تین مہینے کے ٹاسک کو پورا کرنے میں دوسال سے زیا دہ عرصہ لگایا۔جس کی روشنی میں لوگوں کو یقین ہے کہ نئی کمیٹی مقررہ مدت یعنی 20 روز میں یہ کام نہیں کرپائے گی۔ لیکن اصل بات یہ ہے گلگت بلتستان کے عوام ان کمیٹیوں اور حکومت سے گلگت بلتستان میں آئینی اصلاحات کے نفاذکے حوالے سے زیادہ پُر اُمید نہیں جس کی وجوہات اوپر بیان کی گئیں ہیں ۔اگرچہ سرتاج کمیٹی کی سفارشات کو خود گلگت بلتستان کے عوام اور منتخب عوامی نمائندوں سے خُفیہ رکھا جارہا ہے جو عوام میں شُکوک شبہات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ سر تاج عزیز کمیٹی نے کیا سفارشات پیش کی ہیں وہ بظاہر خُفیہ ہیں لیکن کمیٹی کے چیرمین مشیر خارخہ سرتاج عزیز نے اسلام آباد میں ایک نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان حکومت کو بااختیار بنانے کے لئے کام ہو رہا ہے۔ جلد سفارشات کو حتمی شکل دی جائے گی۔ان کے اس بیان میں یہ واضح ہے کہ گلگت بلتستان میں اصلاحات کے نفاذ کے لئے حکومتی اقدامات کس رُخ پر جارہے ہیں۔ سرتاج عزیز نے یہ نہیں کہا کہ گلگت بلتستان میں آئینی اصلاحات کے ذریعے یہاں کے لوگوں کو وہ تمام حقوق دئے جائیں گے جو ملک کے دیگر صوبوں کے لوگوں کو حاصل ہیں بلکہ کہا گیا کہ گلگت بلتستان کی حکومت کو بااختیار بنایا جائے گا ۔ یہ وہی بات ہے جو وزیر اعظم نے کشمیری راہنما یٰسین ملک کے نام لکھے گئے خط میں کہی ہے۔لہذا حکومت اس مسئلے پر تاخیری حربے استعمال کرنا چاھتی ہے یہی وجہ ہے کہ کمیٹی پہ کمیٹی قائم کی جارہی ہے۔ ہمارئے ملک میں روایت یہ ہے جس مسئلے کو تاخیر کا شکار کرنا ہو اُس پرکمیٹی قائم کی جاتی ہے ۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ایک کمیٹی بمشُکل رپورٹ تیار کرچُکی تومعاملے کو پھر سے کمیٹی کےُ سپرد کردگیا جس سے معاملے کے حل میں تاخیر ایک یقینی امر ہے۔ان دنوں ملکی حالات جس نہج پر ہیں اُن میں گلگت بلتستان کے عوام کا اس حوالے سے مایوسی کا شکار ہونا زیادہ اچنبے کی بات نہیں۔۔۔۔ا

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...