میڈیا کیا دکھاتا ہے؟

870

اخبارات، ٹی وی اورسوشل میڈیا کےزریعے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا انتہائی غریب مریض نے بھارت کی وزیرخارجہ سے درخواست کی ہے کہ وہ انڈیا کا ویزا جاری کردیں تاکہ وہ علاج کراسکیں۔ اس کی وجہ پاکستان میں کوئی ایسا اسپتال نہ ہونا بتائی جاتی ہے۔ تعلیمی اداروں سے متعلق خبریں چھپتی ہیں کہ فلاں معتبر ادارے نے دنیا کی بہترین ہزار، پانچ سو یا سو یونیورسٹیز کی رینکنگ جاری کردی۔ ایسی فہرستوں میں پاکستان کی کسی یونیورسٹی کانام پڑھنے کونظریں ترس جاتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز ریسرچ، سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنا ہے۔ ایسے میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اس طرف ہماری کتنی توجہ ہے؟ یہ ابھی تک ایک معمہ ہی ہے۔ بحثیت قوم ہمارا ایمان ہے کہ پاکستان کا قیام ایک معجزہ ہے اور اب شاید ہم معجزے کےسہارے ہی اس ملک کو چلتا دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔

سابق وزیراعظم کے خلاف پانامہ ریفرنسز اختتام کے قریب ہیں۔ میرے ذہن میں یہ خیال آرہا تھا کہ جب ان مقدمات کی کوریج سے خلاصی ملے گی تو پھر ان ایشوز کی طرف ذیادہ توجہ مرکوز رکھ سکونگا جو قوم کی تقدیربدل سکتے ہیں۔ خیال یہ تھا کہ حکومت کی طرف سے چند اہم امور پر کیے جانے والے اقدامات پر رپورٹنگ کرنے کا موقع میسرآئے گا۔ عوام تک یہ معلومات پہنچا سکونگا کہ تعلیم، موسمیاتی تبدیلیوں، ہنگامی اور قدرتی آفات سے نمٹنے سے متعلق کیا اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ یہ وہ تمام اہم امور ہیں جن پرمیڈیا میں بحث ہورہی ہے اور نہ ہی حکومت اس طرف توجہ مرکوز کرنے پرآمادہ نظر آرہی ہے۔

پانامہ ریفرنسزپرنیب سمیت دیگر اداروں کو خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی تو ایسے میں اعلان کردیا گیا کہ سابق وزیراعظم کے خلاف چار مزید ریفرنسز دائر کیے جائیں گے۔ حکومتی مشیران نے نیب کو یہ کہا کہ وہ ریفرنس دائر کرے ثبوت وہ فراہم کریں گے۔ بظاہرتحریک انصاف کی حکومت بھی کچھ سیاسی بحثوں میں قوم کا الجھائے رکھنے کی پالیسی پرگامزن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ریفارمز کے زریعے اداروں کی استعداد کار کو بڑھایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے پریس کانفرسز کم اورعملی اقدامات زیادہ کرنے ہونگے یعنی باتیں کم اور کام زیادہ کرنا ہوگا۔

اس وقت اگرٹی وی اسکرینز اور اخبارات پر نظر دوڑائی جائے تو روزانہ سیاسی تنازعات، بیانات اور چند گھسے پٹے ریفرنسز کی خبر ہی چل رہی ہوتی ہے۔ حکومت کی طرح میڈیا بھی کچھ اور دکھانے کوآمادہ نظر نہیں آتا۔ اس وقت سب رینکنگ اور ریٹنگ کی دوڑ میں ہیں۔ اس دوڑ میں حکومت اور اس کا ہر ادارہ اپنا حصہ ڈالتا نظرآتا ہے۔ عام آدمی کے مسائل یعنی غریب عوام تو سرے سے ریٹنگ کے زمرے میں آتے ہی نہیں۔

عدالتوں میں عام آدمی کے حالت زار پرسب کے ساتھ میڈیا بھی خاموش تماشائی بنا ہواہے۔ سکول سے باہر ڈھائی کروڑسے زائد بچوں کو کو کیسے درس گاہوں تک پہنچایا جائے گا؟ صحت کے شعبے میں کون سی اصلاحات نافذ کی جائیں گی؟ اس پرنہ کوئی پریس کانفرس ہوتی ہے اور نہ ہی میڈیا پر یہ خبربن کر ایسا کچھ نشر ہوتا ہے۔ کچھ میڈیا ہاوسز نے 10 کے قریب مہمان بلا کر مختلف امور پر بحث کرانے کا نیا کلچر بھی شروع کیا لیکن یہ اہم ایشوزان پروگرامز کے موضوعات تک نہیں بن پاتے۔ اس غفلت میں سب کا ایک حصہ ہے، غفلت سے ملک نہیں چلتے اور مشکل یہ درپیش ہے کہ اب معجزات رونما نہیں ہوتے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...