قبائلی علاقوں میں اصلاحات اور حکومت کا زبانی جمع خرچ
قبائلی علاقوں کا خیبر پختونخوا میں انضمام کا فیصلہ تو کردیا گیا لیکن حکومتی ادارے ابھی تک اس کے طریقِ کار کا عملی منصوبہ پیش کرنے اور قوانین کی تشکیل میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ ملک کے دیگر حصوں میں پہلے سے رائج سول قوانین کو قبائلی اضلاع تک توسیع دینے میں بھی حکمراں جماعت کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ سے انضمام کی مخالفت کرنے والوں کے موقف کو تقویت مل رہی ہے اور زیادہ تر سیاسی و انتظامی حلقے اب اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ انضمام کا فیصلہ جلدبازی میں کیا گیا تھا۔
گزشتہ مئی کے اواخر سے لے کر اب تک صوبائی حکومت نے قبائلی اضلاع میں انتظامی اور ترقیاتی حوالے سے بہتری لانے کے لیے بہت بلند بانگ دعوے کیے لیکن عملی طور پہ کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے انضمام کے وقت اعلان کیا تھا کہ ان اضلاع کو ملک کے دیگر علاقوں کے مساوی لانے کے لیے سو ارب روپے کی لاگت سے دس سالہ منصوبے پر کام شروع کیا جائے گا۔ اُس وقت مسلم لیگ کے اس فیصلے کی نہ صرف خیبر پختونخوا حکومت بلکہ فوج نے بھی حمایت کا اعلان کیاتھا۔ جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے بعد بھی پاکستان تحریک انصاف نے محض باتوں پر ہی اکتفا کیا ہے۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد گورنر کی حیثیت صرف علامتی رہ گئی ہے مگر خیبر پختونخوا کے گورنر شاہ فرمان خود کو آئینی کے بجائے انتظامی عہدیدار سمجھتے ہیں اور آئے روز نہ صرف سابق قبائلی اضلاع بلکہ صوبے کے دیگر بندوبستی علاقوں کے انتظام و انصرام کے بارے میں اجلاسوں کی صدارت کر تے رہتے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ محمود خان ان معاملات میں زیادہ ہی محتاط رہنے کی پالیسی پر کار بند ہیں۔ قبائلی علاقوں میں انتظامی اصلاحات اور ترقیاتی ایجنڈے پر عمل در آمد کے لیے کئی ورکنگ کمیٹیاں بھی تشکیل دی جا چکی ہیں مگر ان میں شامل سیاسی شخصیات کے باہمی اختلافات نے ان کمیٹیوں کو غیر فعال بنا رکھا ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر اجمل وزیر کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں کے لیے مختص سو ارب روپے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈز کا حصہ ہیں اور تمام فریق این ایف سی ایوارڈ سے تین فیصد رقم فراہم کریں گے۔ ان کے بقول وفاق اور خیبر پختونخوا و پنجاب کی حکومتیں اپنے اپنے حصے سے کٹوتی کیلئے تیار ہیں مگر سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں اس کے لیے رضامند نہیں ہیں جس کی وجہ سے ابھی تک دس سالہ ترقیاتی و اصلاحاتی ایجنڈے پر کام شروع نہیں ہوسکا ہے
سیاسی شخصیات، عہدیداروں اور ممبران پارلیمان کے ایک دوسرے پر عدم اعتماد کے علاوہ سابق قبائلی اضلاع میں فوج کی موجودگی اور اسے دیے گئے اختیارات بھی ایک اہم موضوع ہیں۔ پچھلے کئی برسوں بالخصوص 9/11 کے واقعہ کے بعد فوج کو نہ صرف امن وامان قائم رکھنے کے فرائض سونپے گئے تھے بلکہ ان علاقوں میں اصلاحات کے نفاذ اور ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے بھی فوج ہی کو احتیارات تفویض کیےگئے تھے۔ زیادہ ترقیاتی منصوبے جن میں سڑکوں، کالجوں، ہسپتالوں اور کھیل کے میدانوں کی تعمیر اور صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے شامل ہیں، مکمل کرلیے گئے ہیں۔ جبکہ کچھ منصوبے ہنوز زیرِ تکمیل بھی ہیں۔
حکومتی عہدیداروں کے مطابق سابق قبائی علاقوں میں اصلاحات اور ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر کا سبب تحریک انصاف نہیں، بلکہ سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر اجمل وزیر کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں کے لیے مختص سو ارب روپے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈز کا حصہ ہیں اور تمام فریق این ایف سی ایوارڈ سے تین فیصد حصہ فراہم کریں گے۔ ان کے بقول وفاق اور خیبر پختونخوا و پنجاب کی حکومتیں اپنے اپنے حصے سے کٹوتی کیلئے تیار ہیں مگر سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں اس کے لیے رضامند نہیں ہیں جس کی وجہ سے ابھی تک دس سالہ ترقیاتی و اصلاحاتی ایجنڈے پر کام شروع نہیں ہوسکا ہے۔ تاہم اجمل وزیر کا دعویٰ ہے کہ انتظامی سطح پر صوبائی حکومت نے تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں کافی کام کرلیا ہے۔ لیکن عام لوگ خوش دکھائی نہیں دیتے۔ جمعیت العلماء اسلام (ف) کے رہنما اور ممبر قومی اسمبلی مفتی عبدالشکور کا کہنا ہے کہ وہ حکومتی کارکردگی سے بالکل مطمئن نہیں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حکمراں جماعت کے رہنماؤں کے دعوے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کی طرح قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی اسی قسم کے خیالات اور احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔
دیگر معاشی اور کارباری مسائل کے علاوہ ایک اہم مسئلہ امن وامان قائم رکھنے کیلئے برطانوی نو آبادیاتی قوانین کے تحت قائم کئی گئی روایتی خاصہ دار فورسز کو پولیس کا حصہ بنانے کا بھی ہے۔ خاصہ دار فورسز کے لگ بھگ 28 ہزار اہلکار پچھلے دومہینوں سے احتجاج پر ہیں۔ وزیراعظم عمران خان سے قبل وزیر اعلیٰ اور گورنر کئی بار خاصہ دار اہلکاروں کے مطالبات حل کرنے کی یقین دہانی کراچکے ہیں مگر اس سلسلے میں باقاعدہ طور پر کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے۔ اس قضیہ پر بھی حکومتی ارکان کے مابین اتفاقِ رائے موجود نہیں ہے، انہیں اختلافات کی بِنا پر صلاح الدین محسود کو خیبر پختونخوا پولیس کے سربراہی سے ہٹادیا گیا تھا۔ حالانکہ 2013ء سے لے کر اب تک وزیراعظم سمیت جماعت کے دیگر رہنما صلاح الدین محسود کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔
سابق قبائلی علاقوں میں اصلاحاتی، ترقیاتی اور انتظامی حوالے سے پیش رفت میں حکومت کی ناکامی کے باعث معاملات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ انضمام کے مخالف چند مشران کے ساتھ لاکھوں قبائلی عوام بھی کالونیل عہد کے انگریزی قانون کے مطابق ان علاقوں کی آزاد حیثیت واپس بحال کرانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں۔
فیس بک پر تبصرے