مکالمہ پاکستان 2019 کا کامیاب انعقاد
پاکستان کے مسائل کے حل کے لیے تمام طبقوں بالخصوص سول ملٹری مکالمے کی اشد ضرورت ہے ،ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔پاکستان کے مسائل کے حل کے لیے تمام طبقوں بالخصوص سول ملٹری مکالمے کی اشد ضرورت ہے ،ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے آگے بڑھا جا سکتا ہے ،باہمی گفتگو کے ذریعے اختلافات کو زیرِ بحث لاکرہی کسی اتفاقِ رائے پر پہنچا جاسکتا ہے۔ہمیں مذہب ا و ریاست سے متعلق ریاستی اور عوامی سطح پر موجود تفریق کو زیرِ بحث لانا ہوگا۔ ہمیں ماضی کی غلطیوں پر کھل کر بات کرنی چاہیے۔ پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کے لے پارلیمان کو کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔ اراکینِ پارلیمان اور سیاسی قیادت کو اپنے آئینی حقوق کی جدوجہد کے لیے خود آگے آنا ہوگا۔ملک میں سیاسی عدمِ استحکام، کمزور معیشت اور سرحدی تنازعات خارجہ تعلقات پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔
مذکورہ بالا باتوں کا اظہارمارگلہ ہوٹل اسلام آباد میں منعقدہ ایک روزہ سیمینار ’’مکالمہ پاکستان2019‘‘ میں ہوا ہے، جس کا انعقاد پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے کیا تھا ۔مقررین میں سیاستدانوں ، اراکینِ پارلیمنٹ ، دانشوروں اور مختلف شعبوں کے ماہرین شامل تھے ۔ جن میں سابق وزیر اور سینیٹر پرویز رشید ، سابق وزیر خارجہ انعام الحق ، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز ،جنرل (ر) امجد شعیب ، مولانا محمد خان شیرانی ، ڈاکٹر سید جعفر احمد ، ایم این اے نفیسہ شاہ ، سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک بلوچ ،فرحت اللہ بابر ، افراسیاب خٹک ، حافظ حسین احمد ، ڈاکٹر خالد مسعود ، میجر جنرل (ر) اطہر عباس، معید یوسف ، خورشید ندیم ، رحیم اللہ یوسفزئی ، محمد عامر رانا ، سہیل سانگی ، حارث خلیق ، پروفیسر فتح محمد ملک ،ڈاکٹر پرویز ہود بھائی، محمد اسماعیل خان اور دیگر شامل تھے ۔
ایک روزہ مکالماتی پروگرام میں پانچ مکالماتی نشستوں کا اہتمام کیا گیا تھا جن میں مذہب و ریاست کے باہمی تعلق، قومی سلامتی کے تصور، پارلیمان کی حیثیت اور اس کا کردار، خارجہ تعلقات اور شناخت و یکجہتی جیسے متنوع موضوعات کا احاطہ کیا گیا تھا۔سینیٹرپرویز رشیدنے کہا کہ پارلیمان سے باہر بیٹھی ہوئی قوتیں اصل اقتدار رکھتی ہیں پارلیمان غیر فعال ہے۔ ملک میں دو آئین ہیں ایک تحریرشدہ ہے اور وہ جو لکھا ہوا نہیں ہے۔ عمل اسی پر ہوتا ہے جو لکھا ہوا نہیں ہے۔افرسیاب خان خٹک نے کہا کہ اگر پارلیمان کو اس کا آئینی کردار ادا نہیں کرنے دیا جاتا تو ملک میں استحکام نہیں آ سکتا۔ حافظ حسین نے کہا کہ عسکری ادارے ہوں یا سویلین، سب کو اپنی حدود میں کام کرنا چاہیے۔ غلطیاں دونوں سے ہوئی ہیں او ر ان کا اعتراف ضروری ہے۔ پارلیمان کو اپنے آئینی حق کے لیے خود جد وجہد کرنا ہوگی۔ ہمیں نت نئے تجربات کرنے کی بجائے ایک سمت کا تعین کرتے ہوئے مضبوط لائحہِ عمل تیار کرنا چاہیے۔ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ پارلیمان اور سیاست دانوں کی ساری توانائیاں بقا کی جنگ لڑتے ہوئے صرف ہو جاتی ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کا پاس ہونا پارلیمان کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے اس کے ذریعے سے مارشل لا کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہم عوام کی پارلیمان تک رسائی کی کوشش کررہے ہیں تاکہ وہ سیاسی ا ور پالیسی سازی کے عمل کا حصہ بن سکیں۔
ڈاکٹر عبد المالک نے کہا کہ شناختی تنوع کا احترام کیا جائے اور اسے تسلیم کیا جائے۔ ملک میں رہنے والی تمام اقوام کی خود مختاری کو تسلیم کیا جائے ۔ ڈاکٹر خالد مسعود نے مکالمے کو بنیادی حقوق کے تحفظ کا ضامن اور مسائل کے حل کا بہترین ذریعہ قرار دیا۔ محمد عامر رانا نے کہا کہ ہمارے ادارے کی کاوش ہے کہ ہم مکالمے کی مہذب اور شائستہ روایت کو فروغ دیں۔ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ مذہبی جذباتیت کا عنصر خارجی ہے۔فتح محمد ملک نے کہا کہ ہمیں بانیانِ پاکستان کے نظریات کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ سید جعفر احمد نے گفتگو کے دوران کہا کہ تمام ریاستی اداروں نے اپنے مفادات کے لئے مذہبِ اسلام کا استحصال کیا ہے۔
