باغِ نیلاب کی کتابی چٹانیں

جب اظہار اور شکار سب ہی پتھر کے گرد گھومتا تھا

1,662

باغِ نیلاب، اٹک بسال روڈ پر دریائے سندھ کے کنارے پر آباد ایک گاؤں ہے، یہاں جا بجا بکھرے ہوئے آثار گواہی دیتے ہیں کہ اس کی تزویراتی اہمیت کے سبب یہ علاقہ شمال سے آنے والے حملہ آوروں کی گزر گاہ رہا ہے۔ یہاں دریائے ہرو دریائے سندھ میں گرتا ہے اور پانی اس قدر نیلا ہے کہ اس علاقے میں دریائے سندھ کو نیلاب کے نام سے ہی پکارا جاتا تھا۔

نیلاب میں وہ جگہ جہاں سے دریا اپنا رخ بدلتا ہے وہاں نسبتا ًایک کھلی جگہ ہے جہاں سرخ چٹانیں موجود ہیں، ان چٹانوں پر مختلف نقش و نگار کنندہ ہیں۔ چٹانوں کی ساخت بتاتی ہے کہ یہ چٹانیں یہاں قریبی پہاڑوں کی نہیں بلکہ دریا میں بہہ کرآئی ہیں۔ یہ کہاں سے آئیں اور یہاں تک کیسے پہنچیں؟

یہ کسی پہاڑی بکرے کی تصویر ہے

اس کا جواب ہمیں چلاس میں ملتا ہے جہا ں ایسی چٹانیں بڑی تعداد میں موجود ہیں جن پر اندازاً 30000 نقش کنندہ ہیں۔ جس جگہ یہ چٹانیں موجود ہیں وہیں پرایک طرف کوہ ِ ہندوکش اور دوسری جانب قراقرم کا پہاڑی سلسلہ ہے۔ قدیم دور سے ہی شاہراہ ریشم مختلف تہذیبوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ رہی ہے۔ جہاں سے مسافر، تاجر، مذہبی سیاح اور ہنر مندآیا جایا کرتے تھے۔ اب یہ واضح نہیں کہ یہ نقش یہاں سے گزرنے والے مسافروں کی تخلیق ہے یا پھر یہاں کوئی ایسا قبیلہ آباد تھاجو ایسے نقش بناتا تھا۔ اندازاً یہ نقش آٹھویں صدی قبل از مسیح سے لے کر آٹھویں صدی عیسوی کے درمیان کے ہیں۔ دیامیر اور چیلاس میں ان نقوش کو سب سے پہلے ہنگری کے ایک سیاح کارل ایگن نے 1884ء میں دنیا سے روشناس کرایا تھا تاہم جب یہاں سے شاہراہ قراقرم گزری تو تعمیراتی کام کے دوران ایسی چٹانیں کافی تعداد میں سامنےآئیں جن پر مختلف جانوروں کی تصویریں اور مختلف نقش ونگار کنندہ تھے۔ اس کے بعد جب علاقے میں ایسی مزید چٹانوں کی کھوج 1983 سے 1989 کے دوران شروع کی گئی تو معلوم ہوا کہ گلگت بلتستان کے علاقوں شتیال، تھور، ہدور، تھلپان، نوپورا اور چھگدو میں بھی ایسی چٹانیں موجود ہیں۔ ان چٹانوں پر جو تحریریں موجود ہیں وہ براہمی، سگدیاں، قدیم فارسی، چینی، تبتی اور حتیٰ کہ ہبرو زبانوں سے بھی مشابہہ ہیں۔

کسی شدید طوفان نے ان چٹانوں کو پہلے سے موجود پتھروں پر پٹخ دیا تھا ،جس سے سیلاب کی شدت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے

جس دور میں یہ نقش بنائے گئے اسے پتھر کا دور کہا جاتا ہے۔ اسی لئے اکثر تصویروں میں جانوروں اور ان کے شکار کے آلات بنائے گئے ہیں۔ اس علاقے میں کچھ چٹانوں پر بدھا اور سٹوپوں کی تصویریں بھی موجود ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ یہ پانچویں سے آٹھویں صدی کے درمیان کی ہیں۔ تاہم جو چٹانیں نیلاب میں دریائے سندھ کے کنارے موجود ہیں ان میں ایسی تصویریں موجود نہیں ہیں۔ اگرچہ چٹانوں کی ساخت ایک جیسی ہے جو اس بات کی دلالت بھی ہے کہ شاید یہ چٹانیں ایک ہی جگہ موجود تھیں۔ تاہم ان کے نقش مختلف ادوار کی نشاندہی کرتے ہیں۔

لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ بھاری بھرکم چٹانیں چلاس سے باغ نیلاب تک کیسےآئیں۔ کیا کوئی سیلاب ان چٹانوں کو یہاں تک لایا؟ جس جگہ یہ چٹانیں موجود ہیں وہاں سے دریا اچانک کوئی تیس کے زاویے کا موڑ کاٹتا ہے۔ گویا پیچھے سے پانی نے ان چٹانوں کو اچھال کر باہر پھینک دیا۔ پانی تو مڑ گیا مگر یہ چٹانیں اپنی بھاری بھرکم جسامت کی وجہ سے نہ مڑ سکیں اور آج نہ جانے کتنی صدیاں گزرجانے کے باوجود بھی یہیں ایستادہ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سردیوں میں دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں کافی حد تک کمی آجاتی ہے کیونکہ اوپر تربیلا ڈیم سے پانی کا اخراج بھی کم ہوجاتا ہے اس لئے ان چٹانوں کو با آسانی دریا سے کوئی سو دوسو قدم باہر دیکھا جا سکتا ہے مگر جب گرمیوں میں برف پگھلتی ہے تو دریا کابہاؤ بھی بڑھ جاتا ہے جس کے بعد یہ چٹانیں پانی کے بیچ میں چلی جاتی ہیں ۔

دریائے سندھ یہاں سے رخ موڑتا ہے مگر جب شدید طوفان کے نتیجے میں یہ چٹانیں یہاں پہنچیں تو پانی کے زور سے یہ چٹانیں پانی کے ساتھ مڑنے کے بجائے سیدھی آ کر گریں

سوات کی تحصیل بری کوٹ میں بھی چٹانوں پر نقش و نگار موجود ہیں مگر ان میں اور باغ ِ نیلاب میں موجود چٹانوں کی ساخت اور نقش و نگار میں کوئی مماثلت موجود نہیں۔ جو ان چٹانون کے مختلف ادوار اور مختلف تہذیبوں کو ظاہر کرتی ہے۔ تاہم چیلاس میں دریائے سندھ کے کنارے موجود چٹانوں کی ساخت اور نقش باغ ِ نیلاب میں موجود چٹانوں سے ملتے جلتے ہیں۔ گویا یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ کوئی شدید سیلاب یا برفانی طوفان ان چٹانوں کو چیلاس سے تقریباً چار سو کلومیٹر نیچے باغ نیلاب تک لےآیا۔ یہ سیلاب یا طوفان کب آیا تھا۔ اس حوالے سے کوئی مستند تاریخ تو موجود نہیں تاہم 1841ء میں ضلع میں ایک تباہ کن سیلاب آیا تھا۔ ضلع اٹک کے گزیٹیئر مطبوعہ 1930ء کے 46 پر درج ہے کہ : ’’اس سیلاب کی کہانی علاقے میں گیتوں کی صورت میں یاد کی جاتی ہے، پشتو کے ایک گیت کا ترجمہ اس طرح ہے :

لوگو یہ اللہ کے کام ہیں
دریائے سندھ تقریباً تین دن میں خشک ہو گیا
کشتیاں اور دوسری پانی کی سواریاں ختم ہو گئیں
جوان اور بوڑھے سندھ کو برابر کی سطح پر پار کریں گے
یہ حال 6 ماہ تک رہا اور لوگوں کے دلوں سے تمام ڈر جاتا رہا۔

