فہمیدہ کی بات کرتے ہیں

1,249

سرمایہ داروں کے ذہن میں جب عورتوں کو مقابلہ حسن میں سجا کر ایک پروڈکٹ کی طرح متعارف کرانے کے خیال نے انگڑائی بھری تو فہمیدہ کے قلم نے اس سوچ کو اپنے چند الفاظ میں برہنہ کر کے دیوار پر دے مارا تھا ۔

کولہوں میں بھنور جو ہیں تو کیا ہے

سر میں بھی ہے جستجو کا جوہر

تھا پارۂ دل بھی زیر پستاں

لیکن مرا مول ہے جو ان پر

گھبرا کے نہ یوں گریز پا ہو

پیمائش میری ختم ہو جب

اپنا بھی کوئی عضو ناپو

 

وہ کسی اندر داخل ہو کر چھاپہ مارتی اور اس کی غلاظت کو باہر نکال کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دیتی تھی ۔ لوگ تنگ تھے ۔ کلاہ و جبہ و دستار سے لیکر ایک آمر عیار تک ، اس کی ” آواز” ہلچل مچائے رکھتی تھی جس کی وہ ایڈیٹر تھی ۔

وہ خوشبو کا ایک جھونکا تھا جس نے بہتر برس اس مٹی کے آنگن کو اپنے وجود سے معطر کیے رکھا ۔ اس نے زمانے کے ساتھ چلنے کے بجائے ، زمانے کو اپنے ساتھ چلنے کا سبق سکھایا کہ زمانہ استاد نہیں ، ہم زمانے کے بھی استاد ہیں ۔ آمریت کی تپتی دوپہر میں اس کا احتجاج کرتا وجود کھڑا ہو جاتا ۔ وہ لفظ کیا لکھتی تھی ، اپنے احساس کو زینت قرطاس بناتی تو کسی کے لیے چبانا مشکل ہوجاتا تو کسی کے لیے نگلنا ناممکن ہو جاتا تھا ۔ وہ اپنے گرد وپیش پھیلی ہوئی تلخیوں کو الفاظ میں پرونے کا ہنر جانتی تھی ۔ اسی لیے اسے قبول کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا لیکن اس نے گلیوں میں آوازیں لگا کر اپنی فکر کو فروخت کرنے والے پستہ قامت بونوں پر کبھی توجہ ہی نہیں دی ۔ اس کا اپنا سفر تھا جو اسے ہی کاٹنا تھا ۔

تزئین لب و گیسو کیسی، پندار کا شیشہ ٹوٹ گیا

تھی جس کے لیے سب آرائش ، اس نے تو ہمیں دیکھا بھی نہیں

اس نے قافیے اور ردیف کی شاعری کرنے کی  بجائے خیال کو تلفظ سے ادا کرنے پر زور دیا ۔ غزل کی بجائے نظم کے میدان کا انتخاب بھی اسی وجہ سے کیا کہ وہ صنف نازک کی اداؤں پر بات کرنے کی بجائے معاشرے میں خاتون کے مسائل پر بات کرنا چاہتی تھی ۔ لوگ شاید اسے فنی میدان میں اپنے اپنے ترازو لیکر تولنا چاہتے تھے لیکن اس کا سفر اور بہاؤ ہی کچھ اور تھا ۔ اس نے کبھی ان کی جانب اتنی توجہ بھی نہیں دی ۔ بدن دریدہ اور پتھر کی زبان شائع ہوئیں تو کچھ لوگ نسائیت کو اس نئے رنگ و آہنگ سے بیان کرنے پر چونکے تو فہمیدہ نے کہا

جب جاں سے گزرنا ہی ٹہرا تو سر جھکا کر کیوں جائیں

کیوں نہ اس مقتل کو رزم گاہ بنا دیں۔

آخری سانس تک جنگ کریں،

سو میں نے بھی اپنی گردن جُھکی ہوئی نہیں پائی،

میری نظمیں جو آپ کے سامنے ہیں،

ایک رجز ہیں،

جسے بلند آواز سے پڑھتی ہوئی میں اپنے مقتل سے گزری،

اس لحاظ سے ’بدن دریدہ‘ ایک رزمیہ ہے۔

اسے پڑھ کر اگر لوگ چونکے تو کیا برا ہوا۔

کہتے ہیں فہمیدہ بڑی بہادر تھیں ، ہم نے تو نہیں دیکھا ، شاید ہم انہیں کوتاہ قامتی کی وجہ سے کبھی پورا دیکھ بھی نہ سکیں لیکن جتنا دیکھا ، اس کا خلاصہ فقط یہ ہے کہ فہمیدہ نے اپنا قلم کبھی کسی وردی یا شیروانی والے کی دہلیز پر نہیں رکھا ۔

آمنہ مفتی نے خوب لکھا کہ “وہ مناظر جو عام نظر سے پوشیدہ تھے مگر اس کی سیاہ آنکھ کی پتلی انہیں پردوں میں بھی بھانپ لیا کرتی تھی۔ وہ انسانوں کے باطن سے اٹھتی اس سڑاند کو سونگھ لیا کرتی تھی جسے چھپانے کو سرزمین حجاز کی تمام خوشبوئیں بھی ناکافی تھیں۔ اس کی حد سے بڑھی ہوئی بصارت خون کے ان دھبوں کو بھانپ لیا کرتی تھی جو آستینوں پہ سوکھ کے کتھے کے سے بھورے داغ بن جاتے ہیں ۔ ان صلاحیتوں کا فرد ، منافقوں کے معاشرے میں کب قبول کیا جا تا ہے؟ اس کے لفظوں کی طاقت ،اس کی نظموں کا آہنگ، اس کے لہجے کی تپک سہی نہ گئی۔”

فہمیدہ اپنا دل جلا کر رخصت ہو گئیں لیکن بیج زمین میں جاکر نیا جنم لیتا ہے ۔ سورج کہیں غروب ہوتا ہے تو کہیں جاکر طلوع بھی تو ہوتا ہے ۔ چاند کب اپنی روشنی بکھیرنے سے باز آتا ہے ۔ فہمیدہ کا وقت ہے ۔ان کے ساتھ باتیں کیا کرتے تھے ۔ ان سےباتیں کرتے رہا کریں گے ۔

اے دوست پرانے پہچانے

ہم کتنی مدت بعد ملے

اور کتنی صدیوں بعد ملی

یہ ایک نگاہ مہروسخا

بیٹھو تو ذرا

بتلاؤ تو کیا

یہ سچ ہے میرے تعاقب میں

پھرتا ہے ہجوم سنگ زناں؟

کیا نیل بہت ہیں چہرے پر؟

کیا کاسۂ سر ہے خون سے تر؟

پیوند قبادشنام بہت

پیوست جگر الزام بہت

یہ نظر کرم کیوں ہے پرنم؟

جب نکلے کوئے ملامت میں

ایک غوغا تو ہم نے بھی سنا

طفلاں کی تو کچھ تقصیر نہ تھی

ہم آپ ہی تھے یوں خود رفتہ

مدہوشی نے مہلت ہی نہ دی

ہم مڑ کے نظارہ کر لیتے

بچنے کی تو صورت خیر نہ تھی

درماں کا ہی چارہ کر لیتے

پل بھر بھی ہمارے کار جنوں

غفلت جو گوارہ کر لیتے

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...