میں ہوں نجود

کم عمر ترین طلاق یافتہ بچی کی سرگزشت

3,098

نجود  کی زندگی میں شقاوت کا آغاز اس کی بڑی بہن نجلا  کے ساتھ  زیادتی سے ہوتا ہے۔یمن کے ایک عام گھرانے میں پلنے والی نجود معمول کے مطابق   نجلا  اور چھوٹے بھائی کے ساتھ مال مویشی کو چراگاہ  کی طرف لے کر جاتی ہے اور پھر کبھی سہیلیوں کے ساتھ  اور کبھی  اپنے بھائی کے ساتھ کھیل کود میں مشغول ہو جاتی ہے۔اس کا پسندیدہ کھیل چھپن چھپائی ہے۔آج بھی وہ  گائے کو چارہ ڈالنے کے بعد اپنے کھیل میں مگن ہوتی ہے کہ  ایک نوجوان آتا ہے اور کسی بہانے   اس کی بڑی بہن نجلا کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے ، تھوڑی ہی دیر بعد نجلا بے ہوش  حالت میں پائی جاتی ہے۔اس سے پہلے کہ  نجلا کے ساتھ زیادتی کی یہ خبر پھیلے،اس کا باپ فوراً ہی  زیادتی کرنے والے نوجوان کے باپ سے ملتا ہے اور  نجلا کو اس  کے نکاح میں دے دیتا ہے۔

نجلا  کا معاملہ تو  فوری حل ہو گیا تھا اور اس کے باپ نے  خاندانی عزت پر حرف لانے والی خبر  بریک ہونے سے پہلے ہی  بڑی بیٹی کو اسی  درندے کے ساتھ بیاہ  کر  اس کے جرم کو ہمیشہ کے لیے  قانونی تحفظ فراہم کر دیا تھا ،لیکن ابھی  خاندانی عزت مکمل طور پر محفوظ نہیں ہوئی تھی کیونکہ چھوٹی بیٹی نجود ابھی گھر میں ہی تھی۔اب  آٹھ سالہ نجود کا  غریب باپ ہر وقت نجود کے لیے فکر مند رہنے لگا،یہاں تک کہ اس کے گھر میں فاقوں نے ڈیرہ ڈال لیا،اسی اثناء میں اسے ایک ایسی آفر ملتی ہے جس میں  اسے اپنے  دونوں مسائل (خاندانی عزت پر دھبے کا خدشہ   اور معاشی تنگ دستی) کا حل  نظر آتاہے۔ایک فیض علی نامی تیس سالہ شخص اچھی رقم کے عوض   نجود  کا ہاتھ مانگتا ہے، جسے   نجود کا باپ چاہتے ہوئے یا نا چاہتے ہوئے مگر  قبول کر لیتا ہے ۔ چند ہی دنوں میں گڑیا اور مٹی کے کھلونوں سے کھیلنے والی نجود اپنے بے فکری کے زمانہ کو الوداع کہہ کر  دلہن بن جاتی ہے۔

سن بلوغت کو پہنچنے سے قبل ہی    ازدواجی زندگی  شروع کر دینے والی نجود   کو اگر سسرال میں    برداشت سے زیادہ   تکالیف   کا سامنا  نہ کرنا پڑتا   تو شاید  وہ اس شادی کو اپنے قبیلے اور علاقے کی دیگر بچیوں کی طرح  معاشرے کی روایت یا دنیا کی ریت سمجھ کر قبول کر لیتی لیکن بقول  منیر نیازی

اک اور  دریا  کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں اک دریا کے پار  اترا  تو میں نے دیکھا

