ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور جہاد کا تصور

2,227

آج کی مسلم دنیا میں سب سے زیادہ موضوعِ بحث جہاد ہے ،بیرونی دنیا بھی اس تصور کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانکاری حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے کیونکہ جہادی تحریکوں نے دنیاپر اپنے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ خود عالم اسلام کے اندر اس حوالے سے مختلف فقہ کی روایات مختلف ہیں جس کی وجہ سے ابہامات پیدا ہوئے ہیں ،تاہم نامور عالم دین ڈاکٹر یوسف عبداللہ القرضاوی نے اس حوالے سے بڑی جامع تحقیق کر کے بہت سی مشکلیں حل کر دی ہیں۔وہ ممالک جہاں جہادکے نام پر شرپسندی جاری ہے وہاں ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی فکر صحت مند مکالمے کو جنم دے سکتی ہے ۔ مدیر

تمہید:
قطر میں مقیم مصری نژاد نامور عالم دین ڈاکٹر یوسف عبداللہ القرضاوی کا نام محتاجِ تعارف نہیں۔آپ علماء اسلام کی عالمی یونین (الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین) کے صدر ہیں۔ پچاس سے زیادہ کتب کے مصنف ہیں جن میں سے اکثر کتابوں کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ آپ کے چاہنے والے جدت پسندی اور روشن خیالی آپ کا خاص وصف شمار کرتے ہیں۔شیخ قرضاوی کے بعض فتاویٰ جمہور علمائے اسلام کی رائے سے مطابقت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے بسا اوقات آپ کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ نائن الیون کے بعد جس طرح دنیا بھر میں اسلامو فوبیا کا مشاہدہ کیا گیا اسی کا اثر ہے کہ شیخ قرضاوی جیسی معتدل سمجھی جانے والی شخصیت کو بھی متنازعہ بنا ددیا گیا چنانچہ بعض عرب ریاستوں نے دہشت گرد عناصر کی ایک فہرست تیار کی جس میں مولانا مودودی اور سید قطب سمیت آپ کو بھی شامل کیا گیا۔اس کے بعد سے مسلم حلقوں میں یہ تشویش پیدا ہوگئی کہ آیا واقعی علامہ قرضاوی دہشت گرد ہیں یا انہیں کسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے؟بنا بریں زیر نظر مضمون میں آپ کی شخصیت کا تعارف اور جہاد و دہشتگردی سے متعلق آپ کے مؤقف کو آپ ہی کی شہرہ آفاق تصنیف فقہ الجہاد کے ذریعہ جانچنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ آپ کی شخصیت سے متعلق پیدا ہونے والا ابہام دور ہو اور دیکھا جائے کہ دہشت گردی کی آپ کی طرف نسبت کس حد تک درست ہے؟
شیخ قرضاوی: شخصیت و تعارف
ڈاکٹر یوسف قرضاوی 9ستمبر1926ء کو مصر میں پیدا ہوئے،دس سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا اور ابتدائی تعلیم جامعہ الازھر سے الحاق شدہ سکولوں میں حاصل کرنے کے بعد قرآن و سنت کی اعلی ٰتعلیم کے حصول کیلیے جامعہ الازھر کے ہی کلیہ اصول الدین میں داخلہ لے لیا اور1973ء میں فقہ الزکوٰاۃپر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
