سماجی ہم آہنگی، رواداری اور تعلیم

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز، اسلام آباد کی دو روزہ نشست "علمی مکالمہ ومشق" کا احوال

1,404

14 ،15جنوری2019 کوپاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے زیراہتمام لاہور میں وسطی وجنوبی پنجاب کے کالجز اور جامعات کے اساتذہ کے ساتھ دو روزہ “علمی مکالمہ اور مشق”  کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد عمل میں لایاگیا۔سیمینار کی تعارفی نشست کا آغاز ادارہ کی پروگرام مینیجر شگفتہ حیات نے کیا۔انہوں مکالمہ  کے مقاصد کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ واحد ذریعہ ہے جس سے پرامن بقائے باہمی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔مکالماتی فضا کے فروغ کی ضرورت اگرچہ سماج کے ہر شعبہ میں ہے لیکن تعلیمی اداروں کی اہمیت اس لیے دوچند ہوجاتی ہے، کیونکہ کمرہ جماعت میں انسانی رویوں کی تشکیل ہوتی ہے۔اسی امر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے PIPS نے اساتذہ کے مابین مکالماتی نشستوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔یہ سیمینار اس سلسلہ کی پانچویں کڑی ہے۔

سیمینارمیں اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود نے انتہاپسندی کی وجوہات اور اس کے سدِباب کے لیے ممکن اقدامات کے حوالے سے بات کی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم سب ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جس میں تنوع پہلے کی نسبت زیادہ ہے۔یہ تنوع محترم ہونا چاہیے اور اس کی حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں تنوع کی بجائے یکسانیت کی فضا قائم کرنے پر زور دیاگیا جس کے نتیجہ میں اختلاف ناقابلِ برداشت ہوگیا اور انتہاپسندی کو پھیلنے کا موقع ملا۔سماج میں اختلاف کی اس حوصلہ شکنی کی نفسیاتی اور تاریخی وجوہات ہیں جن کے مطالعہ کی بھی اشد ضرورت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ علمی رویوں کو مثبت خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔تعبیر کی شدت علمی رویوں میں بگاڑ پیدا کرتی ہے اور اس سے تعمیر وتخلیق کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔لہذا یہ اساتذہ کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی فضاقائم کرنے میں کردار ادا کریں جس میں مکالمہ،امن اور رواداری جیسی اقدار کی حوصلہ افزائی ہو۔

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹرمحمد عامر رانا نے اساتذہ کو سماجی ہم آہنگی کے فروغ  میں تعلیم کے کردار پر ایک عملی مشق کرائی۔اس دوران انہوں نے معاشرہ میں موجود عدمِ رواداری کی مختلف  جہات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مکالمہ کی عمارت کو ٹھوس منطقی وسنجیدہ اساسات پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ہمیں پہلے مسائل کی جوہری نوعیت کا ادراک کرنا ہوگا اس کے بعد حل کے منہج کو طے کرنا چاہیے کہ مکالمہ کہاں سے   اورکیسے شروع ہو۔ کیونکہ مسائل کی ظاہری صورت کے پس منظر میں کچھ دیگر ایسے عوامل کارفرما ہوتے ہیں جن کی منطقی تفہیم کے بغیر مکالمہ سودمند ثابت نہیں ہوسکتا۔انہوں نے سماج میں سوال کی آزادی پر بھی زور دیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ سوال کا کوئی انقلابی ایجنڈا نہیں ہونا چاہیے بلکہ شعوری، تعمیری اورسنجیدہ ہونا چاہیے۔ یہی جستجو کا درست رویہ ہے۔

