پاکستان کے غیرمسلم ،خوف کا شکار؟

1,819

آسیہ مسیح کی رہائی کے حوالے سے ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں کافی کچھ لکھا گیا لیکن ایک چیز جو محسوس کی گئی وہ اس حوالے سے پاکستانی غیر مسلموں کا رد عمل تھا جو کہ بالکل نہ ہونے کے برابر تھا۔اس کی کیا وجہ تھی؟ کیا اس کی وجہ ان میں پایا جانے والا خوف ہے؟کیا وہ پاکستانی شہری نہیں؟ کیا آئین کے آرٹیکل 8 کے تحت وہ پاکستان کے باقی شہریوں کی طرح برابر کے شہری نہیں؟کیا انہیں اپنی بات کہنے اور رائے دینے کی مکمل آزادی حاصل نہیں؟ اگر ٹھنڈے دل سے اس پر غور کریں تو ان سوالات کا جواب آپ کو نفی میں ملے گا۔
اس وقت پاکستان کی آبادی کا تقریبا 3 فی صد غیر مسلموں پر مشتمل ہے جو کہ قیام پاکستان کے وقت تقریبا 23 فی صد تھی۔ قیام پاکستان کے وقت ہونے والی ہجرت نے ان اعداد وشمار کو بالکل بدل کے رکھ دیا اور آہستہ آہستہ یہ تعداد گھٹتی گئی۔ مردم شماری کے مطابق پاکستان میں ہندومت کے پیروکاروں کی تعداد کل پاکستانی آبادی کا1.85 فی صدہے۔ اسلام کے بعد پاکستان میں ہندومت دوسرا بڑا مذہب ہے۔سنہ 2010ء تک پاکستان میں دنیا کی پانچویں سب سے بڑی ہندو آبادی تھی اور پیو نے پیش گوئی ہے کہ 2050ء تک پاکستان میں دنیا کی چوتھی سب سے بڑی ہندو آبادی ہو گی جو کل آبادی کا ساڑھے ایک فیصد بنتا ہے۔ مسیحیوں کی تعداد تقریبا 1.59% فی صد ہے ۔تقریباً آدھی آبادی رومن کیتھولک اور آدھی پروٹسٹنٹ فرقے سے تعلق رکھتی ہے۔ پاکستان کے 90 فیصد سے زائد مسیحی صوبہ پنجاب میں رہائش پزیر ہیں۔ اور صوبے کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں اور ان میں سے 60 فیصد دیہات میں رہتے ہیں ان کی اکثریت مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ طویل عرصے سے ان علاقوں میں مقیم ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے مزاہب کو ماننے والے دیگر غیر مسلم ہیں۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 11اگست1947 کو اپنی تقریر میں کہا تھا کہ’’آپ آزاد ہیں،آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے،آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے، آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ افسر شاہی نے اس بات کی کوشش کی کہ قائد اعظم کی یہ تقریر عام آدمی تک نہ پہنچ پائے لیکن ڈان اخبار نے کسی نہ کسی طریقے سے یہ تقریر شائع کر دی۔
سنہ 2012 میں جب مرتضیٰ سولنگی ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل تھے انھیں معلوم ہوا کہ ادارے کے  آڈیو آرکائیوز ریکارڈ میں قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر کی ریکارڈنگ موجود نہیں۔ یہ محمد علی جناح کا کراچی میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے پہلا خطاب تھا۔
مرتضیٰ سولنگی نے اس کی تلاش شروع کی۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے بی بی سی لندن سے بھی رابطہ کیا اور آل انڈیا ریڈیو سے بھی۔ لیکن انھیں کامیابی نہیں مل سکی۔رتضیٰ سولنگی کہتے ہیں کہ وہ سیاست اور تاریخ کے طالب علم ہونے کی وجہ سے تجسس رکھتے تھے اور اس تقریر کا پیغام ان کے دل کے بہت قریب بھی تھا اس لیے انھوں نے کئی مہنیوں تک اس کے لیے تگ و دو کی۔
’11 اگست کی تقریر یہ بتاتی ہے کہ جب نئی ریاست کی تشکیل ہورہی تھی تو ریاست کے بانی کے ذہن میں اس کا نقشہ کیا ہے۔ وہ اسے کیسی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن مجھے کامیابی نہیں ہوئی۔‘
مرتضیٰ سولنگی کہتے ہیں کہ تقریر کی سرکاری آرکائیوز میں عدم دستیابی کے حوالے سے کئی قصے کہانیاں مشہور تھے اور ایک نظریہ سازش یہ تھا کہ اس تقریر کو فوجی آمر ضیا الحق کے زمانے میں جان بوجھ کر آرکائیوز سے غائب کردیا گیا۔ مرتضیٰ سولنگی کہتے ہیں سازشیں ہوتی ہیں اور منطقی اعتبار سے یہ ممکن بھی ہے لیکن ان کے پاس اس کے ناقابل تردید ثبوت موجود نہیں لہٰذا وہ صحافی ہونے کی حثیت سے نظریہ سازش کی تصدیق نہیں کرسکتے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا کہ ملک میں بانیِ پاکستان کی 11 اگست کی تقریر کو نظریاتی طور پر محفوظ کرنے یا قومی بیانیے کا حصہ بنانے کی کوششں کی گئی ہو۔ سنہ 2004 اور پھر سنہ 2011 میں پارسی اقلیت سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی ایم پی بھنڈارا نے اس تقریر کو نصاب اور آئین کا حصہ بنانے کے لیے قرارداد اور آئینی ترمیم پیش کی جو ایم پی بھنڈارا کے صاحبزادے اصفہان یار بھنڈارا کے مطابق دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کی شدید مخالفت کے باعث کامیاب نہ ہوسکی۔ اصفہان یار بھنڈارا کہتے ہیں کہ یہ تقریر پاکستان کی اقلیتوں کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
’قائد اعظم نے اس تقریر میں پاکستانیت پر زور رکھا ہے اور بتایا کہ لوگ اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں اور کسی کے مذہب سے ریاست کو کوئی سروکار نہیں ہوگا۔‘
اصفہان یار کہتے ہیں کہ انھیں افسوس ہے کہ ان کے والد 11 اگست کی تقریر کو آئین اور نصاب کا حصہ نہیں بنوا سکے۔ کیونکہ ان کے والد کی جماعت مسلم لیگ ق کے اندر بھی اس معاملے پر اختلافات تھے اور اگر یہ پرویز مشرف کہ اعتدال پسند روشن خیالی کے دور میں ممکن نہیں ہوسکا تو آج کے پاکستان میں ایسا ہونا تقریباً ناممکن ہے۔
بی بی سی نے سنہ2015 ء میں ایک رپورٹ نشر کی اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رہنے والے ہندو مذہبی آزادی نہ ملنے کی وجہ سے پاکستان سے ہجرت کرکے بھارت جارہے ہیں اور اب تک تقریبا 1400 خاندان سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرواچکے ہیں۔ اگرچہ پاکستانی حکام نے اس کی تردید کی لیکن اس رپورٹ میں کہیں نہ کہیں کوئی کچھ نہ کچھ حقیقت تھی۔2016 ء میں ٖفرح ناز اصفہانی کی کتاب
Purifying the Land of the Pure: Pakistan146s religious minorities

