ڈیم کی راہ میں حائل روکاوٹیں

نشمیا سکھیرا

941

نشیما سکھیرا نیویارک میں رہتی ہیں اور کولمبیا یونیورسٹی سے صحافت میں فارغ التحصیل ہیں ۔پاکستان میں پانی کے مسئلے کے تناظر میں دیامر بھاشا ڈیم آج کل ہر فورم پر موضوعِ بحث ہے ۔نشیما سکھیرا نے اس پس منظر میں ایک نیا بیانیہ متعارف کرایا ہے کہ پاکستان کو پانی کی کمی کا نہیں بلکہ پانی کے بہتر انتظام کا مسئلہ درپیش ہے اس حوالے سے دیامر بھاشا ڈیم کتنا کارآمد ہو سکتا ہے اور ا س کی تعمیر اور سود مندی کے اہداف پر عمل درآمد کتنا حقیقی ہے ۔یہ مضمون ڈان کے شکریئے کے ساتھ قارئینِ تجزیات کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ بھاشا دیامیر ڈیم کا تصور پاکستان میں پانی کے مسئلے کا معجزاتی حل تصور کیا جا رہا ہے تاہم ماہرین کی رائے میں اگر ہماری قوم نے پانی کے انتظام، ذخیرے اور اس کے ضیاع سے بچاؤ کا کوئی مستقل حل تلاش نہ کیا تو شائد ہمارے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ مدیر

میڈیا میں سال 2016 میں شائع ہونے والی اس خبر کو کہ پاکستان سال 2025 تک خشک سالی کاشکار ہوجائے گا اور اسے پانی کی شدید کمی لاحق ہوگی، بہت توجہ دی گئی۔ بہت سی عالمی اور مقامی رپورٹس اس کے بارے میں شائع ہوئیں۔ جہاں یہ بیان کیا گیا کہ پاکستان جیسا ملک جو کہ پہلے ہی توانائی کے بڑے بحران کا سامنا کررہا ہے وہ پانی کے مسئلے سے کس طرح نمٹے گا۔ یہ رپورٹ کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسسز ( پی سی ڈبلیو آر ) نے شائع کی تھی جو کہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کا حصہ ہے۔ وزارت کے ایک اہلکار نے سال 2016 میں میڈیا کو بتایا کہ اگر اعلیٰ حکام نے اس مسئلے پر توجہ نہ دی اور پی سی آر ڈبلیو آر کے لئے اس مسئلے کے حل تجویز کرنے کی خاطر ریسرچ کے لئے فنڈز مختص نہ کئے گئے تو پا کستان میں پانی کی شدید کمی کا خطرہ سامنے آئے گا۔
4 جون 2018 کو پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کالاباغ ڈیم کے متعلق ایک 20 سالہ پرانی پٹیشن کی سماعت کے دوران اس امر کا نوٹس لیا کہ پاکستان میں گزشتہ 48 سال کے دوران کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں ہوا۔ جولائی 2018 میں چیف جسٹس نے حکم دیا کہ پاکستان کو لاحق پانی کی کمی کے شدید خطرے کے تدارک کے لئے بھاشا دیا میر اور مہمند ڈیم فی الفور تعمیر کئے جائیں۔ انہوں نے اس مقصد کے اندرون ملک اور بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ اس کے لئے فراخ دلی سے چندہ دیں اور اس مقصد کے لئے ان کی نگرانی میں چیف جسٹس فنڈ برائے تعمیر ڈیم کا آغاز کیا گیا۔ فلاح عامہ کے اس منصوبے کے پیش نظر اس فنڈ کے عطیات کی اپیل عام کرنے کے لئے وزارت اطلاعات و نشریات نے ملک بھر میں الیکٹرانک اور پر نٹ میڈیا کو بلامعاوضہ اشتہاری مہم چلانے کا حکم دیا۔ 7 ستمبر کو وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے قوم سے مختصر خطاب کیا جس میں انہوں نے ڈیم کی تعمیر پر زور دیتے ہوئے تمام بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اس کی تعمیر کے لئے ایک ایک ہزار ڈالر پاکستان بھجوانے کی درخواست کی۔
