باقی آپ خود سمجھ جائیں

1,841

کچھ مسائل ہمارے اپنے ہی اجتماعی لاشعوری محرکات سے وابستہ ہیں جو اب اتنے پختہ ہوچکے ہیں کہ اب لگتا یہی ہے کہ ہم خود ہی نہیں چاہتے ہیں کہ کچھ سمجھ کرہی اس جہان فانی سے آنکھیں موند لیں

ہمارے انسانوں کے عظیم فلسفی ژاں پال سارترنے نجانے کس ترنگ میں یہ کہا تھا کہ ہمیں آزاد رہنے کی سزا دی گئی ہے۔ یہاں ہم چونکہ مختلف النوع غلامیوں کے شکار لوگ ہیں سو اسی لیے آج تک اس بات کونہیں سمجھ پائے ہیں اور نہ ہی اسے محسوس کرسکے ہیں۔بیشتر علوم انسانی سے ہمیں جہاں دیدہ و نادیدہ مقتدرحلقوں نے دوررکھاہوا ہے وہاں کچھ مسائل ہمارے اپنے ہی اجتماعی لاشعوری محرکات سے وابستہ ہیں جو اب اتنے پختہ ہوچکے ہیں کہ اب لگتا یہی ہے کہ ہم خود ہی نہیں چاہتے ہیں کہ کچھ سمجھ کرہی اس جہان فانی سے آنکھیں موند لیں۔ یعنی نتیجہ پایہ ء ثبوت تک پہنچایا جاچکا ہے کہ بے شک یہ دنیا ہمارے واسطے فانی ہی رہے گی۔

علوم تمام کے تمام تمتع انسانی کے لیے ہیں ۔ہر علم کا اپنا افادی پہلو ہے اور ہر افادی پہلو کے نتائج ہمیشہ خوشگوار ہی ہوتے ہیں۔لیکن اب پھر کیا کیا جاسکتا ہے کہ یہ  بعض چیزیں ہم جیسے درجہ ء سیری کو پہنچے ہوئے لوگوں کی ضرورت ہی نہیں رہی ہیں، نہ کشف، نہ علم ، نہ دریافت اور نہ کوئی ایجاد و اختراع فقط بازار کے ایک صارف کی طرح سوچنا۔یہ صارف بھی اس گول مٹول نما دنیا کے آخری صارفوںمیں سے ایک ہے جس کا پیداواراور پیداواری عمل میں نہ کوئی اختیار ہے او نہ ر اس کی اپنی کوئی پسند ہے۔ بس جو اشتہاری مہم بتائے گا وہی ہوگا جو ملے گا وہی لے گا۔ کیا خریدنا ہے؟ کیا کھانا ہے؟ کیا اچھا اور کیا برا ہے؟ یہ سب اب عصر حاضر کے سوچنے کی باتیں نہیں رہی ہیں۔یہی حال مارکیٹ میں دستیاب علوم اور جہالتوں کی صورت حال ہے۔

چونکہ انفرادیت پسندی کے عروج کا دور دورہ ہے لہذا اجتماعی ذمہ داریوں کی فہرست طویل تر ہوتی ہے یعنی با الفاظ دیگر یہ راست تناسب کا عمل ہے۔انفرادیت پسندرویوں کی ایک عجیب خاصیت یہ بھی دیکھنے میں آتی ہے جہاں مقابلے اور سبقت نہ بھی کی فضا نہ بھی ہو وہاں بھی یہ صورت نکل ہی آتی ہے اور انسان بے جا مسابقت میں مشغول نظر آتا ہے جسے نفسا نفسی کہہ لیں،عین ممکن ہے کسی بھی سیاسی و سماجی تنائو یا تغیر و تبدل کے نتیجے میں شدید انارکی دیکھنے میں آجائے۔انارکی کو اگر قابل قیادت رہنمائی نہ کرے تو محض تباہی ہوگی یہ انقلاب پھر بھی نہیں آئے گا اور ہاں وہ تبدیلی بھی نہیں آئے گی۔

