فرقہ وارانہ ہم آہنگی: اقدامات و امکانات

1,043

جب ہم پاکستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بات کرتے ہیں تو فوری طورپر ذہن میں شیعہ سنی تناظر ابھرتا ہے لیکن یہی بات جب بھارت میں کی جاتی ہے تو عموماً ہندو مسلم مسئلے کی طرف ذہن مبذول ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی سماج کو جو مسئلہ درپیش ہوتا ہے وہی لفظوں اور اصطلاحوں کا مصداق قرار پاتا ہے۔ ایک دین کے ماننے والوں کے اندر بھی اختلافی مسائل سے معاشروں کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں اور گاہے مختلف ادیان کے ماننے والوں کے مابین کسی معاشرے میں تفرقہ شدت اختیار کر جاتا ہے اور پاکستان میں بھی ایسے حالات کا چلن رہتا ہے۔ جب اختلافی مسائل اس حد تک پہنچ جائیں کہ معاشرے میں پرامن زندگی خطرے سے دوچار ہو جائے تو پھر درد مند افراد متحرک ہوتے ہیں اور صلح و سلامتی کے راستے تلاش کرتے ہیں تاکہ معاشرہ معمول کی شاہراہ پر آسانی سے رواں دواں رہ سکے۔

پاکستان میں اگرچہ فرقہ وارانہ کشیدگی کے بہت سے الم ناک مناظر رونما ہوئے لیکن صد شکرکہ کشیدگی ہماری بستیوں، گلیوں، محلوں، بازاروں اور دفتروں میں نہیں پہنچی۔ عوام ایک دوسرے کے خلاف نہیں نکلے۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ حکومت اور میڈیا کے علاوہ بیشتر علماء اور دانشوروں نے اسے ختم کرنے کے لیے مجموعی طور پر مثبت کردار ادا کیا ہے۔حکومت کی سطح پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے اگرچہ کئی ایک سنجیدہ اور نیم دلانہ اقدامات کیے گئے ہیں تاہم ’’پیغام پاکستان‘‘ کے عنوان سے سامنے آنے والی دستاویز ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسے پاکستان کے تمام مسالک کے اہم اداروں کے سربراہوں کی تائید و توثیق حاصل ہے ، تاہم اس کی مناسب ترویج و تشہیر ضروری ہے۔

پاکستان میں چند غیر سرکاری اداروں نے بھی اس حوالے سے قابلِ تعریف کام کیا ہے۔ یہ ان کا قابلِ تحسین اقدام ہے کہ انھوں نے مختلف مسالک کے افراد، طلبہ اور علماء کو ایک دوسرے کے ساتھ بٹھایا، مکالماتی طرز پرتبادلہ خیال کا موقع فراہم کیا، غلط فہمیوں کے ازالے میں مدد دی اوراختلاف رائے کو برداشت کرنے کی راہ ہموار کی اور متبادل بیانیے کی بنیادیں فراہم کیں۔ اس کے لیے متنوع اور پیہم جدوجہد کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔بعض شخصیات اور اداروں نےبھی مسلکی ہم آہنگی کے لیے مفید علمی خدمات سر انجام دی ہیں۔ مختلف مسالک کے مدارس پر مشتمل ’’اتحاد تنظیمات مدارس‘‘ کا پلیٹ فارم بھی اس ضمن میں ایک مثبت پیغام کا حامل ہے۔ مختلف مسالک کے علماء اور طلبہ کے مابین اس کے ذریعے جو تعامل معرض وجود میں آیا اور مسلسل جاری ہے،یہ انتہائی مفید ہے۔

قرن گذشتہ میں نوّے کی دہائی میں جب فرقہ وارانہ قتل و خون ریزی کا سلسلہ اپنے عروج پر تھا توپاکستان کے تمام مذہبی مسالک پر مشتمل اہم ترین جماعتوں نے ملی یکجہتی کونسل کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا۔ اس کی قیادت میں مختلف مسالک کے معتبر ترین علماء شامل تھے۔ انھوں نے انتہا پسند گروہوں کو اپنے سامنے بٹھایا اور لگاتار کوششوں کے بعد آخر کار ان سب کو ایک ضابطہ اخلاق پر متفق کر لیا۔ 17نکات پر مشتمل یہ ضابطہ اخلاق آج بھی ملی یکجہتی کونسل کی اساس ہے۔ اس پر مذہبی جماعتوں کے ذمہ دار قائدین کے علاوہ انتہا پسند گروہوں کی قیادت کے بھی دستخط موجود ہیں۔ شاید اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ تمام مکاتب فکر کے عوام تک یہ پیغام گیا کہ ہماری مذہبی قیادت آپس میں ایک پلیٹ فارم پر موجود ہے اور وہ اختلافات بھڑکانے والوں کی تائید نہیں کرتی۔

