دریائے کابل پرڈیم۔ پاکستان ،افغانستان میں نیا تنازعہ؟

1,152

پانی انسانی زندگی کا نہایت اہم غذائی جزو ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ پانی ہی زندگی ہے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ اب تک دریافت شدہ کروڑوں سیاروں اور ستاروں میں سے ہماری زمین ہی وہ واحد سیارہ ہے جہاں زندگی پوری آب وتاب کے ساتھ رواں دواں ہے اور اس کی واحد وجہ یہاں پر پانی کا ہونا ہے۔ اگر انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ لڑائیاں پانی کے حصول کی خاطر لڑی گئی ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے۔ یہاں کی زمین زرخیز ہے اور آب و ہوا زراعت کے لیے بہت موزوں ہے، شمال سے آنے والے دریا پنجاب اور سندھ کی زمین کو زرخیز کرتے ہوئے بحیر ہ عرب میں چلے جاتے ہیں۔پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں زراعت کا حصہ 20 فی صد ہے، پاکستان کی مجموعی افرادی قوت میں سے 44 فی صد زراعت سے وابستہ ہے اور ملک کی مجموعی آبادی کا 62 فی صد حصہ دیہی علاقوں میں رہتا ہے۔ زراعت میں ملک کی معیشت کا 9 فی صد حصہ فصلوں کا ہے ۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب اور سندھ میں اگنے والی فصلیں بھارت سے آنے والے پانی کی محتاج ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کے لیے ’سندھ طاس‘ معاہدہ طے پایا تھا۔عالمی بینک کی مشاورت سے ہونے والے اس معاہدے کے تحت بھارت کو پنجاب میں بہنے والے تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کا زیادہ پانی ملے گا یعنی اُس کا ان دریاؤں پر کنٹرول زیادہ ہو گا۔ جب کہ جموں و کشمیر سے نکلنے والے مغربی دریاؤں چناب اور جہلم اور سندھ کا زیادہ پانی پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔ اگرچہ یہ معاہدہ برقرار ہے لیکن دونوں ملکوں ہی کے اس پر تحفظات رہے ہیں اور بعض اوقات اس معاہدے کو جاری رکھنے کے حوالے سے خدشات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

جس طرح سے پنجاب اور سندھ کی زراعت کا دارومدار بھارت سے آنے والے پانی پر ہے اسی طرح سے خیبر پختونخواہ کے لوگ اپنی زراعت کے لئے دریا کابل کے پانی کے محتاج ہیں۔

دریا کابل کی لمبائی تقریبا سات سو کلومیٹر ہے۔دریا کابل افغانستان کے صوبہ میں میدان وردک میں موجود ہندوکش کے پہاڑی سلسلے سے نکلتا ہے اور افغانستان کے شہروں کابل،سروبی اور جلال آباد سے ہوتا ہوا ترخم کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔
خیبر پختونخواہ میں یہ دریا پشاور، نوشہرہ اور چارسدہ کے شہروں کی زمینوں کو سیراب کرتا ہو ا اٹک کے مقام پر دریا سندھ میں مل جاتا ہے۔ افغانستان میں اس دریا پر کابل اور ننگرہار کے صوبوں پر ڈیم قائم کئے گئے ہیں۔جب کہ پاکستان نے وادی پشاور میں وارسک کے مقام پر ڈیم بنایا گیا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے ہی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ دونوں ممالک تاریخی،جغرافی،لسانی،نسلیتی اور مذہبی وابستگی رکھتے ہیں۔ سرحد کے دونوں جانب پشتون آباد ہیں جن میں رشتہ داریاں اور مل ملاپ ہوتا ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے تعلقات بہت عرصے سے کچھ زیادہ ٹھیک نہیں رہے ہیں خاص کر دو تین باتوں پر۔ پہلا یہ کہ کابل نے یہ دعوٰی کیا تھا کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے اور وہ علاقے جہاں پشتون آباد ہیں (بشمول خیبر پختونخوا،قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان کا ایک بہت بڑا حصہ) وہ افغانستان کا حصہ ہے۔ اور ان علاقوں کو افغانستان میں شامل کرنے کیلے بہت سے تحریکیں بھی افغانیوں نے چلائے جن میں پشتونستان تحریک معروف ہے۔ لیکن پاکستان نے اس بات کو بالکل مسترد کر دیا کہ ہر گز یہ علاقے پاکستان کے سوا کسی اور کے نہیں ہوسکتے،پاکستان ایک ریاست ہے جو اپنے کسی بھی حصے کو کسی اور ملک کے حوالے نہیں کرے گا، اسی بات پر افغانستان اور پاکستان کے درمیان بہت کشیدگی پیدا ہوئی خاص کر حامد کرزئی حکومت تک یہ کشیدگی تھی۔ اس کے علاوہ اس بات پر بھی کشیدگی تھی کہ افغانستان سمجھتا ہے کہ افغانستان پر جنگ مسلط کرنے میں پاکستان نے کردار ادا کیا۔ اور تیسرا اعتراض پاکستان نے کیا کہ افغانستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات پاکستان کے لیے صحیح نہیں ہیں، پاکستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت نے ہمیشہ افغان سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال کیا ہے۔

