طلاق کی شرح میں اضافہ کیوں؟

800

دنیا کے کسی بھی معاشرے اور مذہب میں ”طلاق” یعنی علیحدگی کو کسی طرح بھی پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دو افراد میں علیحدگی فقط دو افراد میں نہیں ہوتی. وہ دو خاندان کے افراد میں علیحدگی اور اختلاف کا بھی موجب بنتی ہے۔ فقط دو خاندان ہی نہیں، بلکہ سماج میں بےچینی اور اضطراب کا باعث بھی ہوتی ہے۔ اگر یہ حادثہ بچوں کی پیدائش کے بعد واقع ہو تو اس کی سنگینی اور دکھ میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ مشرق و مغرب میں تفریق کے بغیر ایسے واقعات وحالات میں انسانی جذبات مختلف نہیں ہوتے، وہاں بھی اسے پسندیدہ قرار نہیں دیا جاتا۔ ہمارے ہاں بھی اس کے سنگین نتائج پہ نظر رکھی جاتی ہے، لیکن مشرق و مغرب میں ابھی ایک فرق واضح ہے۔ مغرب میں خاندانی نظام داخلی وجوہات کے باعث بہت حد تک ٹوٹ چکا ہے اور مشرق میں کسی حدتک محفوظ ہے۔

ہمارے ہاں طلاق کی جو وجوہات بیان کی جاتی ہیں اُن میں سے اکثر وجوہات خارجی بیان کی جاتی ہیں، مثلاً مغرب کی جدیدیت، ہندووانہ معاشرے کے اثرات، عالمِ شرق و غرب کا گلوبل ویلج بن جانا، لیکن خارجی وجوہات سے پہلے داخلی وجوہات پہ بھی بحث ہونی چاہئیے۔ معاشروں میں دیگر تہذیب وکلچر اس وقت اثر انداز ہوتے ہیں جب وہ اندر سے خرابیوں اور کمزوریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ کیا ہمارا سوشل فیبرک اتنا توانا اور مضبوط ہے؟جس کی بنیاد پہ ہم بیرونی اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ کیا ہم ان اجتماعی اصولوں اور اقدار پہ اپنا معاشرہ قائم کر سکے ہیں جو بڑے سے بڑے طوفان میں بھی نہ لڑکھڑائے۔ ہم جس دین کے ماننے والے ہیں،کیا اس کی تعلیمات واخلاقیات ہمارے گھر،خاندان اور ہمارے رویوں میں دکھائی دیتی ہیں۔

پاکستان میں سالانہ دو لاکھ 55 ہزار سے زائد طلاقیں ہوتی ہیں۔ روز بروز اس میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے۔ 2018 میں صرف کراچی کے پانچ اضلاع کی عدالتوں میں خلع،طلاق اوربچوں کی حوالگی سمیت ساڑھے دس ہزار سے زائد کیسز سامنے آئے تھے۔ اگر آپ گزشتہ دس سالوں میں طلاق کے کیسز کا جائزہ لیں تو ہر سال اس میں 30 سے 50 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہی ہے جو پہلے عرض کر دی گئی ہے کہ مجموعی طور پر مکمل سماجی نظام کی Over Hauling کی ضرورت ہے۔  اگر ہم اس کی وجوہات میں سے ایک وجہ”دین سے دوری”بھی بیان کرتے ہیں تو ہمیں اس نکتے پہ صرف اس پہلو سے ہی غور نہیں کرنا کہ لوگ دین کے مظاہر و عبادات سے دور ہوگئےہیں۔ اس طرح بھی سوچنا ہے کہ لوگوں کے اذہان میں دین کا تصور کیا ہے۔ کیالوگ واقعی دین کو دین سمجھتے ہیں یا وہ خاص فرقہ وفقہ اورنقطہ نظر کو ہی دین خیال کر رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہی ہے کہ اکثریت فرقہ،فقہ اور خاص نقطہ نظر کو ہی دین خیال کربیٹھی ہے۔

اگر ہم قرآن مجید میں طلاق سے متعلق تعلیم و ہدایت کی بات کریں تو قرآن مجید نےجوطریقہ طلاق بیان کیا ہے اس پہ عمل کرنے سے طلاق میں اضافہ نہیں بلکہ کمی واقع ہوتی ہے۔ قرآن کے تصورِ طلاق سے معلوم ہوتا ہے،طلاق ایک سوچا سمجھا اور غور و فکر کے بعد علیحدگی کے فیصلے تک پہنچنے کا نام ہے۔ اس کے بعد بھی دوبارہ پلٹنے کے راستے مسدود نہیں ہوتے، وہ بھی آخری وقت تک کُھلے رہتے ہیں۔ حلالہ بھی فقط حلال ہونے کیلئے نہیں بلکہ یہ طلاق و علیحدگی پہ ایک روک ہے،لہٰذا مزید سوچنے کے بعد فیصلہ کیا جائےکہ زندگی میں پچھتاوا اورمحرومی نہ رہے۔ اگر “دین سے دوری” سے مراد، غیرقرآنی تصورِ طلاق ہے تو پھر بد قسمتی سے خود دینداروں میں بھی یہ دوری پائی جاتی ہے۔ اس دوری کا خاتمہ دین کی اصل تعلیمات سے آگاہی اور ریاست کا سماجی تقاضوں کے مطابق قانون سازی ہے،جس سے فریقین کے حقوق کو محفوظ کیا جائے۔

”دین سے دوری”کاایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دین ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا پابند کرتا ہے۔ اس کی تعلیم ہےکہ ہم اپنے ہر عمل کے لیے خداکی بارگاہ میں جوابدہ ہوں۔ اگر ایک مسلمان خواہ مرد ہے یا عورت دین سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں کبھی اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں غفلت نہیں کرنی چاہئیے۔ دین اس دنیا کو عارضی ٹھکانہ قرار دیتا ہے۔ اس لیے لالچ،حرص اور ظلم سے بچنے کی تلقین کر تا ہے۔ ایسی خرابیاں جو انسانی ذات سے متعلق ہیں ان کے نتائج فقط فرد ہی نہیں بلکہ پورا معاشرہ بھگتتا ہےجیسے غیبت، جھوٹ، چغلی اور تہمت وغیرہ۔ دین ایک انسان کو ایسا فرد بننے کی تلقین کرتا اور اس کا تزکیہ کرتا ہے کہ خاندان اور سماجی زندگی میں،وہ ”عادل” بن جائے،اس کے ہاتھ، زبان اور فعل سے کسی کی ذات کو نقصان نہ پہنچے۔ اگر “دین سے دوری” سے مراد یہ مفہوم اور مقصود ہے تو بات سمجھ آتی ہے۔ واقعی ہم یہ کہہ سکتے ہیں طلاق کی شرح میں اضافہ کی بڑی بنیادی وجہ “دین سے دوری” ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...