عملی زندگی کا آغاز مسجد میں امامت و خطابت سے کیا علامہ قرضاوی مصرمیں اپنے آبائی علاقے صفط میں مذہبی مبلغ اور نکاح خوان بھی رہے ،جلد ہی جامعہ الازھر کے ادارہ ثقافت اسلامی میں ملازمت اختیار کر لی، مصر میں اپنے افکار کے فروغ میں مشکلات پیش آئیں تو آپ نے قطر کو اپنے لیے ایک بہترین فورم سمجھا اور1961ء میں قطر منتقل ہو گئے ۔وہاں پر ایک دینی ادارے کے پرنسپل کی حیثیت سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔1973ء میں قطر یونیورسٹی جوائن کر لی اور1977ء سے1990ء تک فیکلٹی آف شریعہ و علوم اسلامیہ کے ڈین کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ایک سال کے لیے عارضی طور پر الجزائر یونیوسٹی میں رہے اور 1991ء میں قطر کے سنت و سیرت ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے دوبارہ قطر لوٹ آئے۔اور الجزیرہ ٹی وی کے قیام کے بعد آپ نے خصوصی پروگرام شروع کیا جس نے قطر سمیت پوری عرب دنیا میں آپ کی شناخت کرادی۔ تاحال آپ قطر میں قیام پذیر ہیں اور علمی تصانیف اور دروس و خطبات کے ذریعے اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں۔
علمی و دینی خدمات:
پوری مسلم دنیا میں آپ کو علم و فکر اور دعوت و جہاد کا سرخیل سمجھا جاتا ہے،آپ کی علمی خدمات تمام جوانب دینیہ پر محیط ہیں۔مولانا ابوالحسن علی ندوی اپنی کتاب رسائل الاعلام میں لکھتے ہیں آپ کی تصنیفات کی خاص بات یہ ہے کہ جہاں قرآن و حدیث کی حیثیت کو مدنظر رکھا گیا ہے وہیں عصری تقاضے بھی اوجھل نہیں رہے۔اسی طرح آپ کی تصنیفات تعصب ،جمود اور افراط و تفریط سے بھی پاک ہیں اور اعتدال پسندی و فکر تازہ کی مظہر ہیں۔اسلوب نگارش ایسا سہل ممتنع کہ قاری اس میں کھو جاتا ہے۔ آپ کی تحریروں میں ایک فقیہ کی دقت نظر،مجدد کی جھلک،صاحب طرز ادیب کا بانکپن اور داعی کی تڑپ نمایاں ہے۔
آپ کی نمایاں تصنیفات درج ذیل ہیں:
اسلام میں حلال و حرام،تخریج :شیخ ناصر الدین البانی: یہ کتاب بڑے پیمانے پر مقبول و متداول ہوئی ،اور وقیع اہل علم نے اس کی توصیف و تحسین کی، ممتاز سکالر شیخ مصطفی الزرقاء نے یہاں تک کہا کہ ہر مسلم گھرانے میں اس کتاب کا ہونا ضروری ہے۔شیخ علی الطنطاوی مکہ مکرمہ میں اپنے تلامذہ کو درسا یہ کتاب پڑھاتے تھے۔پاکستان کی مختلف جامعات میں اس پر تحقیقی مقالے لکھے گئے اور متعدد زبانوں میں اس کے تراجم شائع ہوئے۔
فقہ الزکوٰۃ: یہ دو جلدوں پر محیط مسائل زکوٰۃ کا انسائیکلوپیڈیا ہے ،یہ آپ کے پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ہے جس کے بارے علم فقہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں اس موضوع پر اس سے بہتر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی، مولانا ابولاعلی مودودی نے اس کے بارے میں کہا تھا کہ اسے (چودہویں)صدی کی (سب سے اچھی) کتاب کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ نے اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کیا ہے۔
اسلام اور سیکولرزم: ستر کی دہائی میں جب اسلامی اشتراکیت کی بحثیں چل رہی تھیں تو علامہ قرضاوی نے اس پر مبسوط رد لکھا اور سیکولرزم کے دیگر نظریات سے بھی تعرض کیا،اس کتاب کا اردو ترجمہ ادارہ عالمی فکر اسلامی اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔
