کراچی میں انڈرورلڈ کے منظم ہونے کے امکانات

851

کراچی میں سیکورٹی کے حوالے سےانکشاف کیاگیاہے کہ شہرمیں حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے انڈرورلڈ کے جرائم پیشہ گروپ منسلک ہیں۔ خدشہ ظاہرکیاجارہاہے کہ کراچی میں ایم کیوایم، اے این پی اورپی پی پی کے زیرسرپرستی لیاری گینگ کے خلاف رینجرزآپریشن سے متاثرہ عناصراب جرائم پیشہ گروہوں کی شکل میں منظم ہورہے ہیں۔ کئی ایک ٹارگٹ کلنگزمیں انسداددہشت گردی کے پیچھےانڈرورلڈ کا ہاتھ ہونے کی دلیل دی گئی ہے۔ سیاست، جرائم پیشہ گروپوں اوردہشت گردی کے درمیان تعلق پیچیدہ ہے  اورحالات کے مطابق ایک خاص رخ اخیتارکرتے ہیں۔ جہاں کراچی جیسے شہروں کے سیاسی حالات اورتنازعات اس کے لیے موافق حالات پیداکرتے ہیں وہاں اسکی عدم موجودگی اس کے لیے مشکلات بھی پیداکرتے ہیں۔کراچی میں انڈرورلڈ کے سرگرم ہونے کے خدشات کے پیچھے یہ تاثرعام ہے کہ القاعدہ، طالبان، ایم کیوایم، لیاری گینگ جیسی تنظیموں کی کمرٹوٹ چکی ہے اوران کاشیرازہ بکھرگیاہے مگراس کے باوجودجرائم بھی جاری ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بہت سارے افراد غائب ہیں یہ ایک دوسری شکل میں منظم ہورہےہیں اوریہ منظم شکل اب انڈرورلڈ کی ہوسکتی ہے۔

کراچی میں چرس اورجوئے کےاڈے 60اور70 کی دہائی میں چلتےتھے۔ لیکن 1979میں افغان تنازعہ کی شدت کے سنگ  قبائلی علاقوں میں ہیروئن کی فیکٹریوں اوراسلحہ کے کاروبارکا فروغ ایک نئی شکل میں سامنے آیاتھا۔ منشیات کراچی میں کھپانے کے علاوہ بڑے پیمانے پر دنیابھرمیں سپلائی بھی ہونے لگیں۔ شہرمیں اسلحہ اورمنشیات کی فروخت اب ایک نئے اندازمیں ہونے لگی تواس نے جرائم کی دنیا پربھی اثرڈالا اوراس میں بڑی حدتک بدلاوآیا۔ پستول کی جگہ اب کلاشنکوف زیادہ استعمال ہونے لگی اورچرس کے ساتھ ہیروئن متعارف ہوئی۔ یوں جرائم کی دنیا کاکلچرہی تبدیل ہوگیا۔کراچی میں ایم کیوایم کے ظہورسے قبل جرائم پیشہ زیادہ ترمنشیات، سٹہ بازی اورجوئے کے اڈوں کے گردمنظم تھے۔ لیکن ایم کیوایم کے زیادہ تردہشت گرد پشتون، سندھی اورپنجابی عناصرکے خلاف برسرپیکارحملوں سے ابھرے مگران کی شکل شائداس قدرمنظم نہ تھی۔ ابتداء میں ایم کیوایم پڑھی لکھی  مڈل کلاس سے ابھری لیکن ساتھ جلاو گھیراو اورپتھراو کرنے والی لوئرمڈل کلاس بھی تھی۔ لیکن ایک دفعہ جب ریاست سے بھرپورٹکراو1992میں فوجی آپریشن کی شکل میں ہواتوپڑھی لکھی سماجی پرت پیچھے ہٹی اورلوئرمڈل کلاس مقابلہ میں آگئی۔ ان میں سے بعض توبیرون ممالک جیسے انڈیا سے تربیت یافتہ بتائے جاتے ہیں۔ یہ براہ راست جرائم پیشہ عناصرکی بجائے شہرکی سیاست سے تشدد کی طرف آئے۔ البتہ مقامی سطح  پران کے کنٹرول کے بارے میں کہاجاتاہے کہ یہ سیاسی پس منظرسے پردے کے پیچھےعناصرکرتے تھے۔ بعض کے نزدیک یہ براہ راست الطاف حسین کے کنٹرول میں ہوتے تھے جبکہ دیگرکے نزدیک “سیکٹرانچارج” ان کوعلاقہ کی سطح پرکنٹرول کرتے تھے۔ اے این پی اورپی پی پی کے زیراثرعلاقہ میں زیادہ ترچرس، ہیروئن اورجوئے کے اڈے چلتے۔ یہ انتظامیہ کوبھتہ دیتے اوراس کاروبارسے وابستہ افراد مقامی سیاسی پارٹیوں کوامداد اورچندے بھی دیتے۔ بعض اوقات یہ ایم کیوایم سے مقابلہ میں آنے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے۔ لیکن یہ تعلق واجبی ساتھا۔ کراچی کے دوبڑے بدنام زمانہ منشیات فروش ناظم آباد کاسیٹھ سیف اللہ بنگش اورلانڈھی کاحنیف خان کراچی کے جرائم سے بٹورنے والی دولت کے بل بوتے پرصوبہ پختونخوا کی ٹکٹ پربالترتیب اسمبلی کاالیکشن لڑااورناظم بنے۔ اسی طرح حیدرآبادکے بدنام زمانہ منشیات فروش داودپٹھان کاتعلق اے این پی سے تھا۔ لیکن کراچی کے حالات نے لیاری میں پی پی پی کے سیاستدانوں کومجبورکیاکہ وہ ایم کیوایم کے مقابلہ میں جرائم پیشہ افرادکوسامنے لائے۔ رحمان ڈکیٹ کاجرائم پیشہ گروہ یوں لیاری سے پوری کراچی میں پھیل گیا۔ اسی طرح اے این پی کے عروج کے دورمیں اے این پی کےجنرل سیکرٹیری بشیرجان نے جرائم پیشہ افراد کے علاوہ نوجوانوں کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ مگریہ معاملہ بڑے پیمانے پرنہ ہوسکا۔

