پشتون لبریشن آرمی کا کہیں وجود بھی ہے؟

1,261

عمرداؤد خٹک کاتعلق کرک، خیبرپختونخوا سے ہے۔ اوریہ افغانستان کے راستہ انڈیا فرارہواہے۔ عمرداؤد کومختلف خبروں اورسوشل میڈیاپرپختونستان لبریشن آرمی کا مشن کمانڈرظاہرکیاگیاہے

ڈان نیوز کے مطابق سندھ پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے دہشت گردی اور انتہا پسندی پھیلانے والی ویب سائٹس، ویب پیجز اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی فہرست تیار کرلی ہے  اور ساتھ ہی حکومت کو انہیں بند کرنے کی تجویز بھی دے دی ہے۔ ان ویب سائٹ میں سے ایک پختونستان لبریشن آرمی کے نام سے آپریٹ ہورہاہے۔

سی ڈی ٹی کے سربراہ ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی کے مطابق عمر داؤد خٹک کی جانب سے بنایا گیا پختونستان لبریشن آرمی نام کے اکاؤنٹ نے پاکستان میں مسلح جدوجہد کے آغاز کا دعویٰ کیا۔

اس تنظیم کے سوشل میڈیاکے پیج اورخبروں کے مطابق عمرداؤد خٹک کاتعلق کرک، خیبرپختونخوا سے ہے۔ اوریہ افغانستان کے راستہ انڈیا فرارہواہے۔ عمرداؤد کومختلف خبروں اورسوشل میڈیاپرپختونستان لبریشن آرمی کا مشن کمانڈرظاہرکیاگیاہے۔ اس کے ساتھ دیگرافراد میں یاسمین نگارخان، شان باچاشنواری کوتحریک کے لیڈران کے طورپرمتعارف کرایاگیاہے۔ سوشل میڈیا پرجابجا پختونستان کاجھنڈا بھی دکھایاگیاہے، جوتین دھاریوں پرمشتمل ہے۔ ایک چھوٹی سی سرخ پٹی پھرکالارنگ اوراس کے بعد باقی سرخ رنگ کاجھنڈا جس کےمرکز پراوپراللہ اکبرکے الفاظ درج ہیں اس کے نیچے برف پوش پہاڑوں سے سورج کے ابھرنے کو پشتون سرزمین پرآزادی کے تصورکو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے اورنیچے پشتوزبان میں پختونستان لکھاہے۔ عمرداؤد شکل سے نوجوان دکھائی دیتاہے اورسوشل میڈیاکے  پیج پرزیادہ تراسی کی ویڈیوزاورخبریں شئیر ہوتی دکھائی گئی ہیں۔ پشتون لبریشن آرمی (پی ایل اے)کوپشتون لبریشن فرنٹ (پی ایل ایف)کے مسلح بازوکے طورپرمتعارف کرایاگیاہے، جس کامقصد پشتونستان کوپاکستان سے

آزاد کرانابتایاگیاہے۔ انڈیا ڈاٹ کام کے مطابق یہ مسلح تنظیم اس سال جنوری میں قائم کی گئی۔ خبرکے مطابق پاکستان کی مشکلات میں یوں اضافہ ہورہاہے کہ اس سے پہلے بلوچ اورسندھی علیحدگی پسندی کی تحریک کے بعد اب پشتون علیحد گی پسندی کی تحریک بھی سامنے آگئی ہے۔ اے این آئی سے گفتگوکرتے ہوئے تحریک کے مشن کمانڈر عمرداؤد نے عالمی طاقتوں بشمول انڈیاسے درخواست کی کہ پشتونوں کی آزادی کے حصول میں ان کی مدد کرے۔

عمراداؤد خٹک کی پختونستان کے لئے تحریک، انڈیا میں بیٹھے ہوئے براہمداغ بگٹی کی تحریک سے زیادہ مشابہ نظرآتی ہے، جابجاانڈیا اورعالمی برادری سے مددکی اپیل نظرآتی ہے۔ سوشل پیج اورخبروں سے ظاہرہوتاہے کہ پختونستان کی تحریک کانشانہ پاکستانی ریاست ہے۔ اس میں ایسے ویڈیوزاورخبریں شئرکی گئیں ہیں جس میں پشتونوں پرمظالم ہوتے دکھائے گئے ہیں۔ اوران مظالم  کے خلاف احتجاجات کی ویڈیوزبھی ہیں. ایک ویڈیومیں امریکہ پر پاکستان میں دہشت کی فیکٹریوں کوختم کرنے پرزوردیاگیاہے۔ عمرداؤد کہتاہےکہ وہ پاکستان میں دہشت  گردی کے مراکزختم کردے گا۔ اس طرح وہ انڈیا اورعالمی طاقتوں کی ہمدردی حاصل کرناچاہتاہے۔