میجر جنرل (ر)اطہر عباس نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں قومی مفاد دراصل اشرافیہ کی ترجیحات کی ترجمانی کرتا ہے۔ قومی مفاد کی تشکیل کے لیے ہمیں عوام کی رائے کو اہمیت دینی چاہیے۔ معید یوسف نے اپنی گفتگو میں پاکستانی خارجہ پالیسی کا محور بھارت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ نہ صرف خطے بلکہ دیگر دنیا کے ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بھارت ایک اہم عامل کے طور پر موجود رہتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ہمیں اپنی توانائیاں بھارت کو مرکزمان کر صرف نہیں کرنی چاہئیں ۔ رحیم اللہ یوسف زئی نے اندرونی خامیوں اور کوتاہیوں پر توجہ مرکوز کرنے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خارجہ تعلقات پر فوج اثرا نداز ہوتی ہے۔ خارجہ پالیسی میں سویلین اداروں کا حصہ بہت کم رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلقات میں عدمِ تواز ن کا ذمہ دار محض پاکستان کو قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ ان میں ہمسایہ ممالک بھی قصور وار ہیں۔سابق وزیر خارجہ انعام الحق نے کہا کہ ہمیں سیاسی و فوجی قیادت کے مابین تناوکو ہوا دینے کی بجائے ختم کرنے کی کوششیں کرنا ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایران، سعودیہ، افغانستان،بھارت اور چین سمیت تمام ممالک سے بہتر تعلقات قائم کرنے چاہییں۔
مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ ہمیں ایسے نظام کی تلاش کی کوشش ایک ضرورت ہے جہاں وحدت و معاونت کی روایت پائی جاتی ہو۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بانیانِ پاکستان نے دو قومی نظریہ ایک سیاسی تشکیل کی صورت میں پیش کیا تھا تاہم بعد ازاں اسے ریاستی تشکیل کی بنیاد بنا دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھٹو دور میں مذہبی طبقے کے سامنے سرنڈر ہونے کی روایت کا آغاز ہوا جوضیا دور میں عروج پر پہنچ گئی۔ہمیں اپنے ماضی پر کھل کر بات کرنے کی ضروت ہے تاکہ ہم اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لے کر آگے بڑھ سکیں۔ ڈاکٹر فتح محمد ملک کا کہنا تھا کہ ہمیں علامہ اقبال اور قائدِ اعظم کے تصورِ ریاست اور تصورِ مذہب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پاکستان ایک سکیورٹی اسٹیٹ ہے اور یہاں پارلیمان اپنا آئینی کرادار بھر پور طریقے سے ادا نہیں کر سکتی۔سکیورٹی اسٹیٹ میں مفادِ عامہ کا تصور اور اس کی تشکیل سماجی یا پارلیمانی سطح پر کرنا ممکن نہیں رہتا۔
جنرل (ر) امجد شعیب نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ پاکستان ایک سکیورٹی اسٹیٹ ہے۔اسکیورٹی اسٹیٹ میں عوام پر بہت زیادہ پابندیاں لاگو ہوتی ہیں جبکہ پاکستان کے عوام کو ہر طرح کی آزادی میسر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معاشی صورتِ حال بہتر کرنا اور اسے ایک فلاحی ریاست کی جانب لے جانا پارلیمان کا کام ہے۔ ڈاکٹر پرویز ہود بائی نے نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوج کو اپنے آئینی کردار تک محدود رہنا چاہیے۔ خارجہ تعلقات میں سکیورٹی اداروں کے کلیدی کردار کی وجہ سے خارجہ پالیسی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی اداروں کو سویلین اداروں پر اعتماد کرنا ہوگا۔سہیل سانگی نے کہا کہ ملک میں امتیازی سلوک ہو رہا ہے ہمیں اس کے تدارک کی کوشش کرنی ہوگی۔ صوبائی اختیارات کی تقسیم کے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔ تھر کے باسیوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ ایسے عوامل ملک کی یک جہتی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
فیس بک پر تبصرے