فتاوی ٰمعاصرہ: اس کتاب میں جابجا آپ کی فقاہت اور شریعت اسلامی پر دقت نظر جھلکتی ہے،مختلف کانفرنسوں ،علمی مجالس،اور خلیجی و افریقی ممالک سمیت عرب دنیا میں مقبول ٹی وی پروگرام ھدی الاسلام میں پوچھے گئے سوالات کے علمی و فقہی جوابات کو اس میں جمع کر دیا گیا ہے ۔ہمارے مفتیان کو بھی برصغیر کے معروف فتاوی ٰجات کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر قرضاوی جیسے عرب سکالرز کے فتاوی ٰکی طرف رجوع کر کے ان سے بھی استفادہ کرنا چاہیے۔
مذکو رہ کتابوں کے علاوہ، مسلم معاشرے میں غیرمسلموں کا مقام ،فقہ الصیام اور فقہ الجہاد بھی آپ کی اہم تصنیفات سمجھی جاتی ہیں۔
فقہ الجہاد پر ایک نظر
کسی بھی سلیم الفکر اور اعتدال پسند شخص کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ اسے مذہب پسند متجدد اور سیکولر ہونے کا طعنہ دیں جبکہ سیکولر اور لبرلز اسے انتہاپسند اور شدت پسند کہہ کر مطعون کریں۔یہی حال شیخ قرضاوی کی شخصیت کا بھی ہے، ایک طرف انہیں جدت پسند اور روشن خیال قرار دے کر ان کے مذہبی استناد کو مجروح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو دوسری جانب انہیں دہشتگردی اور شدت پسندی کے فروغ کا الزام بھی دیا جا رہا ہے۔
شیخ قرضاوی کی کتاب (فقہ الجہاد:دراستہ مقارنتہ لا حکامہ و فلسفہ فی ضو القرآن و سنتہ) اپنے موضوع پر منفرد تالیف ہے جس میں جہاد سے متعلقہ تمام پہلووں کو امت مسلمہ کے جدید مسائل کے تناظر میں بیان کیا گیا ہے، اور ایسی مسلح جد وجہد پر کڑی تنقید کی گئی ہے جس میں بے گناہوں کو نشانہ بنا کر اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کی جائے، اور ایسے نام نہاد اسلام پسندوں کی فکری کجی واضح کی گئی ہے جو ظالمانہ و بہیمانہ کارروائیوں کو قرآن و سنت کے ساتھ جوڑتے ہیں اور اسلام جیسے پرامن مذہب اور اس کے حقیقی پیروکاروں کے لیے بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔ کتاب میں شیخ قرضاوی نے بہت سے جدید پیچیدہ مسائل کو موضوع بحث بنایا ہے اور ان کے مبنی بر اعتدال شرعی و علمی حل تجویز کیے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام امن پسند مذہب ہے اور یہ نفرت اور ٹکراو کو نہیں بلکہ محبت اور مکالمے کو فروغ دیتا ہے۔
ضخیم دو جلدوں پر مشتمل یہ کتاب2009ء میں قاہرہ سے چھپی، کتاب کے دس ابواب ہیں اس کے علاوہ نو بیش قیمت ضمیمہ جات بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ذیل میں ابواب کی تفصیل دی جارہی ہے تاکہ کتاب کے تفصیلی موضوعات سے واقفیت حاصل ہو:
پہلا باب: جہاد کی حقیقت،مفہوم اور حکم
دوسرا باب: جہاد کی اقسام اور درجات
تیسرا باب: اقدامی جہاد اور دفاعی جہاد کی بحث
چوتھا باب: اسلام میں قتالی جہاد کے مقاصد
پانچواں باب:جہاد کا مقام و مرتبہ اور اسے ترک کرنے کے نقصانات
چھٹا باب: لشکر اسلام کی ذمہ داریاں،آداب اور ضوابط
ساتواں باب: لڑائی کا اختتام کیسے ہوتا ہے؟
آٹھواں باب: جنگ کے بعد کے امور
نواں باب: اسلامی حدود کے اندر قتال
دسواں باب: جہاد اور امت کے دورحاضر کے مسائل
اختتامیے میں پوری کتاب میں بیان کیے گئے بنیادی مفاہیم، فقہی اختیارات و ترجیحات ،اجتہادی استنباطات اور علمی تحقیقات کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے جو کہ تقریبا سو صفحات پر مشتمل ہے،اس آخری حصے کو شیخ قرضاوی اپنی کتاب کی تلخیص قرار دیتے ہیں۔
