مؤثر ترین وزیراعظم

1,214

26 نومبر 2008 کو بھارتی شہرممبئی میں حملہ ہوا تو الزام پاکستان پر لگا دیا گیا۔ بھارتی میڈیا پاکستان پر حملے کی باتیں کرنے لگا۔ بھارتی پولیس ممبئی حملے میں ملوث ایک شخص اجمل قصاب کو زندہ پکڑنے میں کامیاب ہوچکی تھی۔ بھارت نے ابتدائی تحقیقات کیں اور 5 جنوری 2009 کو ایک ” ڈوزئیر” پاکستان کو ارسال کردیا۔ جس میں ممبئی حملوں کی ذمہ داری لشکرطیبہ پر عائد کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ اجمل قصاب اور اسکے ساتھی پاکستانی شہری تھے۔

معاملہ پاکستان میں آیا تو اس وقت قومی سلامتی کمیٹی کے مشیر میجرجنرل محمود درانی نے ایک مقامی اور ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کے سامنے تسلیم کرلیا کہ اجمل قصاب ایک پاکستانی شہری تھا۔ اس وقت کے وزیرعظم یوسف رضا گیلانی نے بنا پوچھے یہ اہم ترین بیان دینے کی پاداش میں میجرجنرل محمود درانی کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا اور ساتھ ہی ساتھ اس اہم معاملے کی انکوائری کے لیے فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کو سپرد کرنے کی ہدایات دے دیں تاکہ بھارتی الزامات کی تصدیق یا تردید کی جاسکے۔ اس وقت ایف آئی اے کے سربراہ طارق کھوسہ تھے، طارق کھوسہ پولیس سروس کے ان چند ناموں میں شامل تھے جن کی قابلیت اور ایمانداری پر ایک زمانہ رشک کرتا رہا ہے ۔
طارق کھوسہ نے بھارتی الزامات کی ابتدائی انکوائری مکمل کی تو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 12 فروری کو کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا۔ اجلاس میں وزیردفاع ، وزیرداخلہ، وزیرخارجہ اور وزیر خزانہ کے ہمراہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی ، آئی ایس آئی کے سربراہ احمدشجاع پاشا اور دیگر کو طلب کیا گیا۔ وزیراعظم کی ہدایت پر طارق کھوسہ نے کابینہ کی دفاعی کمیٹی کو مختصر مگر جامع بریفنگ دی اور بتایا کہ ہمیں انکار کی کیفیت سے نکل کر تسلیم کرنا ہوگا کہ ممبئی میں ہونے والے حملوں میں پاکستانی شہری ملوث تھے۔ طارق کھوسہ نے کمیٹی کے ارکان کو یہ بتا کرحیران کردیا کہ اجمل قصاب واقعی ایک پاکستانی لڑکا تھا ۔ جس نے راولپنڈی میں ایک کالعدم تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ایف آئی اے نے اجمل قصاب کے والدین کا سراغ لگایا اور اس کے سکول سے چھٹی جماعت چھوڑنے کا سرٹیفیکیٹ لینے کے ساتھ ساتھ اس کے ایک استاد کا بیان بھی لے لیا تھا ۔ طارق کھوسہ نے کابینہ کی کمیٹی کو بتایا کہ انہوں نے ممبئی حملوں میں استعمال کی گئی کشتی کے انجن کا سراغ بھی لگا لیا ہے جسے کالعدم لشکرطیہ کے ایک کارکن نے کراچی سے خریدا تھا۔