اس انسان نے کچھ اٹھا رکھاہے یا پھر یہ اپنے سامنے والے دوسرے انسان پر حملہ آور ہے

اچانک شمالی علاقوں سے خبر آئی کہ سندھ شمالی علاقوں میں بند ہو گیا ہے۔ ایک دن دوپہر کے وقت سیلاب آ گیا، یہ دن قیامت کا دن تھا، کھبل اور ستانہ کے لوگ ڈوب گئے۔ بارائی میں کوئی نہیں بچا، ایک چوتھائی تربیلا بہہ گیا۔ جزیروں میں جو بھی زندگی تھی بچائی نہ جا سکی۔ گلاب کے پھولوں کی زمین “بجواڑہ” دریائے سندھ کے پانی کے ساتھ مل گئی۔ چھچھ کے کچھ گاؤں تباہ ہوئے۔”یٰسین ” اور “اصغر” بالکل تباہ ہو گئے۔ دریائے کابل کو پیچھے کی طرف دھکیل دیا گیا۔ جب سیلاب اٹک کے پہاڑوں سےٹکرایا تو چار ہزار جانیں ضائع ہو گئیں ۔سیلاب کی لہریں چارسدہ تک جا پہنچیں‘‘۔

شکار کے لئے کڑکی استعمال کی جاتی ہو گی، یہ تصویر جانوروں کو پھانسنے کا کوئی آلہ معلوم ہوتی ہے

پھر 1928ء میں دریائے سندھ میں 1841ء جیسی تباہی آئی جب “شایوک گلیشیئر” کے پھٹنے سے دریائے سندھ 25 سے 30 فٹ بلند ہو گیا۔ اب یہ نہیں معلوم کہ باغ نیلاب میں یہ چٹانیں مذکورہ بالا سیلابوں سے پہنچیں یا اس بھی کہیں پہلے یہ چٹانیں یہاں موجود تھیں۔ علاقے کی تاریخ پر کام کرنے والے محقق راجہ نور محمد نظامی کے بقول “یہ چٹانیں میں نے 1989ء میں پہلی بار دیکھی تھیں۔ ان چٹانوں پر جو تصاویر کنندہ ہیں وہ زمانہ قبل از تاریخ کی ہیں اور اپنے دور کے ماہر کاریگروں کی بنائی ہوئی ہیں جنہوں نے انہیں کسی تیز نوک دار آلے سے بنایا ہو گا۔یہ تصاویر اپنے وقت کے لوگوں کے تخیل اور معمولات کو ظاہر کرتی ہیں ایسی تصاویر ضلع اٹک کے دیگر مقامات پر بھی موجود ہیں”۔

بیل کے ساتھ ایک کتا بھی ہے ۔گویا چراگاہوں میں جانوروں کی حفاظت کے لیے کتے موجود ہوتے تھے

باغ ِ نیلاب گاؤں کے ہی ایک مقامی مصنف عمران خان کھٹر اپنی کتاب “نیلاب و کھٹر” میں لکھتے ہیں کہ “نقش و نگار سے مزین یہ چٹانیں گرینائٹ پتھر کی ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں سال گزرنے کے باوجود ان پر بنے ہوئے فن پارے محفوظ ہیں”۔

ڈاکٹر ہارون الرشید نے بھی نیلاب میں موجود ان چٹانوں پر ایک تحقیقی مضمون 1972ء میں لکھا جس میں کہا گیا کہ “جب دوسرے برفانی عہد (دس لاکھ سال قبل) میں برف کے سیلاب کے ساتھ جو ایک بڑا گلیشیئر اس طرف آیا تھا اس میں یہ بڑی بڑی چٹانیں بھی بہتی ہوئی اس علاقے میں آکر کالا چٹا پہاڑ کے دربند سے ٹکرا کر اس علاقے میں پھیل گئیں۔ ان چٹانوں کا تعلق پلائیٹوسین عہد سے ہے”۔ ایک نوجوان حسن ظہیر راجہ کا شعر ہے

تب یہ کاغذ وغیرہ ہوتے نہ تھے
پتھروں  پر لکھا گیا  تھا مجھے

شاید انسان نے شکار کے ساتھ اپنے اظہار کے لئے بھی پتھر ہی کو منتخب کیا تھا۔ اگرچہ آج ہزاروں سال گزرنے کے بعد انسان کا اظہار کاغذ سے ہوتا ہوا ڈیجیٹل تختی پر آچکا ہے مگر اظہار کی نفسیات آج بھی پتھر کے دور کے ارد گرد گھومتی ہے۔ انسان کا اظہار کسی کا شکار کرنے یا کسی کا شکار ہو جانے پر ہی محیط ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...