پاکستان کی طرح افغانستان بھی ایک زرعی ملک ہے۔افغانستان کی تقریبا پچاسی فی صد آبادی زراعت سے وابستہ ہے جب کہ پانی کی کمی کی وجہ سے تقریبا پندرہ فی صد رقبہ زیرکاشت ہے۔افغانستان دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ روس اور امریکا کی کشمکش اور اس علاقے میں ان کے مزموم مقاصد ہیں۔ افغانستان مسلسل جنگ کا شکار رہا ہے اور اسے معاشی ترقی کی مہلت ہی نہیں ملی۔ افغانستان کی خاصی آبادی ایران اور پاکستان کو ہجرت کر گئی تھی جن میں سے کچھ اب واپس آنا شروع ہوئے ہیں مگر ہجرت نے ان کی معیشت کو تباہ کر دیا ہے اور نئی پود کو پڑھنے لکھنے اور کوئی ہنر سیکھنے کے مواقع بھی کم ہی ملے ہیں۔ افغانستان میں جن لوگوں نے ہجرت نہیں بھی کی انھیں جنگ نے مصروف رکھا۔ مجبوراً اسلحہ کی تجارت، جنگ بطور سلسلہ روزگار اور افیم و پوست کی تجارت ہی ان کا مقدر بنی۔
اس وقت افغانستان کو پانی کی تقریبا ساٹھ فی صد کمی کا سامنا ہے۔ آبادی میں تیزی سے اضافے اور پانی کی کمی نے پورے ملک میں قحط کی سی کفیت پیدا کر دی ہے۔ کئی دہائیوں کی خانہ جنگی نے پورے ملک کے انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق کابل کی صرف دس فی صد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ پانی کے اس مسلئے کو حل کرنے کے لئے افغانستان بھارت کے ساتھ مل کر مختلف ڈیم بنانے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ ۲۰۰۱ء سے بھارت افغانستان میں انفراسٹرکچرکو بہتر بنانے کے لئے سالانہ دو ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے۔۲۰۱۶ء میں بھارت نے ہرات میں سلمہ ڈیم ببنانے میں افغانستان کی مدد کی۔اور اس سلسلے میں سترہ سو پچھتر کروڑ روپے خرچ کئے۔اس ڈیم سے بیالیس میگا واٹ بجلی حاصل ہورہی ہے اور تقریبا پچھتر ہزار ایکڑ رقبے کو زیر کاشت بنایا جا رہا ہے۔

اب اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے افغانستان بھارت کی مدد سے دریائے کابل پر شہوت ڈیم بنانے جا رہا ہے۔اس ڈیم میں ایک سوسنتالیس ملین کیوبک میٹر پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا۔جس سے کابل کی بیس لاکھ اور اردگرد کے شہروں کی ساٹھ لاکھ آبادی کو پانی میسر ہوگا۔اس کے علاوہ اس ڈیم کے اردگرد کے علاقے کے چار سو ایکڑ علاقے کو سیراب کیا جا سکے گا۔شہتوت ڈیم کو افغانستان میں روشنی کی کرن کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

افغانستان کے برعکس پاکستان میں اس ڈیم کو ایک خطرے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔پاکستان کو خدشہ ہے کہ یہ معاملہ شہوت ڈیم تک نہیں رکے گا اور اس کے اندازے کے مطابق اس ڈیم کے بعد افغانستان دریائے کابل پر مزید بارہ ہائیڈرپاور پراجیکٹ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے جس سے گیارہ سو ستتر میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی اور چار اعشاریہ سات ملین ایکڑفٹ پانی ذخیرہ ہو گا۔جس سے پاکستان میں آنے والے پانی میں بہت کمی ہوجائے گی اورخیبر پختونخواہ کے تین بڑے شہرو ں پشاور،چارسدہ اور نوشہرہ کے زرعی علاقوں کو بے حد نقصان ہوگا۔
قارئین کی معلومات کے لئے یہ بتاتے چلیں کہ اس وقت دریائے کابل کا پانی پاکستان میں وادی پشاور،شمالی وزیرستان،ٹانک کے کچھ حصوں اور ڈیرہ اسماعیل کی فصلوں کی پیداوار میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔اس کے علاوہ دریائے کابل اور اس کے معاون دریاؤں کا تقریبا بیس سے اٹھائیس ملین ایکڑپانی اٹک کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔اس وقت پاکستان نے وارسک کے مقام پر دریائے کابل پر ڈیم بنارکھاہے جس سے ڈہائی سو میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔

کچھ پاکستانی ماہرین کا خیال ہے کہ ان تمام ڈیمز کے بنانے کے پیچھے بھارتی بدنیتی ہے جو ایک منصوبے کے تحت پاکستان کو دونوں اطراف کے پانی سے یعنی ایک طرف سندھ، جہلم اور چناب کے پانی سے اور دوسری طرف دریائے کابل سے محروم کرنا چارہا ہے  تاکہ پاکستانی ٖ فصلوں کو پانی نہ ملے اور پورا ملک قحط کا شکار ہوجائے۔

اگرچہ افغانستان کی حکومت نے پاکستانی خدشات کو بے بنیاد قرار دیا ہے لیکن جس طرح سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات مدوجزر کا شکار ہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والے دنوں میں دریائے کابل کے پانی کی تقسیم کو لے کر یہ تعلقات مزید خراب ہوں۔
دریائے کابل کا پانی افغانستان اور پاکستان دونوں کے لئے ہی ضروری ہے۔ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان دریا کابل کی پانی کی تقسیم کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ سے فورا رجوع کرے تاکہ اقوام متحدہ کی ثالثی میں کوئی ایسا معاہدہ ہو جس سے دونوں ممالک دریائے کابل کے پانی کو منصفانہ طور پر استعمال کرسکیں اور علاقے میں مزید بدامنی نہ پھیلے اور لوگ بھوک اور قحط کا شکار نہ ہوں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...