بلتستان میں جشنِ نوروز

1,327

نوروز فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’’نیا دن‘‘ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس دن کو منانے کی روایت بہت پرانی ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں یہ تہوار ہر سال 21مارچ کو منایا جاتا ہے۔ شمسی ماہ کے حساب سے 21 مارچ کو سورج قطر فلک پر اپنا ایک سالہ سفر تمام کرتا ہے اور تمام 12 برجوں سے گزر جاتا ہے۔ 21 مارچ کو 24 گھنٹوں میں ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب سورج آخری برج سے گزر کر پہلے برج حمل میں داخل ہو جاتا ہے اس وقت کو شرف آفتاب کہا جاتا ہے۔ اس دن کو ثقافتی اہمیت کے ساتھ ساتھ مذہبی اہمیت بھی حاصل ہے اور جن ممالک یا علاقوں میں یہ تہوار منایا جاتا ہے وہاں کئی قسم کی مذہبی روایات کا تذکرہ ملتا ہے۔

تاریخ کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دریائے نیل اور فرات کی وادیوں میں ہزاروں برس قبل پنپنے والی بابلی تہذیب نے اپنے بعد آنے والی تمام تہذیبوں، عقیدوں اور مذاہب پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ تخلیق کائنات کی اس داستان کا تعلق بھی قریب قریب بابلی تہذیب سے ہے۔ نامور مورخ سبط حسن لکھتے ہیں “وادی دجلہ وفرات میں تین موسمی تیوہار بڑی عقیدت اورجوش سے منائے جاتے تھے اول نوروز کاتہوار جسے اہل عکاد وسومیر ’اکی تو‘ کہتے تھے۔ اکی تو ان کا سب سے بڑا تیوہار تھا جو سردیوں کی بارش کے بعد اپریل (ماہ نسان) میں منایا جاتا تھا۔ ایک اور تیوہار ’’تشری‘‘ کے نام سے ستمبر میں فصل کاٹنے پر منایا جاتا تھا۔ شہری ریاستوں کے سومیری دور میں اکی تو اور تشری دونوں نوروز کے تیوہار سمجھے جاتے تھے۔ کسی جگہ لوگ اکی تو کو نوروز کے طورپر مناتے تھے اور کسی جگہ تشری کو۔ ’’اُر ‘‘  اور ’’ اریک ‘‘ میں تو نوروز کا تیوہار نسان یعنی موسم بہار میں منایاجانے لگا۔ ایرانی روایات کے مطابق اسی دن کائنات نے تخلیق کے بعد اپنی حرکت شروع کی تھی۔ اسی وجہ سے نوروز کو زمین کی پیدائش کا دن بھی قرار دیا جاتا ہے۔

عمومی خیال یہ ہے کہ نوروز زرتشتیوں کا مذہبی تہوار تھا۔ اس مذہب کے پیروکار اس دن آگ جلا کر رقص و مستی کرتے تھے جو ان کی عبادت تھی۔ دوسری روایت یہ ہے کہ مارچ بالخصوص 21 مارچ کے بعد بہار کی آمد ہوتی ہے اور نوروز بھی آمدبہار کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ایرانی کیلنڈر کے مطابق 21 مارچ کو زمین سورج کے گرد اپنا ایک چکر پورا کرتی ہے اور اسی طرح ایک شمسی سال مکمل ہوتا ہے۔ ایرانی روایات کے مطابق اسی دن کائنات نے تخلیق کے بعد اپنی حرکت شروع کی تھی۔ اسی وجہ سے نوروز کو زمین کی پیدائش کا دن بھی قرار دیا جاتا ہے۔ فارسی لوک داستانوں میں یہ بھی لکھاہے کہ جب نامور بادشاہ جمشید نے فارسی سلطنت کی بنیاد رکھی تو اس دن کو نیا دن قرار دیا اس کے بعد ہر سال نوروز کا تہوار جوش وخروش سے منایا جانے لگا۔ نامور ایرانی مفکر ڈاکٹر علی شریعتی لکھتے ہیں کہ ’’نوروز کائنات کے جشن، زمین کی خوشی، سورج اور آسمان کی تخلیق کادن، وہ عظیم فاتح دن جب ہر ایک مظہر پیدا ہوا‘‘۔ نوروز کا سب سے بڑا جشن ایران کے جنوبی شہر شیراز میں تخت جمشید کے مقام پر منایا جاتا ہے۔ اس دن ایران کے مختلف حصوں سے لوگوں کی بڑی تعداد شیراز اور اصفہان کی جانب سفر کرتی ہے۔