کتاب کی تالیف کے دوران مصنف نے متقدمین و متاخرین کی قدیم و جدید کتب کو کھنگالا اور عرق ریزی سے چھ سال کے عرصہ میں اسے مکمل کیا، آپ خود کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
میں یہ نہیں کہتا کہ میں نے موضوع کا حق ادا کر دیا ہے لیکن اس کی تالیف میں میں نے اپنی تمام تر صلاحیت لگا دی ہے،میں نے متقدمین کو بھی پڑھا اور متاخرین کو بھی،جہاد کے حامیوں کا لٹریچر بھی پڑھا اور مخالفین کا بھی،تالیف کے دوران میں نے کسی قسم کی جلدبازی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ پورے اطمینان اور تسلی کے ساتھ حامیوں اور مخالفوں کے دلائل کا جائزہ لینے کے بعد کوئی رائے اختیار کی،اس کتاب کی تالیف میں مجھے چھ سال لگے۔
اس وقیع علمی ذخیرے کے ا ستناد پر مشرق و مغرب کے اہل علم متفق ہیں، جہاں بہت سے نامور مسلم علماء نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں کتاب کے مندرجات کی تعریف کی وہیں بعض مغربی انصاف پسند مصنفین کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑا کہ اس کتاب نے ایسے مسائل بھی حل کر دیے ہیں جو صدیوں تک لاینحل رہے۔تیونس کے معروف اسلامی مفکر اور النھضہ پارٹی کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی نے اڈنبرا یونیورسٹی میں2009ء میں جہاد کے موضوع پر ہونے والے ایک سیمینار میں اسی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:
جہاد انتہاپسندوں کے ہاتھوں میں ایک آلہ تھا جس کے ذریعے وہ اپنی شدت پسندانہ کارروائیوں کو جواز دیتے تھے لیکن علامہ قرضاوی نے ان کے ہاتھ سے یہ آلہ لے لیا ہے۔۔۔ شیخ قرضاوی نے اسلام میں جہاد کے احکام پر مشتمل کتاب لکھ کر نہایت احسن کارنامہ سرانجام دیا ہے،اس کتاب میں انہوں نے جہادی احکام اور بین الاقوامی قانون سے متعلق اپنے علم،فقاہت اور تجربات کا نچوڑ پیش کر دیا ہے۔
معروف سعودی عالم دین ڈاکٹر سلمان العودہ نے کہا کہ اگر علامہ قرضاوی اس کے علاوہ کوئی اور کتاب نہ لکھتے تو بھی یہ کتاب ان کا مقام جانچنے کے لیے کافی تھی۔شیخ قرضاوی فقہ الجہاد میں دنیا بھر میں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ممالک کو جنگ بندی کر کے پر امن طریقے سے رہنے کی تلقین کرتے ہیں،آپ لکھتے ہیں:دنیا کے تمام ممالک امن،جنگ بندی، پرامن ذرائع سے مسائل کے حل اور پرامن تحریری ،سمعی اور بصری وسائل کے ذریعے دعوت و تبلیغ کے مواقع فراہم کرنے پر اتفاق رائے قائم کریں۔اقدامی جہاد کی فرضیت سے متعلق آپ اپنا نکتہ نظر یوں بیان کرتے ہیں: یہ کہنا کہ اقدامی جہاد اور دشمن پر سال میں ایک دفعہ چڑھائی کرنا اس امت پر فرض ہے اور اس پر اجماع منعقد ہو چکا ہے درست نہیں۔اس موقع پر صرف دو امور پر اجماع ہے: پہلا: یہ کہ کسی مسلم ملک میں دشمن گھس آئے تو ان پر اس سے جہاد کرنا فرض ہو جاتا ہے،اور سب پر واجب ہو جاتاہے کہ ان کی امداد کریں یہاں تک کہ دشمن شکست کھا جائے۔دوسرا: یہ کہ دشمن کو ڈرانے کے لیے لشکر تیار کیے جائیں اور ضروری عسکری طاقت اور بقدر کفایت تربیت یافتہ افرادی قوت تیار کی جائے۔