ضیاء دورمیں  الذوالفقارسے وابستہ افراد انڈرورلڈ اوردہشت گردی کے ملاپ کے ساتھ چلتے رہے۔ لگتاہے کہ یہ پہلاسیاسی جتھہ تھاجس کےنوجوان باقاعدہ طورپراپنے مقاصد کیلئےانڈرورلڈ سےرابطہ میں آئے۔ ایک ایساہی کردار خالدشہنشاہ کابتایاجاتاہے، جس کوانڈرورلڈ کا ڈان خیال کیاجاتاتھا۔ خالد شہنشاہ جس وقت قتل ہوا، اس وقت وہ بلاول ہاوس کا چیف سیکورٹی آفیسرتھا۔ وہ بے نظیربھٹوپرحملہ کے حوالے سے بھی پہچانے جاتے تھے لیکن اطلاع کے مطابق وہ انڈرورلڈ کے تنازعہ میں لقمہ بنے۔ ایک دوسرا قتل انڈرورلڈ ڈان شعیب خان کاتھا۔ کہاجاتاہے کہ وہ ایم کیوایم کے معاملات میں دخل دینے لگاتھا۔ جس وقت شعیب خان جیل میں مرے اس وقت شہرپرایم کیوایم کابہت کنٹرول تھا۔ ایم کیوایم اور جنرل مشرف کی قربتیں سب پر عیاں ہیں۔ شعیب خان، لاہورسے گرفتارہوا، دوران حراست اس کی موت کودل کے دورے سے زیادہ زہرسے منسوب کیا جاتا ہے۔ شعیب خان کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ 27دسمبر1996میں ایم کیوایم کے دوکارکنوں ادریس پریڈی اورمحمداکبرکے قتل میں ملوث تھا۔

شعیب خان کی موت کے بعد اعجازگھاس منڈی والا اوروسیم بیٹر جوئے کے اڈوں میں ترقی پائے۔  ان کاہیڈکوارٹر رسالہ پولیس اسٹیشن کاعلاقہ گھاس منڈی تھا۔ لیکن انہوں نے شہرکے دیگرحصوں جیسے نیوکراچی، ڈیفنس، گلشن، لانڈھی، کورنگی، ملیرہی میں نہیں بلکہ ٹنڈومحمدخان، خیرپور، حیدرآباد، سکھراورلاڑکانہ میں بھی اڈے کھولے۔ اس طرح یہ روزانہ کی بنیاد پر50 ملین روپے بناتے تھے۔ جبکہ یہ سرکاری افسران کو ماہانہ 60ملین روپے دیتے تھے۔

کراچی میں منشیات اورجوئے کے اڈے ایک بہت پرانابزنس ہے۔ لیکن 1990کے بعد سے اس نے زمینوں پرقبضہ اوردہشت گردی سے اپنا تعلق بھی جوڑلیاہے۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان کے اندرعدم استحکام پیداکرنے والی قوتوں کوبھی ان میں اپنی جگہ بناناآسان ہوگیا۔ کراچی اس سلسلے میں جن خطوں کے ساتھ جرائم کی دنیا میں سامنے آتاہے اس میں ہندوستان کا ممبی، دبئی، ہانگ کانگ اورایران زیادہ جانے پہچانے ہیں۔ کچھ سال پہلےکراچی میں انڈیا سے مفرورمشہورشخصیت داؤد ابراہیم، جس کے گینگ کوڈی کمپنی کے نام سے پکاراجاتاہے، کراچی میں موجودگی اوراس کے ہندوستانی حریف چھوٹاراجن کے درمیان مقابلہ کی اطلاعات بھی سامنے آئیں تھیں۔ داؤدابراہیم کے بارے میں خیال کیاجاتاہے کہ وہ پاکستانی ریاست کے لیے کام کرتاہے اوریوں اس کاگینگ انڈیا کے شہروں جیسے ممبئی میں جرائم کے ساتھ وہاں جاسوسی اورعدم استحکام کے کام بھی آتا ہے۔ اسی طرح چھوٹاراجن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ ہندوستانی ریاست کے قریب ہے۔ یوں انڈرورلڈکی لڑائی ایک دوسری شکل میں تبدیل ہوتی نظرآتی ہے۔

جرائم کی دنیاکادوسرارخ جوبھی ہو، یہ بنیادی طورپرکراچی شہرمیں امن وامان کوبگاڑنے کاایک بہت بڑاذریعہ ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...