فی جملہ اتنی زیادہ انفرادیت لوگوں کوآپس میں جوڑنے میں حائل رہتی ہے اور اس کے اثرات ہمارے بچوں پر براہ راست پڑتے ہیں۔لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے چوزوں کو ہم ہمیشہ ہمیشہ اپنے پروں کے نیچے چھپاتے پھریں گے۔جو ہم دوسروں کے بچوں کے بوتے ہیں اس کے کاٹنے کے عمل میں ہمارے بچے شریک کیوں کر نہ ہوں اس بات پرمجھے حیرت ہوتی ہے۔اسے مکافات عمل یا Karma کہیں یا پھر ایک منطقی نتیجہ۔ بہر صورت آئندہ نسل ہماری جانبداریوں اور تساہل پسندیوں کا خمیازہ بھگتے گی چاہے آپ ان کو سات سمندر پار اور دس دیواروں والے قلعہ میں بند رکھے۔

بھائیو!   یہ شرم کی بات ہے کہ ہم اب تک بنیادی انسانی، شہری اور سماجی مسائل سے دوچار ہیں۔صفائی پر کتنا خرچہ آتا ہوگا؟ صاف رہنے میں آخر ہرج ہی کیا ہے؟ اپنے گھر ، گلی محلے کو صاف رکھنے میں کونسی غیرت آڑے آتی ہے؟کوئی اپنی زبان سے اپنی سوچ کا گند پھیلاتا ہے تو ہم اسے اسی وقت کیوں نہیں روکتے بلکہ دیکھا گیا ہے کہ ہم میں سے اکثر وہاں سے کھسکنے یا پھر خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ گندگی سے سمجھوتا کرکے اسے سادگی کہیں یا نفرت یا تعصب کے گند سے بنا کر رکھنے کو مصلحت کا نام دیں نتیجہ وہی ہوگا یہ تعفن اور یہ زہر ہم سب کو ماردے گا۔

بات ہورہی ہے صفائی کی تو عرض ہے کہ یہ تو ہمارے نصف ایمان کا حال ہے۔ دیگر نصف کو اگر ہم انفرادی حیثیت میں سنبھالنے میں کامیاب ہی ہوئے ہیں تو جس معاشرے میں ہم سانس لے رہے ہیں وہاں اپنا دامن اور اپنے پائنچے اٹھاتے بچاتے جس چال ہم اپنی منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں یہ بات قابل غور ضرور ہے کہ ہم کبھی اپنی منزل کو نہیں حاصل کرسکتے ہیں اور نہ چھینٹ بغیر رہ پائیں گے۔کوئی راہ چلتے تھوکتا ہے یا پھر اپنا کچرہ دوسرے کے گھر کے آگے رکھتا ہے یا پھر کوئی ایسا عمل کہ اپنے اندر کی گندی سوچ کو جو لازماً مضر اور موذی ہے باہر لاتا ہے، وہ قابل مذمت ہے۔ اور ہم ایسی باتوں کے عادی ہیں۔ مذمت تو صرف حکومت کا کام ہے جب ملک میں بسنے والوں کی جان چلی جائے اور بس۔ ہم نے کبھی اس مذمت کا تجربہ کیا ہی نہیں ہے۔

جاتے جاتے سارتر ہی کا ایک حوالہ جب ایک فرانسیسی نوجوان جنگ کے دنوں میں آیا اور مشورہ مانگا کہ ایک طرف میری بیماربوڑھی ماں ہے تو دوسری طرف مادر وطن، حیران ہوں کس طرف جائوں اور کس کی اس وقت خدمت کروں ؟کسے میری زیادہ ضرورت ہے؟ بہت غور سے سننے کے بعد سارترصاحب نے اسے جو مشورہ دیا تھا اس کا لب لباب یہ ہے کہ ایک عام انسان کا رویہ اور رجحان ’’معلوم‘‘ ہی کی طرف ہوگا۔۔۔بات یہیں ختم کرتاہوں باقی آپ خود سمجھ جائیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...