نجود کو سسرال میں تمام امور خانہ داری بھی سرانجام دینا تھے اور   شوہر کی طرف سے مارپیٹ  بھی جھیلنا تھی،کیونکہ فیض علی کو بیوی کی نہیں بلکہ ایک نوکرانی اور باندی  کی ضرورت تھی۔نجود علی کا ناتواں جسم سختیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا اسی لیے جب نجود  میکے جاتی تو اپنی ماں سے ان تمام سختیوں اور زیادتیوں کا ذکر کرتی   جو اسے سسرال میں درپیش تھیں اور واپس نہ بھیجنے کے لیے کہتی،لیکن اس کے رونے دھونے کا اثر نہ ماں پر ہوا نہ باپ پر،ماں باپ خود ہی  بے رحم معاشرے کی زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے،وہ نہ چاہتے ہوئے بھی  نجود کو  شوہر کے ساتھ جانے سے روک نہیں سکتے تھے۔آخر کار نجود  کو ایک ترکیب سوجھی،اس نے   اپنے والدین کو انصاف فراہم کرنے سے عاجز پا کر    ریاست  سے انصاف  حاصل کرنے کی ٹھانی اور ایک دن موقع پاکر  فرار ہو گئی اور   عدالت میں پہنچ گئی۔قاضی کو اپنا سارا معاملہ سنایا ، رحمدل قاضی اسے اپنے ساتھ گھر لے گیا جہاں تین دن تک نجود نے قیام کیا۔اس دوران  نجود  کے اہل خانہ کی طرف سے اس کی گمشدگی کا اعلان ہو گیا اور اس کا شوہر اور باپ اس کی تلاش میں مارے مارے پھرنے لگے،لیکن انہیں کیا خبر تھی کہ نجود اپنا پسندیدہ کھیل چھپن چھپائی کھیل رہی تھی۔چھپن چھپائی کے اس کھیل  نے اسے کھویا ہوا بچپن لوٹا دیا اور عدلیہ نے    نجود کے باپ اور شوہر کو گرفتار  جبکہ نجود کی رہائی یعنی طلاق کا فیصلہ سنا دیا۔

دس سالہ نجود کی طلاق کی یہ خبر دنیا بھر کے میڈیا پر بریکنگ نیوز  اور اگلے دن  بین الاقوامی پریس  کی شہ  سرخی بنی۔اس طرح  نجود کا عزم اور حوصلہ  اس جیسی بہت سی  بچیوں کے لیے   ظلم کی چکی میں پسنے سے نجات کا سبب بنا۔نجود  نے اپنی یہ سرگزشت معروف ایرانی نژاد فرانسیسی  صحافی ڈلفین مینوے  کے ساتھ مل کر  (میں ہوں نجود: دس سالہ طلاق یافتہ بچی) کے نام سےقلم بند کی جسے بعد میں فلمایا بھی گیا۔نجود کی یہ کتاب  دنیا بھر میں پڑھی گئی اور تیس سے زائد  زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے،البتہ اردو زبان میں تاحال اس کا ترجمہ سامنے نہیں آیا۔

یہ مسئلہ صرف یمن یا اکیلی نجود کا نہیں، ہمارے معاشرے میں ایسی بہت ساری نجود موجود ہیں ۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہماری نجود کو تو رحم دل قاضی بھی میسر نہیں آتا۔پاکستان  میں  کم عمری کی شادی  کی روک تھام کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل سرگرم ہے ، اس سلسلے میں ڈاکٹر قبلہ ایاز اور محترم خورشید ندیم کی خدمات ناقابل فراموش ہیں مگر اس کے لیے   ضروری ہے کہ  علمی اور فکری بنیادوں پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ  “میں ہوں نجود” جیسی کتابوں کے علاقائی زبانوں میں تراجم کر کے انہیں عام کیا جائے،اسی طرح  اس کتاب پر  مبنی فلم   کی ڈبنگ کر کے  یا کم از کم  سب ٹائٹلنگ  کر کے  نشر کیا جائے تاکہ  عامۃ الناس کو کم عمری میں شادی کے فرد،خاندان اور سماج پر  پڑنے والے منفی اثرات  سے آگاہی ہو  اور نوعمر  بچیاں  بھی بے فکری سے اپنا  بچپنا جی سکیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...