طارق کھوسہ کی بریفنگ بڑی اہم تھی۔ وزیراعظم نے کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے شرکا کی باتیں سنیں اور اجلاس میں ممبئی حملوں کی کریمینل انکوائری کے لیے ایف آئی اے کو ذمہ داری سونپی اور بھارت کو یقین دلا دیا گیا کہ معاملے میں ملوث مجرموں کو قانون گرفت میں لے گا۔ بعد میں ایف آئی اے نے ممبئی حملوں کا مقدمہ درج کیا جو انسداد دھشتگردی عدالت اسلام آباد میں آج بھی زیر سماعت ہے۔
یوسف رضا گیلانی کی طرف سے کڑوا سچ تسلیم کرنے اور ممبئی حملوں کی پاکستان میں تحقیقات کروانے کے فیصلے نے اس وقت برصغیر میں دو ایٹمی طاقت کے حامل ممالک کو جنگ سے بچا لیا۔ اس بات کا اعتراف بعد میں شرم الشیخ میں اس وقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ نے بھی کیا تھا۔ اس ایک واقعے نے گیلانی کو تاریخ میں بحرانوں میں کھڑا ہونے والے وزیراعظم کے طور پر تسلیم کروایا۔ ان کا یہ اقدام مستقبل کے وزرا اعظم کے لیے ایسی صورتحال میں کیے جانے والے اقدامات کا حوالہ بھی بن گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ کٹھن حالات بڑے رہنما پیدا نہیں کرتے بلکہ کٹھن حالات میں درست سمت میں کیے گئے فیصلے اور اقدامات کسی کو بڑا رہنما متعارف کرواتے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے یہ ایک حقیقت ہے کہ پرویز مشرف کے ساتھیو ں کے ہمراہ اقتدار پر قبضے کے بعد سے ابتک پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اور موثر رہنما نوازشریف یا آصف علی زرداری نہیں بلکہ یوسف رضا گیلانی ہے۔
گیلانی دراصل بحرانی صورتحال میں آصف زرداری کی چوائس تھے۔ انہوں نے وزارت عظمیٰ کا حلف جنرل مشرف سے لیا اور پھر اسی مشرف کے اقتدار سے فراغت کے تابوت میں آخری کیل بھی ثابت ہوئے۔ گیلانی نے پارلیمینٹ میں پہلی تقریر کی اور معزول اور نظر بند ججز کی آزادی کا اعلان بھی کردیا ۔ وہ اپنے رہنما آصف زرداری کے برعکس معزول ججز کی بحالی کے خواہاں تھے مگر ایک ایسی کابینہ کی سربراہی کررہے تھے کہ جس کا کوئی رکن انہوں نے نہیں چنا تھا۔

گیلانی سال 2008 میں ملک کے 28 ویں وزیراعظم کی حیثیت سے اقتدار میں آئے تو دھشتگردی عروج پر تھی، وہ سال ملکی تاریخ میں دھشتگردی کے سب سے زیادہ حملوں کا سال تھا۔ انتہاپسندوں نے سوات پر قبضہ کیا تو یہ یوسف رضا گیلانی ہی تھے جنہوں نے پارلیمیںٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا اور آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے فوجی آپریشن کی ملکیت لی۔ نتیجے میں پاک فوج بھی سوات سے سرخرو ہوکر نکلی۔
سال 2011 میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن ہوا تو گیلانی نے پارلیمیںٹ کا مشترکہ اجلاس بلا لیا ۔ آرمی چیف جنرل کیانی اور آئی ایس آئی چیف جنرل احمد شجاع پاشا پارلیمیںٹ کے سامنے پیش ہوئے اور اراکین پارلیمینٹ کے تلخ و شیریں سوالات کے جواب بھی دیے۔ یہ چوتھی فوجی ڈکٹیٹرشپ کے بعد نوزائید جمہوریت میں غیر معمولی اقدامات تھے۔

ایبٹ آباد حملوں کے تناظر میں جب امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے بارے میمو گیٹ سکینڈل کو میڈیا میں ایک خاص تناظر سے شہہ دی جانے لگی اور سول ملٹری تنازعہ شدت اختیار کرگیا تو گیلانی نے دو قدم پیچھے ہٹنے کی بجائے پارلیمیںٹ میں کھڑے ہوکر کہا کہ ” ریاست کے اندر ریاست قبول نہیں کی جائے گی “۔

