افغانستان میں بڑھتا ہوا عدم استحکام خطے کے لئے خطرہ
امریکہ کے ساتھ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ عوام بیرونی قبضہ کے خلاف ہیں، اوریوں آمادہ جنگ ہیں۔ اس لئے عوامی حمایت سے محروم امریکہ کوافغان وارلارڈزکواپنے ساتھ ملاناپڑتاہے۔ یہ زیادہ ترسابقہ کمیونسٹ اورجہادی ہیں۔ ان سے عوام خودہی تنگ ہیں۔ ان کی اپنی پرائیوٹ فوج ہے یہ خونی درندے اوراسمگلرہیں
افغانستان تیزی سے عدم استحکام کاشکارہورہاہے۔ اس کے پورے خطے پرگہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ امریکہ کے نائب وزیرخارجہ برائے سیاسی وفوجی معاملات ٹینا کیڈاناو نے کہاکہ پاکستان افغآن طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ دوسری طرف پاکستان پرطالبان اورخاص کرحقانی نیٹ ورک کوسپورٹ کرنے کے بھی الزامات لگائے جارہے ہیں۔
لیکن اصل معاملہ افغانستان کی مخدوش ہوتی ہوئی صورتحال ہے۔ افغانستان میں طالبان اورداعش کے حملوں میں تیزی آچکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ امریکہ کوافغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے اندراورباہراٹھنے والے تنازعات اورکشمکش سے بھی نمٹنے میں مشکلات کا سامناہے توتیسری طرف افغان سیکورٹی فورسزکے ہاتھوں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کامسئلہ ہے۔ ہفتہ کے روز شمالی بلخ میں واقع فوجی اڈے میں افغان فوج کے اہلکارکی فائرنگ سے سات امریکی فوجی زخمی ہوِئے، اس سے کوئِی ایک ہفتہ قبل بھی ایک افغان کمانڈونے فائرنگ کرکے امریکی فوج کے اسپیشل سروسزکے تین فوجیوں کوہلاک کیاتھا۔ احمد رشید کہتےہیں کہ حال ہی میں امریکہ کے وزیردفاع جیمس میٹس نے نے سینٹ کی ایک کمیٹی کی روبرو کہاکہ ’ہم اس وقت افغانستان میں جنگ نہیں جیت رہے‘۔ اس کاکہناہے کہ طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں کی وجہ سے سیکورٹی کے حالات دگرگوں ہیں۔ اس کاحل ٹرمپ انتظامیہ کا یہ اعلان ہے کہ افغانستان میں مزید5000فوجی بھیجے جاِئیں۔ لیکن احمدرشید کا کہناہے کہ افغانستان کواب جس طرح کے بحران کاسامناہے وہ اس سے زیادہ گہراہے جوسمجھاجارہاہے۔
اشرف غنی مقبولیت کھوتے جارہے ہیں۔ اشرف غنی کی حکومت سے اپوزیشن کے ساتھ اس کی کابینہ کے افراد بھی مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک ہی دن میں کابل کی سڑکوں پرکوئی دس مظاہرے ہوئے، جوان لوگوں نے نکالے جن کے عزیز حالیہ بم دھماکوں میں ہلاک ہوئے۔ ایک طرف یہ طالبان اورداعش کی بڑھتی ہوئی کاروائیاں ہیں تودوسری طرف ملک کاسیاسی بحران ہے۔ ملک کےصدر اشرف غنی اورسی ای او عبداللہ عبداللہ کے درمیان بداعتمادی عروج پرہے۔ جس کی وجہ سے پوری حکومت مفلوج ہوکررہ گئی ہے۔ ان حالات میں تقسیم اس قدربڑھ گئی ہے کہ فوج اوربیوروکریسی کے افسران ایک یادوسری طرف ہوگئے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وارلارڈز کی بڑی تعداد اشرف غنی سے زیادہ اپوزیشن کے ساتھ ہوگئ ہے ۔
