رواداری طرزِ فکر میں تبدیلی سے آسکتی ہے
عملی طور پر تہذیبی مظاہر میں تغیر اس وقت رُونما ہوتا ہے جب سماج کے طرزِفکر میں تبدیلی نمودار ہوتی ہے۔ ہمارامعاشرہ تہذیبی سطح پر اس لیے پسماندگی کا شکارہے، کیونکہ اس کا طرزِ تفکر ابھی تک نہیں بدلا۔علم الکلام نے سوچ کی جس جہت کو پروان چڑھایا وہ ابھی تک باقی ہے اور انتہاپسندی بھی اسی راستے سے آئی ہے۔
ان خیالات کا اظہار اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چئیرمین ڈاکٹرخالد مسعود نے 17و18 جنوری کو کراچی میں کالجز وجامعات کے اساتذہ کے ساتھ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے زیرِاہتمام منعقدہ ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ سماج میں عدمِ رواداری کاوجود اس بات کی دلیل ہے کہ ہم نے اسلام کی حقیقی تعلیمات کوترک کردیا ہے۔یہ دین جاہلیت کی نفی کرنے آیاتھا اور جاہلی رویے کی اصل صفت یہ ہے کہ وہ متکبر اور غیرروادار ہوتا ہے،وہ مسائل کو بات چیت اور گفت وشنید سے حل کرنے کی بجائے لڑائی اور طاقت کے مظاہرے کے ذریعہ کرتا ہے۔کیا ہمارے اندر جاہلیت کا رویہ عود نہیں کرآیا؟
سیمینار میں پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے بھی مختصر گفتگو کی۔ان کا کہناتھا کہ مکالمہ ایک مسلسل عمل کانام ہے۔اس میں حتمیت نہیں ہوتی۔ہم نے اس سیمینار میں کوئی فیصلہ صادر نہیں کرنا بلکہ سوچ کو مہمیز دینا مقصد ہے تاکہ غوروفکر آگے بڑھتا رہے کیونکہ مکالمہ رُک جائے تو سماج میں جمود طاری ہوجاتا ہے اور اسی سے شدت پسندی جنم لیتی ہے۔ایک عملی مشق کے دوران انہوں نے معاشرہ میں طبقاتی وانفرادی سطح پرموجود خوف اور عدمِ تحفظ کے عنصر کو سماجی ہم آہنگی کے فروغ میں رکاوٹ کا ایک سبب بتایااور کہا کہ اس سے انسان ایک دوسرے کو سمجھنے کی صلاحیت کھودیتے ہیں اور اپنے اپنے خول میں بند ہوکر حقائق کا سامنا کرنے سے کترانے لگتے ہیں۔
سینئر صحافی ودانشور وسعت اللہ خان نے عدمِ رواداری پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شناخت کی اساس پر معاشرہ کی تقسیم صرف نظری نہیں ہے بلکہ عملی اور تربیتی ہے۔بچوں کو گھر،گلی محلہ اور تعلیمی اداروں میں باقاعدہ اس کی تعلیم دی جاتی ہے کہ تم مختلف اور بہترہو۔اختلاف کے ساتھ برتری کا احساس نفرت اور بُعد کی نفسیات کو جنم دیتا ہے جو رکتی نہیں ہے بلکہ آگے سفر کرتی ہے۔اقلیتوں کے حوالے سے اظہارِخیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اختلافِ مذہب یا کسی تکلیف دہ تجربہ کی بنا پر ایک طبقہ کے بارے منفی رائے قائم نہیں کرلینی چاہیے۔ہم آزادی کے وقت ہندؤں کے ساتھ ایک تکلیف دہ تجربہ سے گزرے جس کی تفصیل کتابوں میں درج ہے۔ان کتب کو پڑھ کر اپنے ملک کے ہندوشہریوں کوبھی اسی تناظر میں دیکھنے لگ جاتے ہیں اور ان کے استحصال کو جائز خیال کرتے ہیں۔اس طرزِعمل کوبدلنے کی ضرورت ہے۔
سماجی کارکن ڈاکٹر خالدہ غوث نے معاشرتی ہم آہنگی کے مسئلہ کو عالمی مسئلہ قراردیا اورکہا کہ سوچ کا فرق اور تنازعات ہر جگہ ہوتے ہیں ،انہیں ختم نہیں کیا جاسکتا۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کی موجودگی میں اقدار اور برداشت کی اخلاقیات کا قیام کیسے یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ہمارے ملک میں volunteerism کی فضا ختم ہوتی جارہی ہے۔رضاکارانہ سرگرمی اور خدمت کاسماجی ہم آہنگی و رواداری کے فروغ میں بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔اس سے سماجی حرکیات اور انسانی رویوں کی تفہیم میں مدد ملتی ہے۔فردمسائل کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔تب ایک ایسا انسانی طبقہ وجودمیں آتا ہے جو کشیدگی اور ذہنی دباؤ سے آزاد ہوتا ہے اور یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ دباؤ سے آزاد معاشرہ کے قیام کے بغیر سماجی ہم آہنگی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔لہذا ضروری ہے کہ رضاکارانہ سرگرمی کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اس سرگرمی کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔
