مابعد سیاسی اسلام، منزل ہے یا محض ایک پڑاؤ؟

911

مابعدسیاسی اسلام کی اصطلاح نوے کی دہائی میں وضع ہوئی۔اس وقت بعض مسلم وغیرمسلم مفکرین نے پیش گوئی کی تھی کہ سیاسی اسلام بطور فکر وتحریک اپنی جگہ بنانے میں ناکام ہوگیا ہے، آئندہ برسوں میں مذہبی سیاسی جماعتیں انسانی حقوق،آزادی اور تکثیریت پسندی جیسی اقدار کے لیے اپنے فکری گوشے وا کردیں گی۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دینی تعلیمات سے دستبردار ہوجائیں گی بلکہ وہ واجبات کے ساتھ حقوق،ایمان کے ساتھ آزادی اور اختلاف کے ساتھ تکثیریت کو بھی قبول کرلیں گی ۔یہ پیش گوئی اور اصطلاح اگرچہ جدید ہے لیکن اس مرحلہ کے لیے راہ ہموار کرنے کی فکری جدوجہدبرصغیر اور اس سے باہر طویل تاریخ رکھتی ہے ،اتنی کہ جتنی سیاسی اسلام کی اپنی تاریخ ہے۔

اس پیش گوئی کے مطابق کیا ہم مابعدسیاسی اسلام کے مرحلہ میں داخل ہوچکے ہیں؟مذہبی سیاسی جماعتیں اگرچہ اپنے سیاسی منشور کی حدتک انسانی حقوق ،آزادی اور تکثیریت کے لیے کشادگی پیدا کرچکی ہیں اور تحفظِ جمہوریت کے لیے کوشش کرتی بھی نظر آتی ہیں مگر اس کے ساتھ وہ اس تبدیلی کو مابعدسیاسی اسلام کے نام سے تعبیر نہیں کرتیں بلکہ ان کے نزدیک یہ ایسا فکری ارتقاء ہے جو سیاسی اسلام کی حدود سے باہر نہیں نکلا۔جبکہ ان کے بالمقابل دیگر مفکرین کا خیال ہے کہ سیاسی اسلام تاریخی جبر کے آگے ٹھہر نہیں سکا اور ناکام ہوگیاہے،یہ تغیر اس ناکامی کا ثبوت ہے۔

ہمیں اس بات سے غرض نہیں کہ یہ تبدیلی منصوبہ بند ارتقاء کا نتیجہ ہے یا ناکامی کا۔ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ یہ مرحلہ منزل ہے یا محض ایک پڑاؤ؟ مذہبی سیاسی جماعتوں کے اندر اس مرحلہ کو برضا ورغبت قبول کرلیا گیا ہے یا تاریخی جبر نے انہیں اس دروازے میں داخل کیا ہے اور کیایہ مرحلہ ان پر وارد ہوا ہے۔خود مذہبی جماعتیں تو اس مرحلہ کو پڑاؤ نہیں کہتیں۔ان کا اصرار ہے کہ اس تبدیلی کو مجبوری نہ کہا جائے ۔ لیکن اگر یہ شعوری تبدیلی کی بجائے مرحلہ انتظار ہوا تو مستقبل میں ان کی کامیابی یا ناکامی دونوں خطرناک ہو ں گی ۔اگر کامیاب ہوئے تو شدت پسندی واپس آجائے گی اور اگر ناکام ہوئے تو شدت پسندی کے ساتھ ناکامی کا غصہ زیادہ گہرے مسائل جنم دے گا۔

پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ہاں تبدیلی سیاسی منشور کی حد تک ہے ۔ کیونکہ ان کے اندر فکری تنقیح کا عمل شروع نہیں ہوا۔ان کے برخلاف اخوان المسلمین ایسی جماعت ہے جس نے اپنے سیاسی ادب پر نظرِثانی کرلی ہے ۔سید قطب جو جماعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے، اخوان کی جدید سیاسی قیادت ان کے افکار پر تنقید کرچکی ہے اور ان کے انتہاپسندانہ نظریات سے دستبردار ہوچکی ہے ۔مثال کے لیے ڈاکٹر یوسف قرضاوی ، محمد عمارہ اور حسن حنفی کو پیش کیا جاسکتا ہے۔بلکہ ان سے پہلے اخوان کے مرشدعام حسن الہضیبی بھی جماعت کی متشدد فکر کو رد کرچکے ہیں ۔جماعت کے مفکرین اب سیکوارازم کو لادینیت بھی نہیں کہتے۔ اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اخوان کے ہاں مابعد سیاسی اسلام کا مرحلہ شعوری ہے جوکہ خوش آئند ہے۔لیکن پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں فکری تنقیح کے عمل کے لیے تیار نہیں ہیں۔بلکہ سیاسی منشور سے ہٹ کر علمی ونظریاتی سطح پر زیادہ متشدد ہوتی جارہی ہیں۔خاص طور پر جماعت اسلامی کا اصرار سلفیت کی طرح قدیم فقہ اور ماضی پر بڑھتا جارہا ہے اور اجتہاد کو ترک کردیا گیا ہے۔ایک طرح سے اسے جدید سلفیت بھی کہا جاسکتا ہے جو سیاست کے پیراہن میں ملبوس ہوکر آئی ہے۔

ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی جماعتوں کو سیاسی منشور سے آگے شعوری ارتقاء تک کے سفرمیں مزید وقت لگے لیکن ایک رجحان جو مابعد سیاسی اسلام کے مرحلہ میں سب کے ہاں زور پڑتا نظرآتا ہے ،وہ فی الوقت تو بے ضرر محسوس ہوتا ہے لیکن آگے چل کر ایک نئی مشکل بن سکتا ہے ۔وہ رجحان جدید جمہوری اقدار اور قومی ریاستی نظم کو اسلامی ثابت کرنے کا ہے ۔اب تبدیلی کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ اس سب کی بنیادیں مذہب میں موجود تھیں ۔ ریاستی نظم اور سماجی اقدارکو عالمی انسانی ماننے کی بجائے خاص مذہبی واجب یاتعلیم قرار دینے سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب کچھ وقت بعد ضرورت کے تحت تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں تو آگے بڑھنا ناممکن ہوجاتا ہے کیونکہ پھر آگے بڑھنا مذہبی حدود سے تجاوز کہلاتا ہے۔اس مشق کا مقصد شاید یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ہم دائرے سے باہر نہیں نکلے اور نہ ہمیں شکست ہوئی ہے، ہم نے اپنی شناخت محفوظ رکھی ہوئی ہے ۔یہ ایک ایسی توجیہہ ہے جسے ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش تو کہا جاسکتا ہے لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، اس کا ثبوت ان کی ساری فکری وتحریکی تاریخ ہے۔

بہرحال مابعد سیاسی اسلام میں مسلم سماج کے کئی بڑے مسائل کا حل ہے لیکن اس وقت کہ جب یہ منزل ہو،نہ کہ محض ایک پڑاؤ۔اگر یہ صرف پڑاؤ ہے تو انسانی حقوق،آزادی اور رواداری جیسی خوبصورت اقدار کا بے رحمانہ استعمال ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...