سیمینارمیں معروف دانشور خورشیدندیم نے بھی گفتگو کی۔انہوں نے سماجی رویوں کی تہذیب میں ریاست اور مذہبی وتعلیمی اداروں کے کردار کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کا کام نظریہ سازی نہیں ہے۔ سماج کو تشکیلِ رائے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ریاست کی حیثیت سہولت کار کی ہوتی ہے۔وہ تعلیمی اور عام سماجی سطح پر ایسے وسائل مہیا کرتی ہے جس سے فکر ،دانش اور تخلیق کی راہ ہموار کی جاسکے۔اس کے برعکس جب ریاست اپنی اس ذمہ داری سے دستبردار ہوکر رائے سازی کا کام انجام دینے لگے تو معاشرہ میں بے یقینی اور جبر کا ماحول پیدا جاتا ہے اور یہی عدمِ رواداری کے پھیلاؤ کا نقطہ آغاز ہے۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے ریاست کے کردار کا تعین کیا جائے اور سماج پر نظریات نافذ کرنے کی بجائے اس کی شعوری صلاحیتوں کوتقویت دے کر ان پہ اعتماد کیا جائے۔انہوں نے مذہب وریاست کے تعلق کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مذہب کو سیاست سے جدا کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ خدا اور خدائی تعلیمات سے اخلاقی راہنمائی نہ لی جائے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کوسیاسی مفادات کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
لمز یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ڈاکٹر محمد وسیم نے تنقیدی شعور،کمرہ جماعت اور استاد کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ تعلیم کا مقصد تنقیدی شعور کوپروان چڑھانا ہوتا ہے اور یہی تخلیق وایجاد کی سیڑھی ہے ۔ انہوں نے ریسرچ میں سوال کی ثقافت کو اجاگر کرنے پر بھی زور دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ اقوام کے تعلیمی نظم میں سوال کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔جب سوال کی ثقافت عام ہوتی ہے تو پھرایک ایسی ریسرچ جنم لیتی ہے جو نالج ٹرانسفر کو ڈیل کرتی ہے،اکانومی کو بہتر کرتی ہے،سوسائٹی کو ترقی کی طرف لے کر جاتی ہے اورغیرضروری مباحث میں وقت کے ضیاع کاسبب بننے کی بجائے تخلیق کو مہمیز دیتی ہے۔

نشست میں سماجی کارکن پیٹرجیکب نے اقلیتوں کے مسائل کا اختصار کے ساتھ احاطہ کیا۔انہوں نے شروع میں مذہبی اقلیتوں کے پاکستان سے جذباتی تعلق پربھی روشنی ڈالی۔ان کا کہنا تھا کہ کئی اقلیتی مذاہب کی اس سرزمین کے ساتھ ایک تاریخ وابستہ ہے جس کی وجہ سے ان کے ماننے والوں کا پاکستان کے ساتھ عقیدت کا ربط بھی ہے۔اقلیتوں کودرپیش مشکلات پر گفتگوکرتے ہوئے انہوں نےملک کے اندر اکثریت و اقلیت کے مابین بڑھتے ہوئے فاصلے پر تشویش کا اظہار کیا اور  کہا کہ اقلیتوں کے اندر اجنبیت کا احساس زور پکڑ رہا ہے ،وہ سماج میں جذب ہونے کی بجائے اس سے کٹتے جارہے ہیں  ۔انہوں نے ایک ایسے جمہوری وتکثیریت پسند معاشرہ کی تشکیل پر زور دیا جس میں اقلیتوں کو اجنبیت کا احساس نہ ہو۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں کا کردار بہت حد تک مثبت ہے۔اقلیتیں عدالتوں سے کم رجوع کرتی ہیں لیکن ہم نے حال ہی میں کچھ معاملات عدالت میں اٹھائے تو وہاں سے ہمیں خوش آئند ردِعمل ملا،عدالت نے کئی سرکاری ذمہ داران سے رابطہ کیا اور ان سے اصلاحات کا مطالبہ بھی کیا۔

سیمینار میں معروف صحافی سبوخ سید نے بھی اظہارِ خیال کیا ۔انہوں نے انتہاپسندی کو سماج کے لیے حقیقی خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس مسئلہ کا حل جہاں ریاست کی جانب سے سنجیدہ اقدامات کا متقاضی ہے وہیں اس کے ساتھ انفرادی سطح پر اساتذہ کی ششوں کا بھی طالب ہے ،انہیں چاہیے کہ وہ تعصبات سے بالاتر ہوکر طلبہ اور معاشرے کے  دیگرتمام لوگوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں اور مواقع کو بروئے کار لائیں۔

سیمینار کے دوسرے روز فرضی کمرہ جماعت کی صورت میں ایک عملی مشق کا اہتمام  کیا گیا تھا جس میں اساتذہ نے تجاویز دیں کہ تعلیمی درسگاہوں میں رواداری کے فروغ کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...