ہم سب مذہبی ہیں

778

ہم سب بنیادی طور پر مذہبی ہیں ۔ پیدائش کے بعد کانوں میں اذان سے لے کر نماز جنازہ تک ہماری زندگی مذہب کے سائے میں گزرتی ہے۔ گھر میں، بچپن سے لے کر جوانی تک والدین اور بزرگوں کی تعلیم و تلقین مذہب کی تعلیم و ہدایت کی روشنی میں ہوتی ہے۔ ہم جب ہوش سنبھالتے ہیں، ہمیں مسجد میں نماز اور قرآن کی تعلیم کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ ہم جوان اور بالغ ہوتے ہیں، پنج وقت نماز مسجد میں ادا کریں یا نہ کریں لیکن جمعہ اور عیدین کی نماز مسجد میں ادا کرتے ہیں۔ نکاح ،طلاق ،حقوق ودیگر ذمہ داریاں   ہم مذہب کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔الغرض مذہب اور مذہب کی تعلیم دینے والوں سے ہماری ایک وابستگی پیدا ہو جاتی ہے اور یہ وابستگی مرتے دم تک قائم رہتی ہے۔

مذہب میں Clergy کا تصور بہت بعد میں پیدا ہوا ،آغازِ مذہب یا مذاہب میں اس کا تصور کبھی نہ تھا کہ کسی خاص طبقے کا حق ہے کہ وہ مذہب کی جو تشریح کرے گا، بس وہی آخرت میں قبول کی جائے گی یا اعمالِ مذہب کی قبولیت کے لیے شرط یہ ہو کہ جب تک خدا اور بندے کے درمیان کوئی مخصوص بندہ نہ ہو تو عمل قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کرپائے گا۔ کم از کم اسلام میں ہرگز ایسا نہیں ہے کہ آپ کو اذان سے لے کرنمازِ جنازہ تک کسی مخصوص طبقے میں سے کسی فرد کی ضرورت ہو تاکہ اذان و جنازہ قبول ہو۔ نکاح ہو یا عقیقہ، تدفین ہو یا تکفین خوشی ہو یا غمی کسی بھی معاملے میں اپنے اعمال کی قبولیت کے لئے آپ کسی کے محتاج ہوں، ایسا نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ آپ اپنا نکاح خود بھی پڑھا سکتے ہیں لیکن قانونی کارروائی کیلئے دو گواہوں کا ہونا لازمی ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں ہم مذہبی ہیں۔

بنیادی طور پر مذہبی اورغیر مذہبی تفریق غلط ہے مثلا نماز کا وقت ہوا تو مصلی امامت پہ کوئی بھی مسلمان کھڑا ہوسکتاہے اور امامت کرا سکتا ہے۔ کوئی فوت ہوا تو اس کیلئے دعا کوئی بھی کرا سکتا ہے۔ خطبہ نکاح کوئی بھی پڑھ سکتا ہے۔ ائمہ وفقہائے کرام مساجد و مدارس کے روایتی عالم نہیں تھے۔ انہوں نے کبھی عالم وفقیہ ہونے کا دعوی بھی نہیں کیا تھا۔ قرآن و سنت سے انہوں نے جو سمجھااسے ایک طالب علمانہ رائے کہہ کر پیش کر دیا۔ اسلاف علما موجودہ مذہبی تصور کے معیار پہ پورا نہیں اترتے حالانکہ ان جیسامذہب کا علم رکھنے والا آج کے دور میں کوئی نہیں ہے۔

ہمارے ہاں یہ فرق اس لیے پیدا ہوا کہ ہم نے مسلم معاشرے میں رہ کر ان رسوم و عبادات کی ادائیگی اور Lead کرنے کو جدت پسندی اور تعلیم یافتہ ہونے کے خلاف سمجھ لیا جب کہ بحیثیت مسلمان ان کے بجا لانے میں کسی قسم کی شرم محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ایک اعلیٰ کاروباری شخصیت کے والدفوت ہوئے اور چند سالوں بعد والدہ فوت ہوئیں۔ تو مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ان کے ایک صاحبزادے نے جنازہ پڑھایا، دوسرے صاحبزادے نے قل خوانی میں دعا کرائی جبکہ دونوں بچے یورپ سے اعلی تعلیم حاصل کر کے آئے تھے۔ اسی جنازے میں شریک بہت سے مذہبی رہنماؤں اور علمائے کرام نے ان کے پیچھے نماز جنازہ ادا کی۔ مساجد کا نظام کلی طور پر ریاست کے سپرد ہوتا ہے۔ ریاست ہی آئمہ و خطبا کی تقرری کرتی اور انہیں حالات و ماحول کے مطابق موضوعات دیتی اور راہنمائی کرتی ہے۔ اس لیے کہ نظام ہمیشہ معاشرے کے مفاد میں قائم کیا جاتا ہے تاکہ لوگ اس سے مستفید ہوں، اس کا تعلق آپ کی ضرورت اور ثقافت سے ہوتا ہے ورنہ مذہب ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کرتا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...