حال ہی میں افغان حکومت نے گلبدین حکمت یارکے ساتھ صلح نامہ کیاتولبرل کی طرف سے شدید تنقید کی گئی۔ کیونکہ گلبدین کئی دہائیوں سے افغان حکومتوں کے خلاف جہاد کرتارہا۔ اب اسے اوراس کے ساتھیوں کومعافی دی گئی تووہ لوگ جنہوں نے گلبدین کی مخالفت مول لی اورافغان حکومت کاساتھ دیتے رہے وہ اب مایوسی کے شکارہوگئے ہیں۔
مشرقی وسطیٰ اورپاک افغان سرحدی علاقے وافغانستان میں جنگ وجدل اس لئے نہیں ہے کہ امریکہ پہلے سے زیادہ طاقتورہے۔ بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ امریکہ اب پہلے سے نسبتاً کم معاشی قوت اورفوجی طاقت رکھتا ہے۔ اگرچہ اب اس کی معیشت دنیاکی سب بڑی معیشت اوراس کے فوجی اخراجات بھی یقینی طورپرسب سے زیادہ ہیں۔ لیکن یہ پہلے ہی کی نسبت اب اتنی بڑی طاقت نہیں رہی۔ مثال کے طورپرکرس ہارمن کہتاہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی معیشت دنیاکانصف پیداوار پر مشتمل تھی ۔ تب اس کے لئے نصف کے قریب رقم دفاع پرخرچ کرناکوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اب صورتحال ایسی نہیں جبکہ فوجی اخراجات میں اضافہ ہواہے اورمعیشت میں 2007کے بعد سے تومسلسل بحران ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کوئی جنگ جیت نہیں رہاہے۔ اس کوہرجگہ مسلسل شکستوں جیسی صورتحال کاسامناہے۔ حال ہی میں جب سابق امریکی صدرابامہ کے اسلامی تحریکوں پرمشیرولی نصرکراچی کی حبیب یونیورسٹی میں تقریرکرنے آئے توانہوں نے کہاکہ عراق جنگ سے اس نے جوحاصل کیاوہ مشرقی وسطیٰ میں پہلی شیعہ ریاست کی تشکیل ہے۔ اس وقت امریکہ کی ایران سے کامیابی سے بات چیت چل رہی تھی اورسنی ریاستوں کے خلاف دائرہ تنگ کیاجارہاتھا۔ اب شام کے بحران میں امریکی حمایتیوں کی شکستوں اورروس اورچین کے اتحادی بشارالاسد کی شامی حکومت کی کامیابی نے امریکہ کوایک اورشکست سے دوچارکردیا۔ شام میں القائدہ کے گروپوں کوسپورٹ کرنے کی پالیسی کامیاب رہی نہ بمباری سے کچھ حاصل ہوا۔ اس سے قبل ابامہ انتظامیہ نے سعودی عرب کے کہنے کے باوجود شام کے خلاف فوجی کاروائی سے انکارپردونوں ممالک کے فاصلے بھی بڑھ گئے تھے۔ جب امریکہ جنگ میں کودا توبہت دیرہوچکی تھی۔
تیسرامسئلہ یہ ہے کہ اب امریکی کادباؤبہت کم ہوگیاہے۔ افغانستان سے لے کرعراق، کوریا اس کے سامنے سراٹھاتے ہیں۔ ترکی اورفلپائن جوعرصہ سے اس کااتحادی تھے، اب روسی چینی کیمپ میں چلے گئے ہیں۔ یہی حال پاکستان کاہے جوامریکہ سے زیادہ اب چین اورروس کے اتحاد کے زیادہ قریب ہے۔ ان کے ساتھ فوجی وتجارتی معاہدوں میں جڑ رہاہے۔ یوں امریکی اثرورسوخ میں کمی آرہی ہے۔ جب روس کاانہدام ہواس کے بعد دیگرطاقتیں ابھرنے لگیں تو امریکی انتظامیہ کے سامنے دواہم سوالات تھے۔ اول یہ ان کودبایاجائے مگرکیسے اوردوسرایہ ان کوابھرتاہوادیکھاجائے۔ کلنٹن انتظامیہ کی کوشش تھی امریکہ ان سب کواپنے اتحادی بنائے اورمعاملات کوآگے بڑھائے تب نیٹو میں وسعت دیکھنے میں آئی اورس کے دائرہ میں سابق کمیونسٹ ممالک سے لے کردیگرممالک شامل کرلئے گئے۔ لیکن بش جونئیرکے تحت نیوکونز (نیوکنزوریٹیو یعنی جنگ اورقبضوں کے حامی) گروپ سامنے آیا۔ اس گروپ نے ورلڈٹریڈآرگنائزیشن جیسے اداروں میں تجارتی سبقت اورفوجی غلبہ برقراررکھنے کے لئے عراق کی صدام حکومت کوسبق سکھاکربڑے ابھرتی ہوئی طاقتوں اورمخالفین جیسے چین کوبتایا کہ امریکہ کوکمزورنہ گرداناجائے۔ لیکن ظاہرہے امریکی صدربش سنئرکی طرح بش جونئراورابامہ سے لے کرٹرمپ تک امریکہ، عراق میں ہزیمت سے دوچاررہے۔ اوریہی حال اس کاافغانستان میں ہے۔ اس کی جنگ وخارجی پالیسی کوچیلنجزدرپیش ہیں۔
امریکہ کی افغان پالیسی کوشدید مزاحمت کاسامناہے۔ امریکہ فوجیں گھٹاکراپنے ملک میں پروپگنڈہ کرتاہے، اس کے اگلےسال پھرفوجوں میں اضافہ کی نوید سنائی جاتی ہے۔ افغان حکومت کوعوام کی سپورٹ حاصل نہیں۔ اوریوں امریکہ کی معاشی وفوجی قوت کے بل بوتے اس کی رٹ محض شہروں کے خاص حصوں تک ہی محدودہے۔ ابھی کل ہی بی بی سی پر طالبان کے زیراتنظام علاقے میں نظام زندگی کوفلمایاگیاہے۔ ان نامہ نگاروں کوباقاعدہ طالبان کی رہنمائی میں علاقے دکھائے گئے۔ افغانستان کابڑاحصہ اب طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ قندوزجیسے علاقوں میں دن کوافغان حکومت اوررات کوطالبان کاراج ہوتاہے۔ افغان سپاہیوں کی کم ہمتی کی رپورٹیں آئے دن مغربی اخبارات میں شائع ہوتی ہیں۔ امریکہ کے ساتھ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ عوام بیرونی قبضہ کے خلاف ہیں، اوریوں آمادہ جنگ ہیں۔ اس لئے عوامی حمایت سے محروم امریکہ کوافغان وارلارڈزکواپنے ساتھ ملاناپڑتاہے۔ یہ زیادہ ترسابقہ کمیونسٹ اورجہادی ہیں۔ ان سے عوام خودہی تنگ ہیں۔ ان کی اپنی پرائیوٹ فوج ہے یہ خونی درندے اوراسمگلرہیں۔ اس لئے یہ امریکہ کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ کرائے کے قاتلوں کی طرح ہیں۔ امریکہ کی دوسری مصیبت یہ ہے کہ امریکی فوجی زمین پرنہیں آسکتے! طالبان سے زیادہ اپنے تربیت کردہ افغان سپاہیوں اورمترجمین کانشانہ بنتے ہیں۔ آئے دن مغربی افواج اپنے مترجمین اورتربیت حاصل کرنے والوں کے ہاتھوں نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ دوسراخودکش حملون کاڈرہے۔ امریکی سپاہی خود ایک حصارمیں رہتے ہیں۔ پہلاحصارافغان سپاہیوں کاہوتاہے، اس کے بعد پرائیوٹ کنٹریکٹرزجیسے بلیک واٹرزکے دستے ہوتے ہیں۔ ان کوعراق اورافغان سماج کی سمجھ ہی نہیِں ہوتی ۔ افغانستان میں امریکی مشکلات میں اضافہ اوراس کے نتیجہ میں پیداہونے والے عدم استحکام سے پورے خطے میں جنگ اورانتشارمیں مزیداضافہ کاباعث ہوگا۔
مضمون نگارکراچی میں مقیم محقق ہیں۔
فیس بک پر تبصرے