بلتستان کی دستیاب تاریخ کے مطابق یہاں نوروز کا تہوار ہمیشہ سے روایتی  جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے یہاں کی قدیم  لوک روایات میں بھی کئی حوالے ملتے ہیں۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ چونکہ یہ زرتشت مذہب کے تہواروں میں سے ایک ہے اور بلتستان میں ماضی بعید میں زرتشت مذہب بھی رائج رہا اس لیےتب سے یہ تہوار بلتستان میں رائج چلا آرہا ہے۔ لیکن بعض مورخین کا خیا ل ہے کہ یہ تہوار بلتستان میں ایران سے آیا ہے۔ چودہویں صدی کے دوران بلتستان میں دین اسلام ایرانی مبلغین کی آمد کے بعد آیا اور ان مبلغین نے جہاں بلتستان سے بدھ مت اور اُن سے منسوب روایات اور ثقافت کے خاتمےکے لیے کامیاب جد وجہد کی  وہیں  اس کے ساتھ ایرانی تہذیب و ثقافت کو  بھی یہاں متعارف کرایا  جس کا ایک مظہر نوروز کا تہوار ہے۔ بلتستان کی تہذیب و ثقافت پر ایران کی دیگر کئی روایات کے  گہرے نقوش آج بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ نوروزکا  تہوار در اصل بہار کی آمد کی خوشی میں منایا جانے والاتہوار ہے۔ اسےایک طرح سے جشن بہاراں کے طور پر دیکھاجاتا ہے۔ کیونکہ بلتستان اور ایران کے موسمی حالات ایک جیسے ہیں، دسمبر سے مارچ کے وسط تک پڑنے والی شدید سردی کے بعد تیسرے ہفتے سے لوگ کاشت کاری سے فارغ ہوجاتے ہیں اور بہار کی آمد آمد کا سماں ہوتا ہے۔ شدید ترین سردی کے کھٹن اور صبر آزما کئی مہینے گزانے کے بعد جب موسم بہار کی جانب اَنگڑائی لیتا ہے تو اہل بلتستان خوشی کے اظہار کے لئے گھروں سے باہر نکل آتے ہیں اور کئی روز جاری رہنے والی ان رنگا رنگ تقریبات میں محو رہتے ہیں۔

نوروز پر بلتستان میں کئی دنوں تک تقریبات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس تہوار پر بلتستان میں دوسری بڑی دوعیدوں کی طرح نوروز پر بھی لوگ نئے کپڑےزیبِ تن کرتے  اور گھروں میں انواع و اقسام کے پکوان تیار کرتے ہیں۔ رشتہ دار وعزیر واقارب ایک دوسرے کے گھر عید ملنے جاتے ہیں۔ اس عید کی خاص بات یہ ہے کہ اس موقع پر گھروں میں بڑی تعداد میں انڈےاُبالے جاتے ہیں اور ان انڈوں پر مختلف و دیدہ زیب رنگ کیے جاتے ہیں۔ اِن اُبلے ہوئے انڈوں سے مہمانوں کی بھی تواضع کی جاتی ہے اور بچوں کو بھی خوبصورت نقش و نگار والے انڈے بطور عیدی دیے جاتے ہیں اس کےساتھ سسرال  کی طرف سے بھی اپنے داماد کو حسب اسطاعت  تحفہ میں پیش کیے جاتے ہیں۔ اس تہوار پر بوڑھے بچے اور جوان دن بھر مقپون پولو گرانڈ میں جمع ہو کر انڈے لڑانےاور انڈے لڑھکانے کا کھیل کھیلتے ہیں اوربڑی تعداد میں انڈے جیتتے یا ہارتے ہیں ہیں۔ شاہی پولو گراونڈ میں بلتستان کے روایتی اور قومی کھیل پولو کا دلچسپ مقابلہ ہوتا ہے جسے دیکھنے کے لئے لوگوں کا سیلاب اُمڈ آتا ہے۔ پولو گراونڈ میں لوگوں کی دلچسپی دیدنی ہوتی ہے۔

اقوام  متحدہ  نے سال 2015 میں نوروز کوعالمی سال قرار دیا۔ تب سے یہ تہوار دنیا بھر میں منایا جانے لگا ہے۔ اس نوع کی تقریبات کو  بہت زیادہ فروغ  دینے کی ضرورت ہے، اس سے نہ صرف یہ کہ ہم اپنی منفرد تہذیب و ثقافت کو تحفظ دے سکتے ہیں بلکہ بڑی تعداد میں ملکی وغیر ملکی سیاحوں کی توجہ بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...