گیلانی ان دنوں میمو گیٹ کے حوالے سے جنرل پاشا سے خوش نہیں تھے، انہی دنوں کی بات ہے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا کی مدت ملازمت میں توسیع کے بھی خواہاں تھے۔ وزیراعظم ہاؤس میں ایک اجلاس میں آرمی چیف نے جنرل پاشا کی مدت ملازمت کا معاملہ اٹھایا تو گیلانی نے یہ کہتے ہوئے کیانی کی بات مسترد کردی کہ ، ” جنرل صاحب اس کے علاوہ کوئی اور بات کریں”۔
گیلانی کے دور حکومت کی سب سے موثر بات پارلیمیںٹ کی اہمیت تھی۔ سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ ہو یا نیٹو سپلائی کی بندش کا معاملہ انہوں نے پارلیمینٹ کو ہی تنازعات طے کرنے کا فورم بنا ئے رکھا۔ ان کے دور میں پارلیمینٹ کے جتنے مشترکہ اجلاس بلائے گئے، آجتک نہیں بلائے گئے۔ گیلانی کے دور میں پارلیمینٹ کو جتنی اہمیت دی گئی، اتنی ان کے بعد آنے والے کسی بھی وزیراعظم نے نہیں دی۔ سچ یہ ہے کہ ملک کے داخلی و خارجی مسائل کو سمجھنے والے نوازشریف کے دورمیں بھی پارلیمینٹ کو اہمیت دینے سے گریز کیا گیا، حالانکہ سال 2014 میں دھرنوں کی سازش میں اسی پارلیمینٹ نے ان کے اقتدار کو بھنور سے نکالنے میں مدد دی تھی۔

آل پارٹیز کانفرنس اور تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی روایت نے بھی اسی دور میں زور پکڑا۔ اس دور میں جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں طاقتور عدلیہ اور کلی طور پر ناقد میڈیا کی موجودگی میں حکومت کرنا واقعی ایک بڑا کام تھا، جو گیلانی نے کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ کے دور پر ہم میڈیا والوں نے کبھی غور نہیں کیا، کیونکہ ہم پیپلزپارٹی ، ن لیگ اور تحریک انصاف کے پارٹی سربراہوں آصف علی زرداری ، نوازشریف اور عمران خان کے چکروں سے باہر نہیں نکل پائے۔ گیلانی کسی جماعت کے سربراہ تو نہیں تھے مگر ان کی وزارت عظمیٰ بہرحال بڑی بہتر تھی۔

جنرل ضیاالحق کی فوجی آمریت کے بعد سے اب تک گیلانی وہ واحد وزیراعظم ہیں جو عملی طور پر وزارت عظمیٰ کے عہدے پر سب سے زیادہ عرصے تک فائز رہ چکے ہیں۔ انہیں مسلسل پانچ بجٹ پارلیمینٹ سے منظور کروانے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے جو آجتک کسی وزیراعظم کو نہیں مل سکا۔ ایسا نہیں کہ گیلانی فرشتے تھے ان سے بھی بہت غلطیاں ہوئیں ۔ مالی اعتبار سے ان پر اور ان کے خاندان پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ کچھ معاملات میں گیلانی کو آج بھی نیب کے چکر کاٹنے پڑ رہے ہیں۔ گیلانی کا اقتدار اپنی پارٹی کے چیرمین آصف علی زرداری کو بچاتے سپریم کورٹ کے ہاتھوں گیا۔ بلاشبہ انہوں نے اپنے اقتدار میں طاقتور صدر آصف زرداری کی موجودگی میں ایک موثروزیراعظم کے طورپر کام کیا اور پارلیمینٹ کواپنی طاقت کا سرچشمہ بنائے رکھا۔

ایک موثر وزیراعظم کے لیے پارلیمینٹ کو ساتھ لے کرچلنا سب سے اہم ہے ۔ ہمارے ہاں روایت تو نہیں مگر سابق وزراء اعظم کا ایک کلب بھی بنایا جانا چاہیے ۔ جس میں تمام سابق وزراء اعظم مل بیٹھ کر غور و فکر کیا کریں اور موجودہ وزیراعظم کو رہنمائی بھی دیں تاکہ ہمارا ہر وزیراعظم ایک موثر ترین وزیراعظم ہو جو ملک کو بحرانوں سے نکال کر ترقی ، عزت اور خوشحالی کے آسمانوں پر لےجائے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...