شیخ قرضاوی نے غیر مسلموں بالخصوص ذمیوں کے ساتھ سلوک،برائی کو طاقت کے ساتھ روکنے کی شرعی حیثیت،حکمرانوں کے خلاف بغاوت،ٹکراو اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے طرز عمل کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اسے خلاف شرع قرار دیا اور جن نصوص کو بنیاد بنا کر بعض انتہا پسند اپنی کارروائیوں کو جواز فراہم کرتے ہیں ان کی وضاحت کی ہے اور ابہام دور کیا ہے:
جہادی تنظیموں نے جو حکومتوں کے خلاف جہاد کا اعلان کر رکھا ہے اور جو حکومتی اہلکاروں کو قتل کر رہے ہیں اس سے دینی جماعتوں کو کوئی فائدہ نہیں ملنے والا،یہ کاروائیاں انفرادی،اجتماعی،دینی و ملی ہر اعتبار سے نقصان دہ ہیں۔انتہاپسند جماعتیں جن نصوص سے استدلال کر کے ایسا کر رہی ہیں ان کا فہم ناقص ہے،ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کرنے پر دلالت کرنے والی نصوص مطلق نہیں ہیں بلکہ ان کی کچھ حدود وقیود بھی ہیں جن کا لحاظ ضروری ہے،قدیم و جدید تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے جن سے پتا چلتا ہے کہ حکام کے خلاف مسلح بغاوت کرنے والی تحریکوں کو شاذ و نادر ہی کامیابی ملی ہے اور یہ ہمیشہ ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں،مسلح بغاوت کے نتیجے میں بدامنی اور انارکی اس امت کا مقدر بنی ہے اور اس سے فتنے ہی پھیلے ہیں۔
شیخ قرضاوی جہاد کو صرف قتال کے معنی میں ہی لینے کے عمومی تاثر کی بڑے شد ومد کے ساتھ نفی کرتے ہوئے اس کی دیگر اقسام بھی بیان کرتے ہیں اور ان پر عمل پیرا ہونے کو بھی جہاد کے فضائل کا مصداق ہی سمجھتے ہیں، اسی ضمن میں آپ جہاد کی دیگر صورتیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
جہاد کی اقسام اور اس کے درجات میں ایک قسم جہاد باللسان و البیان بھی ہے جو کہ اسلام کی طرف دعوت اور اس کا پیغام پہنچانے کے ذریعے ادا ہوتی ہے۔ جہا باللسان و البیان کی کئی اقسام ہیں میں سے ایک قسم خطبات،اسباق اور لیکچرز کے ذریعے زبانی ابلاغ کی ہے۔انہیں اقسام میں سے ایک قسم مکالمے کے ذریعے ابلاغ کی ہے،اور اسی ضمن میں یا اس کے قریب قریب وہ میڈیائی ابلاغ بھی ہے جو ڈرامے کے کرداراوں کی صورت میں تھیٹر،شو یا ٹی وی پر سلسلہ وار چلنے والی کہانی کے ذریعے ہوتا ہے۔
میں نے ابن قیم کی بیان کردہ جہاد کی اقسام پر ایک قسم سول جہاد کا اضافہ کیا ہے اور میں ہی پہلا وہ شخص ہوں جس نے یہ اصطلاح پیش کی ،اس سے میری مراد ایسا جہاد ہے جو معاشرے کی مختلف ضروریات کو پورا کرے اور اس کے متنوع مسائل سے نمٹے اور اس کی مادی ضرورتوں کو پورا کرے۔اور یہ بالعموم ایک سے زائد دائرہ کار پر مشتمل ہوتاہے: سائنسی یا ثقافتی دائرہ کار، معاشرتی دائرہ کار،اقتصادی دائرہ کار،تعلیمی یا تربیتی دائرہ کار، حفظان صحت سے متعلق یا طبی دائرہ کار،ماحولیاتی دائرہ کار اور تہذیبی دائرہ کار۔۔۔ رسول کریم ؐنے اسی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے جہاد پر بیعت کے لیے آنے والے سے فرمایا تھا کہ:کیا تیرے والدین زندہ ہیں؟اس نے جواباً کہا تھا: جی ہاں،تو آپ نے فرمایا تھا: واپس جاؤاور انہیں خوش کرنے کی کوشش کرو،یہی تمہارا جہاد ہے۔