عمرداؤد، پاکستانی فوج پر سوات اوروزیرستان سمیت دیگرعلاقوں میں پشتونوں کولوٹنے، ان کے گھروں کومسمارکرنے اورلاکھوں کے حساب سے عوام کوبے دخل کرنے کاالزام لگاتاہے۔ اس کے بقول پاکستان نے پشتونوں کوبے وقوف بنارکھاہے۔ پاکستان ان علاقوں کودہشت گردکیمپوں کے طورپراستعمال کرنے کی غرض سے خالی کرارہاہے۔ اوراس کی قیادت میں پشتون لبریشن ارمی اس دہشت کوختم کرکے رکھ دے گی۔ اس کے بقول پاکستان کوئِی ملک نہیں، بلکہ یہ مغربی سامراجیوں کاایک پروجیکٹ ہے، تاکہ وہ مقامی نسلی گروپوں کی شناخت کوتباہ کرسکے۔ وہ خدشہ ظاہرکرتاہے کہ پاکستان ہمارے خلاف نیوکلیائی ہتھیاراستعمال کرسکتاہے۔ اس نے کہاکہ جہاں انڈیا، بلوچستان کی آزادی کی تحریک کوسپورٹ کرتاہے، یہ دیکھناہے کہ آیا وہ پشتون کاز کوبھی سپورٹ کرتاہے۔لبریشن آرمی کے پیج پرافغانستان اورپاکستان کے درمیان واقع سرحدی لکیرڈیورنڈ لائن کومتازعہ بنانےاورپشتون شناخت کواجاگرکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن افغانستان کے پشتونوں کی آزادی یا وہاں امریکی قبضے اورمظالم کوبالکل ہی نظراندازکردیاگیاہے۔ ان کاذکرتک نہیں ملتا۔ پاکستان کی پشتون قوم پرست پارٹیوں اورطالبان تحریک کے حوالے سے بھی کوئی ذکرنہیں ملتا۔ 8مارچ کوحیرت انگیزطورپر فری پختونستان آرمی کا پاکستان آرمی پرحملے کرنے کادعویٰ کیاگیاہے۔ اس میں 15پاکستانی فوجیوں کوہلاک کرنے اور30کے زخِمی ہونے کادعویٰ کیاگیاہے۔ اس سے پہلے 5مارچ کے ایک پوسٹ میں ایک پشتون پاکستانی فوجی کے اغواء کاذکرہے۔ اس پشتون سپاہی کوپاکستان آرمی میں سروس کرنے پرسزادی گئی۔ اگرچہ ایک ویڈیوبھی شئیرکی گئی ہے۔ لیکن بظآہرکسی جگہ بھِی ایسی آرمی یا فورس کاوجود نظرنہیں آتا، نہ اس سے پہلے ایسی کوئی بڑی خبرعام ہوئی جس میں اس طرح کاکوئی دعویٰ کیاگیاہو۔

اس سال بھارتی جاسوس کے پس منظرمیں یہ بات سامنے آئی تھی کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را اورافغان این ڈی ایس پاکستان میں پنجابی پشتون اختلافات سے فائدہ اٹھارہی ہے۔ پشتون نوجوانوں میں افغان مہاجرین کے نام پرپشتونوں کی پنجاب میں مارکٹائی اورگرفتاری کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی میں مسلسل پشتون طلبہ کوزد و کوب کرنے کے واقعات پرشدیدردعمل دیکھنے میں آیاتھا۔ اس کے علاوہ پشتون دانشوروں، صحافیوں، ادیبوں وشعراء اوراساتذہ میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ جوپشتون خطہ میں جنگ اورترقیاتی عمل کے حوالے سے عام ہے۔ یہ سی پیک جیسے ترقیاتی منصوبوں پرپنجاب کی بالادستی اوراس میں پشتون خطے کونظراندازکرنے پرخفگی کااظہارکررہے ہیں۔ اس سے حوالے سے پشتون مڈل کلاس ایک تحریک بھی چل رہی ہے۔

اگرچہ سوشل میڈیا پرپاکستانی اسٹبلشمنٹ کوطالبان کاسرپرست قراردیاجاتاہے اورکچھ دانشوراورنوجوان پاکستان کی طالبان اورافغان پالیسی کے تنقید نگارہیں اور افغان حکومت کوسپورٹ کیاجاتاہے، لیکن یہ ایک بہت ہی محدودسرکل ہے۔ یہ پاکستان، افغانستان، عرب ممالک اورمغربی ممالک میں مقیم دانشوروں، نوجوانوں اورسیاسی کارکنوں کے درمیان تعلق ہے۔ یہ امریکی ڈرونزاورمداخلتوں کے حامی بھی نظرآتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستانی فوج سے تقاضا بھی کرتے ہیں سیاسی اسلامی تحریکوں سے فاصلہ بڑھاتے ہوئے جمہوریت کومستحکم اورفروغ دے اورمسلح اسلامی تحریکوں جیسے طالبان، لشکرجھنگوی، سپاہ صحابہ اورلشکرطیبہ جیسی جماعتوں کے خلاف کھل کرکارروائی کرے۔ ان کاایک عمومی مطالبہ مسلح اسلامی پرستوں کی سرپرستی بندکرنااورپنجاب میں ان کے مراکزکے خلاف کارروائی ہے۔ یہ افغانستان میں پاکستانی مداخلت کے خلاف ہیں۔