اگرچہ بھاشا دیامیر ڈیم کی تعمیر کو پاکستان میں پانی کے مسئلے کے حل کے لئے ایک معجزاتی مقام دے دیا گیا ہے تاہم ماہرین کی رائے کے مطابق یہ مسئلہ اس قدر آسانی سے حل ہونے والا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ قومی سطح پر ہمارے رویئے کا ہے۔اگر ہم نے پانی کے انتظام اور ذخیرے کی اہمیت اور اس کے ضیاع سے پیدا ہونے والے خطرات کے متعلق عوام میں شعور اجاگر نہ کیا تو ہمارے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔
’’سب سے پہلے سب سے پہلی چیز یعنی پی سی آر ڈبلیو آر کی اس رپورٹ کا تنقیدی جائزہ لینا ہوگا جس میں یہ کہا گیا کہ پاکستان میں سال 2025 میں خشک سالی ہوچکی ہوگی ‘‘۔ اسٹیفورڈ یونیوسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف ارتھ سسٹم سائنس میں پوسٹ ڈاکٹورل اسکالر ڈاکٹر حسن فرقان خان نے بیان دیا اور مزید کہا کہ تما م سائنسی تحقیقات عام ہونے سے پہلے نظر ثانی کے مراحل سے گزرتی ہیں اور پھرانہیں حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ تاہم پی سی آر ڈبلیو آر کی رپورٹ اس مرحلے سے نہیں گزری۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ رپورٹ دریائے سندھ کے بہاؤ سے متعلق تمام پہلے شائع شدہ رپورٹس کے منافی نتائج دیتی ہے۔ ڈاکٹر خان، جو کہ لیڈ پاکستان میں وزٹنگ اسکالر بھی ہیں کا کہ یہ رپورٹ ابھی تک عوام کے لئے نہیں کھولی گئی تاہم اس پر میڈیا کی توجہ پہلے ہی سے آچکی ہے۔ پاکستان سال 2025 تک خشک سالی کا شکار نہیں ہورہا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں آئندہ 30 سے 40 سالوں کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب گلیشیئر کے پگھلاؤ سے پانی کی مقدار میں بڑا اضافہ متوقع ہے۔
رافع عالم، جو کہ ایک وکیل اور ماحولیات کے موضوع پر سرگرم کارکن ہیں، وہ ڈاکٹر خان کی بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ رافع کا کہنا تھا کہ جہاں تک مجھے ماحولیاتی تبدیلیوں کا علم ہے یا مجھے ماحولیات کے متعلق اندازہ ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارے گلیشئرز پگھل رہے ہیں اور ہمارے ہاں پانی کی مقدار میں اضافہ ہوا ہے تاہم گلیشئرز محض پانی تو نہیں ہیں ان میں پتھر اور چٹانیں بھی ہیں تو ان کے پگھلنے سے پانی کے ساتھ گارا بھی نیچے آرہا ہے۔ اور چونکہ دریائے سندھ پہلے ہی بہت گارا زدہ ہوچکا ہے لہٰذا ہم کوئی بھی نیا ڈیم تعمیر کریں تو اس کی زندگی اور تحفظ کوخطرات لاحق رہیں گے۔ وزارت پانی و بجلی کے ایک عہدیدار کے مطابق بھاشا دیامیر ڈیم کی کل مالیت 1400 ارب روپے ہے۔ اس وزارت کے ایک اور اہلکار کے مطابق ڈیم کے لئے جگہ اور وہاں موجود آبادی کی نقل مکانی و تعمیر نو کے لئے 101 ارب روپے، ڈیم کی تعمیر کے لئے 471 ارب روپے جبکہ پاور ہاؤس کی تعمیر کے لئے 751 ارب روپے خرچ ہوں گے تاہم یہ خیال کیا جارہا ہے کہ حکومت کے پاس عوام کی امداد سے 30 سے 40 ارب روپے جمع ہوجائیں تو سال 2019 میں اس منصوبے پر کام شروع کردیا جائے گا۔ اس سے پہلے پاکستان میں تعمیر شدہ منگلا اور تربیلا ڈیم کو ورلڈ بنک نے سرمایہ دیا تھا تاہم اس ادارے نے بھاشا دیامیر ڈیم کی تعمیر کے لئے رقم دینے سے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ یہ ڈیم متنازعہ علاقے گلگت بلتستان کی حدود میں آتا ہے۔