کتاب میں مسلح امن ،ارھاب اور دہشت گردی کے موضوع پر مفصل گفتگو کی گئی ہے اور ایک مکمل باب میں اسلامی نقطہ نظر سے اس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، اختتامیے میں اس موضوع پر لکھی گئی مفصل بحث کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے علامہ قرضاوی لکھتے ہیں:
لفظ ارھاب اصل میں قرآنی لفظ ہے جو کہ دشمن کو ڈرانے کی خاطر طاقت کی تیاری کے لیے دیے گئے حکم کے سیاق میں وارد ہوا ہے تاکہ وہ مسلمانوں کو تر نوالہ بنانے کی خواہش نہ کریں اور ان پر چڑھائی کرنے کا خیال دل میں نہ لائیں۔ یہ ارھاب جائز ہے اور اسے ہمارے زمانے میں مسلح امن کہا جاتا ہے۔جبکہ آج ارھاب (دہشتگردی) کی اصطلاح سے مراد لوگوں کو ڈرانا، ان میں دہشت اور خوف پھیلانا اور انہیں امن سے محروم کرنا ہے، تاہم اصطلاح غیرمتنازع ہوتی ہے۔
ارھاب کی پانچ قسمیں ہیں جن میں سے کچھ بالاتفاق دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہیں جبکہ کچھ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔اور وہ قسمیں یہ ہیں:
۱۔ شہری دہشت گردی: شہری دہشت گردی جوکہ لوگوں کی شہری اور معاشرتی زندگی کے لیے خطرہ ثابت ہوتی ہے، اس کو جرم قرار دینے میں کسی کا اختلاف نہیں۔
۲۔ سامراجی دہشت گردی: زمین پر قبضہ جمانے، قوموں کو زیر کرنے اور ان کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھ کر سامراجی دہشت گردی کرنا۔
۳۔ ریاستی ارھاب (دہشت گردی): ریاست کا اپنے دشمنوں کا قلع قمع کرنے اور ان کا صفایا کرنے کی سعی میں اپنے شہریوں یا ان میں سے کسی گروہ کے خلاف مادی طاقت کا استعمال کر کے ریاستی خوف پھیلانا۔
۴۔ بین الاقوامی دہشت گردی: بین الاقوامی دہشت گردی جوکہ پوری دنیا کی سطح پر ہو رہی ہے اور آج امریکہ جس کا مرتکب ہو رہا ہے۔
۵۔ سیاسی دہشت گردی : حکومتوں کے خلاف محاذ آرائی کے موقع پر سیاسی دہشت گردی کرنا۔
علامہ یوسف قرضاوی کی جہاد کی حقیقت اور اس کے شرعی احکام سے متعلق شہرہ آفاق کتاب فقہ الجہاد سے ماخوذ ان کی جہادی فکر سے متعلق دیے گئے چیدہ چیدہ اقتباسات سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ان کی طرف دہشت گردی کی نسبت کرنا اورانہیں معاشرے میں انتہا پسندی کے فروغ میں ملوث ٹھہرانا سراسر ناانصافی ہے،بلکہ حقیقت یہ ہے ان کی فکر نوجوانوں کو انتہاپسندی کی طرف جانے سے روکتی ہے جس کی سب سے بڑی دلیل یہی کتاب ہے۔ پوری کتاب چیخ چیخ کر انتہاپسندی کے نقصانات بیان کررہی ہے اور مسلم جوانوں کو امن اور رواداری کا درس دے رہی ہے۔
اس لیے اسلامی دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص اسلامی فکر،جہاد،اور دہشتگردی کے موضوع پر فکری و علمی مواد تیارکرنے والے اداروں کو چاہیے ڈاکٹر قرضاوی کی فقہ الجہاد کا اردو سمیت مختلف زبانوں میں ترجمہ کروا کر شائع کریں تاکہ مسلم نوجوان اور تمام مذاہب و شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد جہاد اور دہشتگردی سے متعلق حقیقی اسلامی فکر سے روشناس ہوں، اس سے جہاں مسلم دنیا سے داخلی طور پر خارجیت اور انتہاپسندانہ سوچ کا (جس حد تک وجود ہے) خاتمہ ہو گا وہیں امن کے سب سے بڑے داعی مذہب کو باہر سے بھی کوئی ریڈیکل اسلام نہیں قرار دے سکے گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...