بال ٹمپرنگ اور ریورس سونگنگ سے پہلے عمران خان محض ایک اچھے فاسٹ بالر تھے، تاہم ریورس سونگنگ کے بعد وہ ایک عظیم فاسٹ بالر بن گئے۔ انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز آئیڈیل سیاست سے کیااورکسی بھی معیار پر پرکھا جائے تو اسی چیز نے انہیں ایک اچھا مگرناکام سیاست دان بنادیا۔ عین اسی لمحے جب انہیں کچھ جانے پہچانے افراد کی جانب سے سیاسی ٹمپرنگ اور سونگنگ کا سبق دیا جارہا تھا،وہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر متمکن ہو گئے۔
جب انگلستان سے انہوں نے اپنے کرکٹ کے سفر کا آغاز کیا تھا تو انہیں معلوم تھا کہ ریورس سونگ کیا ہوتی ہے تاہم انہیں یہ کارنامہ سرانجام دینے کا موقع میسر نہیں رہا تھا۔عمران خان نے یہ ہنر بڑے سرفراز سے سیکھا اور اسے مزید بڑا بنا دیا۔ وہ بال ٹمپرنگ کرتے ہوئے کنگ آف سونگ بن گئے۔انہوں نے وسیم اکرم اور وقار یونس جیسے سونگنگ کے سلطانوں کی صلاحیتوں کو نکھارا اورایسے نوجوان کھلاڑیوں کی ایک کھیپ تیار کی جو بال ٹمپرنگ اورریورس سونگنگ کے جنون میں مبتلا تھے۔ انہوں نے یہی طریقہ کار استعمال کیا اور پاکستان تحریکِ انصاف کی بنیاد یں استوار کیں۔
عمران خان کے سیاسی سفر میں وہ وقت اہم ثابت ہوا اور جہاں سے انہیں سیاسی پرواز کا موقع ملا جب پرویز مشرف نے انہیں وزارتِ عظمیٰ کی پیش کش کی تاہم عمران خان نے کچھ وجوہات وشرائط کی بنا پر میچ فکسنگ کی یہ پیشکش ٹھکرا دی۔ انہیں اسی طرح کی ایک پیشکش 2011 میں جنرل پاشا کی جانب سے بھی کی گئی تاہم وہ اس حوالے سے گومگو کی کیفیت کا شکار رہے، ان کا خیال تھا کہ جنرل پاشا ایک بکی ہیں حالاں کہ وہ غلط تھے،کسی حد تک رعایت کے ساتھ اصل بکی تو جنرل اشفاق پرویز کیانی ہی تھے ، وہ نواز شریف کو انتہائی اکثریت سے وزیرِ اعظم بنا لائے اور عمران خان منہ دیکھتے رہ گئے۔ان کا خیال تھا کہ وہ حقیقی بنیادوں پرگیند کھیل رہے ہیں لیکن وہ اب کی بار بھی مغالطے کا شکار تھے۔اس عمل میں عمران خان ایک حقیقی سیاسی جوہر کے طور پر نظر میں آ گئے اور انہیں سیاسی بال ٹمپرنگ اور ریورس سونگنگ کا ہنر سیکھانے کے لیے خیبر پختونخوا ان کے ہاتھ تھما دیا گیا۔اب انہیں یہ خیال ہو ا کہ وہ اس ہنر میں تاک ہو چکے ہیں۔
نواز شریف کے سامنے ریورس سونگ یارکرز بہت پھینکے گئے، ان میں کچھ باونسرز بھی تھے، جس سے نہ صرف یہ کہ نواز شریف کے حوصلے پست ہوئے بلکہ انہیں پویلین بھی لوٹنا پڑا۔بال ٹمپرنگ کا کام کوچ کا تھا، عمران خان کی حیثیت ایک مشکل اور تیز گیند باز کی تھی۔ اب وہ ایک مثالی کھلاڑی سے ایک مثالی سیاسی نجات دہندہ بن گئے ۔انہیں یہ خیال ہے کہ انہوں نے سیاسی ورلڈ کپ اپنے نام کر لیا ہے لیکن وہ اب بھی غلط ہیں۔ اختتامی نغمہ ابھی کہاں بجا ہے، ابھی تو کھیل باقی ہے۔
کو چ اور سیلیکٹرز ہمیشہ مستقبل پر نظر رکھے ہوتے ہیں۔اگر موجودہ کھلاڑی یا ٹیم پہلے سے طے شدہ معیار پر پورا نہیں اتررہی تو ان کے پاس کمی پوری کرنے کے لیے کھلاڑی موجود ہوتے ہیں جنہیں ریورس سونگ یارکرز کا کام سونپ دیا جاتا ہے، اور یہ کوچ اور سلیکٹرز پیچھے بیٹھے بال ٹمپرنگ کی ذإہ داری ادا کررہے ہوتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک آنے والے ہر کھلاڑی کو یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ اس کھیل میں ناگزیر ہے اور یہاں لوگوں میں یہ سرگوشیاں جاری رہتی ہیں کہ قبرستان کتنے ناگزیر وں سے بھرے پڑے ہیں۔
عمران خان کی جانب سے پھینکی گئی ریورس سونگ گیندوں کا کمال دیکھیے۔ 2014 دھرنا جس کے نتیجے میں نواز شریف حکومت لڑکھڑانے لگی، 2016 ہڑتال جس کا نتیجہ پانامہ جے آئی ٹی اور نواز شریف کی اقتدار کی سے بے دخلی کی صورت نکلا، بلوچستان میں تبدیلی جو پیپلزپارٹی کی معاونت و مدد سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومت گرانے پر منتج ہوئی،چئرمین سینٹ کے انتخابات جن میں اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ایوان سے باہر ہی رہیں، اور آخر کار عام انتخابات 2018 میں وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے حصول میں کامیابی۔
کوچز نے بال ٹمپرنگ کا کام تاحال نہیں روکا۔جلد ہی بلوچستان میں سونگ یارکرز کا آغاز ہو اچاہتا ہے۔ نواز شریف کو این آراو دینے کے حوالے سے بھی یہی عمل جاری ہے اور پنجاب میں بھی پاکستان مسلم لیگ (ق) کی جانب الٹا کھیل کھیلنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف اپنی ناکامی اور غیر مقبولیت کا سامنا کرنے جارہی ہے۔بلوچستان میں ریورس سونگ یارکر کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی چیئرمین سینٹ کو نکال باہر کرنے کے لیے فیصلہ کن گیند کرانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔اور نیب بھی اس عمل میں کسی سے پیچھے نہیں ہے اور تحریکِ انصاف کے وزرا کے خلاف ریفرنسز دائر کیے جانے کا عمل بھی شروع ہو چلا ہے۔
یہ گیندیں وکٹ کی جانب پھینک دی گئی ہیں اور کئی ابھی جلد ہی پھینکی جائیں گی۔ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا ، درحقیقت پاکستان تحریکِ انصاف کے لیے یہ کھیل کی شروعات ہیں۔اس بات کا قوی امکان ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف میدان میں ٹک نہیں پائے گی مگرا س کا انحصار بنیادی طور پر ان کی معاشی کارکردگی پر ہے۔پرویز الٰہی کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ (ق)، شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور بلاول کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹیمیں میدان میں اترنے کی تیاری پکڑ چکی ہیں آپ بھی زادِ راہ باندھ لیجیے۔
یہ مضمون انگریزی زبان میں لکھا گیا ہے ۔ مصنف نے مضمون کی اشاعت کے لئے بابا رحمتا کا قلمی نام منتخب کیا ہے۔
مترجم : حذیفہ مسعود
فیس بک پر تبصرے