لیکن ان کی بڑی تعداد مین اسٹریم قوم پرست جماعتوں سمجھی جانے والی  لسانی پارٹیاں جیسے اے این پی، پشتو نخوامیپ اورقومی وطن پارٹی سے بھی منسلک ان کی ہمدرد ہیں۔ اوریہ پارٹیاں اس غم وغصہ کوپاکستانی ریاست کے خلاف اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں، اور وہ بھی محض نعرہ بازی کی حدتک۔ پشتون مڈل وپروفیشنل کلاس کے نوجوانوں کی بڑی تعداد تحریک انصاف جیسی پارٹیوں میں سرگرم ہے جوپاکستانی قوم پرستی سے جڑی ہوئی ہے۔ اے این پی، پشتونخوامیپ اورقومی وطن پارٹیوں کی موقع پرستانہ اورپاکستان میں ضم ہوتی ہوئی سیاست سے البتہ قوم پرست نوجوان نالاں بھی ہیں، لیکن اپنی ہرقسم کی تنقید کے باوجود یہ اپنا رشتہ مکمل طورپرمین اسٹریم پشتون اتھنک تحریک سے قائم بھی رکھے ہوئے ہیں۔ اس لئے بڑی پارٹیوں کی نعرہ بازی پاکستانی ریاست کے کام بھی آتی ہے یہ نوجوانوں کی امید کوقائم رکھی ہوئی ہوتی ہے کہ قوم پرست تحریک کچھ توکررہی ہے۔ لیکن پشتون نوجوانوں کیلئے خیبرپختونخوا میں اے این پی کامتبادل پختون اولسی تحریک ہے، جس نے نوجوانوں کی توجہ حاصل کرلی ہے۔ لیکن یہ فی الحال علیحدگی پسندی سے بہت دورہے۔ پشتون قوم پرست تحریک پر1970کےبعد ہونے والی تحقیقات سے پتہ چلتاہے کہ پشتون سرمایہ داراورمڈل کلاس کی غالب اکثریت کے مفادات اب پاکستان سے جڑے ہوئےہیں۔ اوریہ اب افغانستان کو ایک برباد ملک سمجھتی ہے۔

پشتونوں میں علیحدگی پسندی کےرحجان کاتجزیہ فاٹاکے مسئلہ کوسامنے رکھ کرکیاجاسکتاہے۔ پشتونوں کے تقریباتمام مین اسٹریم اتھنک قوم پرست اوراصلاح پرست سیاسی اسلام پرست اس کاانضمام خیبرپختونخوا سے کرنے یا نہ کرنے کے حق میں مہم چلارہے ہیں، کسی تنظیم نے اس کی پاکستان سے خودمختاری، علیحدگی یا افغانستان کے ساتھ ملانے کوریفرنڈم کاحصہ بنانے کی تجویزپیش نہیں کی۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ پشتون علیحدگی پسندی کی تحریک کس قدرپسماندگی کی شکارہوچکی ہے۔ اس کادوسرامطلب یہ ہے کہ پشتون اشرافیہ اورمڈل کلاس میں علیحدگی پسندی کی کوئی بڑی سوچ موجودنہیں۔ البتہ مین اسٹریم پارٹیوں سے نالاں نوجوان کسی بھی علیحدگی کی تحریک کے لئے خام مال بن سکتے ہیں۔ لیکن فی الحال آزاد ذرائع سے پختونستان لبریشن آرمی کے وجود، سرگرمی اورکارناموں کا تصدیق ہوناباقی ہے۔ پشتون لبریشن فرنٹ کی سیاسی سرگرمیاں بھی سامنے نہیں آئیں۔ زیادہ تریہ سوشل میڈیا اورانڈیاکی چند ویب سائٹ کی خبروں تک ہی محدودنظرآتی ہے۔

عمرداود خٹک پہلافرد نہیں جنہوں نے حالیہ دنوں میں اس طرح کی کوشش کی۔ کچھ عرصہ سے ایک ایسی ہی کوشش مشال خان ٹکرنامی ایک شخص کررہاہے جوکینڈامیں مقیم ہے اورجوخودساختہ پشتون تاریخ کی ویڈیوزیوٹیوب پراپ لوڈکرتارہتاہے۔مشال خان بھی پختونستان کی تحریک چلارہاہے لیکن اس کوکوئی خاص پذیرائی حاصل نہ ہوسکی۔

مضمون نگارکراچی میں مقیم محقق ہے۔ sartaj2000@yahoo.com

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...