منفی فکر کو روکنے یا مختلف مسالک کے مابین تعامل کو فروغ دینے کے لیے اٹھائے گئے ان اقدامات میں تسلسل کی ضرورت ہے۔ تاہم ان سے بڑھ کر ایسے مثبت اقدامات جو ہمارے معاشرے کے لیے ضروری ہیں اور جن کی وجہ سے کہے بغیر فرقہ واریت کمزور پڑ جائے گی۔ آئیے کچھ ان کا بھی ذکر کیے لیتے ہیں۔پاکستان میں ایک عرصے سے فنون لطیفہ کے حوالے سے فعالیت خاصی کمزور ہو چکی ہے۔ یہ وہ مثبت فعالیت ہے جو انسان کو داخلی طور پر اعلیٰ اور خوبصورت زندگی کی طرف راغب کرتی ہے۔ شاعری، مصوری، موسیقی، خطاطی، فلم اور سٹیج ڈرامہ جیسے فنون جمالیات کی طرف معاشرے کی رغبت کا سبب بنتے ہیں۔ ہمارے دیہات سے لے کر شہروں بلکہ محلوں تک ایسی محفلیں منعقد ہوتی تھیں جن میں ہر عمر کے لوگ دلچسپی سے شریک ہوتے تھے۔ ان محفلوں میں صوفیاء کا کلام پڑھا جاتا تھا۔ مشاعرے بھی رات رات بھر جاری رہتے تھے اور لوگ وفور شوق سے شعراء کا کلام سنتے اور سر دھنتے تھے۔ ہر شعبے اور ہر فن کے اظہار میں منفی اور مثبت چیزیں تو آ ہی جاتی ہیں البتہ ہماری نظر مثبت پہلوؤں پر ہے اور ہم یہی چاہتے ہیں کہ ان فنون کے مثبت پہلوؤں کو پھر سے معاشرے میں رائج کیا جائے۔فنون لطیفہ کے ذریعے لطیف جذبات فروغ پاتے ہیں اور محبتیں گہری ہوتی ہیں۔

سیاسی عمل بھی بذات خود بہت مفید اور معاشرے کے لیے ناگزیر ہے۔ مثبت سیاسی عمل مثبت افکار اور مثبت فعالیت کا باعث بنتا ہے۔ عوام میں حقیقی سیاسی شعور جتنا گہرا ہوگا اتنا ہی وہ سیاست کے میدان میں اچھے افراد کا چناؤ کریں گے۔ کرپشن اور نااہلی کے خلاف اس وقت پاکستانی معاشرہ جس قدر بیدار ہو چکا ہے اس کے نتیجے میں امید کی جانی چاہیے کہ رفتہ رفتہ پاکستان کو اچھی حکمرانی نصیب ہوگی۔ اس کے نتیجے میں اعلیٰ تعلیم کو فروغ حاصل ہوگا۔ معاشرہ تعمیر و ترقی کی طرف رخ کرے گا۔ غربت اور پسماندگی کم ہوگی تو گمراہ کرنے والے عناصر اپنی تاثیر کھو بیٹھیں گے۔

پاکستان میں کچھ عرصے سے ایک تعلیمی نظام کی باتیں کی جارہی ہیں جو عصر حاضر میں کچھ زیادہ بلند بانگ ہو چکی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ عملی شکل اختیار کر گیا تو یقینی طور پر فرقہ وارانہ مدارس کی طرف رجحان بھی کم ہو گا اور فارغ التحصیل افراد کے لیے مفید اور تعمیری پیشوں میں جانے کا امکان بھی زیادہ ہو جائے گا۔ اس سے بھی فرقہ واریت کمزور پڑے گی۔دین کا حقیقی آفاقی چہرہ نمایاں کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ انبیاء کی انسان دوست سیرت کی طرف انسانیت کو متوجہ کرنا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں چھوٹی چھوٹی اور فروعی باتوں کی بنیاد پر پیدا ہونے والے اختلافات کمزور پڑ جائیں گے۔
آخر میں ایک اور اہم پہلو کی طرف توجہ دلا کر ہم اس مضمون کو مکمل کرتے ہیں اور وہ یہ کہ ماضی کے خطرناک اور تنگ نظری پر مبنی فتووں سے گلو خلاصی نہایت ضروری ہے۔ اس کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری دونوں سطح پر کوششوں کی ضرورت ہے۔ انفرادی فتووں کے منفی پہلوؤں کی حوصلہ شکنی بھی ضروری ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...