میں پاکستان میں غیر مسلموں کے مسائل سے جڑے سوالات کے جوابات کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
اس کتاب سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ سب ایک دم سے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے کے بعد شروع نہیں ہوا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے ملک میں اسلامی قوانین رائج کئے اور ان کی حکومت کا فرقہ وارانہ اور جہادی گروپوں کے قیام اور ان کی حمایت میں کردار ضرور رہا لیکن اقلیت مخالف سخت گیر رویہ بہت پہلے شروع ہو چکا تھا، اس عمل کی تاریخ کے کئی اہم موڑ تھے۔
فرح ناز اصفہانی کی تاریخی تحقیق پر مبنی یہ کتاب، آپ کو کسی مبالغے یا غیر متوازن جذباتیت کے صحرا میں لے جانے کے، واقعاتی اقلیتوں اور کمزور پاکستانی گروہوں کے سلسلے میں واقعاتی تاریخ کے موجود آنگن میں لے جاتی ہے جس میں آپ کچھ دیر کے لئے پُر سکوں قیام کر کے پاکستان میں اقلیتوں اور کمزور گروہوں کے المیے کی قریب قریب 71برس پر مشتمل سچائی کی قلب مطمئنہ کے ساتھ تصدیق کر سکتے ہیں۔
یہ کتاب، سات ابواب میں منقسم ہے ،اس کتاب کے مطابق پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے نتیجے میں پاکستان کے اندرونی اور بیرونی ملک امیج کو ایک دھچکا لگاہے، سرکاری طور پر ذرائع ابلاغ اور ریاستی زیر انتظام نصاب نے نہ صرف جہادیوں کی فصل کے بعد نہ صرف فصل پیدا کی ہے بلکہ عام پاکستانیوں کی کم از کم دو نسلوں کے زہن کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ وہ ان جہادیوں کے نہ صرف دوسر ے ممالک میں ہونے والے حملوں کو درست سمجھتے ہیں بلکہ اندرون ممالک ان کے غیر مسلم گروہوں پر ہونے والے تشدد کی بھی حمایت کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس صورتحال سے نکلا کیسے جائے ۔؟

 کیا ہم پاکستان کی  آبادی کے ایک حصے کہ نظر انداز کرکے آگے بڑھ سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنے ہندو،مسیحی ،بودھ مت یا سکھ مزہب کے ماننے والے ساتھیوں کو چھوڑ کر پاکستان کو ترقی کے راستے پر گامزن کر سکتے ہیں۔ ؟ اگر نہیں تو پھر پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے لازم ہے کہ جناح کے نظریات پر عمل کیا جائے۔ہمیں پاکستان میں غیرمسلموں سے متعلق قوانین میں تبدیلی لانا ہوگی، ۔ پاکستان میں عیسائیوں،ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ تعصبانہ رویوں پر مشتمل تعلیمی نصاب میں تبدیلی لانا ہوگی ،سوچ کو بدلناہوگا پھر ہی آگے بڑھنا ہوگا۔

منزل مشکل ضرور ہے ، ناممکن نہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...