سیمینارمیں معروف کالم نگار ودانشور خورشیدندیم نے سماجی ہم آہنگی کے فروغ میں ریاست کے کردار پر اظہار خیال کیا۔ ان کا کہناتھا کہ معاشرہ میں مطالبے کی نفسیات نے جڑ پکڑ لی ہے ۔ سماج اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے فریضہ سے دستبردار ہوگیا ہے اور ہر تبدیلی کے لیے ریاست سے مطالبہ کرتا نظر آتاہے کہ وہی آکر ہر مسئلہ کو حل کرے۔اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ سماج کے ادارے جو اقدار کا تحفظ کرتے اور انہیں فروغ دیتے ہیں کمزور ہوگئے اور ریاست کو اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے مطلق العنان بن جانے کا جواز مل گیا۔انہوں نے سماج اور ریاست کے مابین تعلق پر ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سماج اقدار سے چلتے ہیں اور ریاست قانون سے۔ان دونوں کے مابین حدِاعتدال ہوتی ہے جو ختم نہیں ہونی چاہیے ورنہ انتشار پیدا ہوتا ہے جس کا ہم اس وقت شکار ہیں۔لہذا ملک میں ترقی اور امن کی فضا قائم کرنے کے لیے سماج اور سماجی اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
ماہرِ طبیعیات ڈاکٹر اے ایچ نیر نے کمرہ جماعت،استاد اور تنقیدی شعور کے موضوع پربات کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم میں اگر تنقیدی شعور کارفرما نہیں ہے تو اس مشق کو تعلیم کا نام نہیں دیا جاسکتا۔تعلیمی اداروں میں تنقیدی شعور کے فقدان کی وجہ سے طلبہ غلط اور صحیح کے درمیان فرق کرنے سے قاصرہیں۔اسی کمزوری کا مظہر یہ بھی ہے کہ طلبہ کو سوال کرنا نہیں آتااور وہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے،وہ ذہنی طور پر ہر شے کوقبول کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور اسی کے شاخسانے میں انتہاپسندی کو بھی جگہ بنانے کا موقع ملتا ہے۔ڈاکٹر اے ایچ نیر نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ چھٹی جماعت سے تنقیدی شعور،اہمیتِ اسباب اور حلِ مسائل کی صلاحیت کے موضوع پر ایک کتاب نصاب کا حصہ ہونی چاہیے۔
پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی چئیرپرسن رومانہ بشیر نے اقلیتوں کے مسائل کے حوالے سے گفتگوکی۔انہوں اس پر زور دیا کہ مسائل کو کسی شناخت کے ساتھ جوڑ کر نہ دیکھا جائے ۔اس سے شہریت کا تصور پامال ہوتا ہے اور مسائل حل بھی نہیں ہوتے۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی اقلیتوں کو ایک درجہ کم شہری سمجھا جاتا ہے اور یہ سوچ صرف عوامی سطح تک محدود نہیں ہے بلکہ ریاست نے آئین میں چند ایسی شقیں داخل کی ہوئی ہیں جن سے اس تصور کو قانونی حیثیت مل گئی ہے۔اس کا نقصان محض اقلیتوں کو ہی نہیں ہورہا بلکہ ریاست بطور ادارہ خود کمزور ہو رہی ہے۔
سیمینار کے دوسرے روز فرضی کمرہِ جماعت کی صورت میں ایک عملی مشق کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں اساتذہ نے تعلیمی اداروں میں سماجی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے تجاویز پیش کیں اورنشست کے اختتام پر اساتذہ کے مابین پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی جانب سے سرٹیفیکیٹ تقسیم کیے گئے۔
چند تصویری جھلکیاں
فیس بک پر تبصرے