ترقیاتی ماہر معیشت ڈاکٹر سحر اسد کے مطابق دنیا بھر کی تحقیقات کے نتیجے میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ بڑے ڈیم کی تعمیر میں وقت اور اخراجات کے تخمینے درست ثابت نہیں ہوتے۔ اس ڈیم کے لئے عوام سے چندہ مانگنا بذات خود ایک مسئلہ ہے۔ ڈاکٹر سحر جو کہ لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسسز میں واٹر اکانومی کی استاد بھی ہیں، مزید بیان کرتی ہیں کہ دنیا بھر میں تعمیر ہونے والے ڈیمز کی تحقیقاتی رپورٹس پڑھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی تعمیر کے لئے لگائی گئی تخمینہ رقم میں 95 فیصد تک مزید اضافہ ہوگیا۔ یہ محض ایک اوسطاََاندازہ ہے کیونکہ دنیا بھر میں بڑے میگا پروجیکٹس جب اپنی تعمیر کے مرحلے پر آتے ہیں تو ان کے لئے اندازہ لگائی گئی رقم میں 300 سے 500 فیصد تک بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ آپ اسی امر سے اس منصوبے میں غیر یقینیت کا اندازہ لگائیں کہ جب حکومت اور اس کے منصوبہ سازوں کو فی الفور اس پراجیکٹ کے لئے مختص رقم میں دوگنا یا تین گنا اضافہ کرنا پڑے گا تو کیا صورتحال ہوگی ؟
وہ مزید بتاتی ہیں کہ اعداد و شمار کے مطابق ہر دس میں سے آٹھ بڑے ڈیموں کی تعمیر کے دوران انہوں نے اپنے مقررہ وقتِ تکمیل سے زیادہ وقت لیا۔یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ جیسے جیسے ڈیم کی تعمیر کے لئے وقت زیادہ لگتا ہے ویسے اس کے ساتھ اس کے طے شدہ اخراجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ڈیم کی تعمیر میں اوسطاََ44 فیصد تک مدت تکمیل میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اخراجات و فوائد کے ممکنہ اندازوں میں تبدیلی واقع ہوتی ہے ۔وہ بتاتی ہیں کہ ایسے واقعات بھی ہیں جہاں تعمیر سے پہلے اخراجات و فوائد کی نسبت ایک اور چار کی تھی۔ یعنی ایک حصہ خرچ اور چار حصے فائدہ، تاہم جب تعمیرمکمل ہوئی تو یہ تناسب الٹ گیا۔ کیونکہ اخراجات میں اضافہ ہونا امکان ہے فوائد تو وہی رہتے ہیں جن کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس لئے چندہ کی رقم سے کوئی سہولت تعمیر کرنا اسی سورت فائدہ مند ہوتا جب آپ کو ٹارگٹ اور فوائد و اخراجات کا یقینی اندازہ ہو۔ بھاشا دیامر ڈیم منصوبے کی تعمیر یقیناََ اس سے مختلف صورتحال ہے۔
عمران خان نے اپنی تقریر کے دوران ایک ترقی پذیر ملک ایتھوپیا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس ملک کی عوام نے ڈیم کی تعمیر میں خود پیسہ لگایا۔ ایتھوپیا میں تعمیر ہونے والے والے عظیم نشاۃثانیہ ڈیم کے لئے سرکاری ملازمین نے اپنی تنخواہیں مختص کی تھیں اور انہوں نے تنخواہوں کی رقم سے کٹوتیاں سرکاری بونڈز خرید کر برداشت کی تھیں۔ تاہم اس ڈیم کی تعمیر کے لئے 4 ارب ڈالر خرچ ہوئے تھے جبکہ بھاشا دیامیر ڈیم کے لئے اخراجات کا اندازہ 14 ارب ڈالر سے زائد ہے۔
ڈاکٹر خان کہتے ہیں کہ ایتھوپیا میں ڈیم کی تعمیر تکنیکی لحاظ سے بھی آسان تھی۔ وہاں اس ڈیم کی تعمیر سے ایتھوپیا کا زرعی شعبہ بھی کامیابی سے ہمکنار ہونا تھا۔ اس لئے وہاں ڈیم کی تعمیر کے لئے ایک قومی جذبہ اور ملکی ضرورت کا خیال تھا۔ تاہم دنیا کے جس خطے میں بھاشا دیامیر ڈیم تعمیر کیا جانا ہے وہاں زلزلے جیسی قدرتی آفات کا خطرہ زیادہ ہے۔ لہٰذا ماہرین اس کی تعمیر کے زیادہ حامی نہیں ہیں۔
ڈاکٹر خان یہ کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیئے تھا کہ ڈیم کی تعمیر سے پہلے واٹر منیجمنٹ بہتر بنانے کا منصوبہ شروع کرتی تاکہ اسے 1400 ارب روپے کے اخراجات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
پاکستان میں شائع ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں پانی کا 95 فیصد استعمال زرعی شعبے میں ہوتا ہے لہٰذا اس شعبے میں ایسی اصلاحات متعارف کروانے کی ضرورت ہے کہ وہاں پانی کا ضیاع نہ ہو۔
حکومت کو چاہیئے کہ وہ صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم کا مسئلہ درست طریقے سے حل کرے کیونکہ یہ ملک میں مستقل تنازعہ ہے اور اس کے سبب پانی کی قیمتوں کا تعین بھی مشکلات کا شکار رہتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں زرعی استعمال کے لئے پانی کی قیمت طے کرنے کا کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ آپ ڈیم کی تعمیر کے دوران بھی ان مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ نے ڈیم تعمیر کرلیا اور ان مسائل کو حل نہ کیا تو ڈیم کی تعمیر سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
ڈیم کا مقصد پانی کا ذخیرہ کرنا اور انتظام کرنا ہے، اس کی وہی مثال ہے جو ٹریفک کے لئے انڈر پاس اور اوور پاس کی ہوتی ہے۔ ان کی مدد سے ٹریفک کا نظام بہتر کیا جاتا ہے۔ مگر یہ لازمی نہیں کہ ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے انہیں ہی تعمیر کیا جائے۔ پانی بھی اسی طرح ہے ہمارے لئے ہمارے موجودہ پانیوں کا نظام بہتر کرنے کے اور بھی بہت سے طریقہ کار موجود ہیں۔ ڈیم بھی ان میں سے ایک ہے تاہم ہمیں دیگر ذرائع کو بھی بروئے کار لانا ہوگا۔
اندازے کے مطابق ابھی تک ڈیم فنڈ میں 3 ارب روپے جمع کئے جا چکے ہیں اور ابھی تک حکومت نے اعلان نہیں کیا کہ اس فنڈ کو کہاں روک دیا جائے گا۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں پانی کے ذخیرے اور انتظام کے مسائل کو جلد از جلد حل کرنا ہوگا کیونکہ ہمارے ملک کے معاشی مسائل ازحد خطرناک حد تک پہنچ چکے ہیں۔ اگرچہ سیاسی طور پر پانی کی قیمت کا تعین کرنا اس کی تقسیم کا فارمولہ طے کرنا اور زراعت کے بہتر اور موثر ذرائع بروئے کار لانے کے لئے منصوبہ بندی کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے تاہم ان سب معاملات کو طے کرکے ہم بھاشا دیامیر ڈیم کی تعمیر کو آسانی سے ممکن بنا سکتے ہیں اور اس کے لئے مختص بڑے اخراجات پر قابو پا سکتے ہیں۔
مترجم شوذب عسکری

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...