جنگِ عظیم ختم ہوئے اب سو سال بیت چکے ہیں۔ 11نومبرجنگ کےنتائج و مضمرات اور تباہ کاریوں، اس کےخون ریز جواز اور امن و مفاہمت کی ضرورت پرغور و فکر کا دن ہے۔
یہ اکتوبر 1914 کی آخری تاریخ تھی۔ چھبیس سالہ ہندوستانی جوانِ رعنا جس نے اپنی سالگرہ اس دن سے ٹھیک دس دن قبل منائی تھی، میدانِ جنگ کی اولین صفوں میں موجودتھا ،اسی جنگ کا میدان جو بعد ازاں جنگِ عظیم اور پھر جنگِ عظیم اول کے نام سے جانی گئی۔ اسی برس مون سون موسم میں ہندوستان سے اس دور دراز اجنبی علاقے میں پہنچا دیےجانے کے بعد برطانوی فوج کے ہندوستانی بلوچ سپاہی فرانس اور بلجیئم کی سرحدوں پر بپا جاں گسل معرکے کی پہلی صفوں میں بھیج دیےگئے تھے۔
بعد ازاں اولیں معرکہِ یپریس کے نام سے مشہور ہونے والی اس لڑائی میں عجلت کے ساتھ اور بہت زیادہ تعداد میں بھیج دیے جانے والے بلوچی سپاہیوں نے جرمن فوج کے سخت حملوں کا پامردی سے مقابلہ کیا۔ دورانِ جنگ متعدد ہلاکتوں کے باوجودچھبیس سالہ خداداد خان کی زیرِ قیادت مشین گن ٹیم نے ہار نہیں مانی اور خداداد خان بذاتِ خودمسلسل گولہ باری کرتے رہے یہاں تک کہ شدید زخمی ہوگئے۔
جرمن افواج کی طرف سے موت و حیات کی کشمکش میں چھوڑ دیے جانے والے خداداد خان رینگتے ہوئے اپنی رجمنٹ پہنچے اور جاں بر ہونے میں کامیاب ہوگئے شاید اس لیے کہ اپنی آپ بیتی سنا سکیں۔ ان بلوچ سپاہیوں کے عزم و بہادری اور استقلال نےمزید کمک کے پہنچنے تک جرمن فوجوں کو پیش قدمی سے روکے رکھنے میں نمایاں کردار ادا کیااور یوں ان کی مہارت و بازی گری ایک تابندہ علامت بن گئی۔
خدادادخان کی شجاعت و بہادری کے اعتراف میں انہیں سرکار ِبرطانیہ کی طرف سے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز ، وکٹوریہ کراس سے نوازا گیا اور اس طرح وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی جنوب ایشیائی شخصیت بنے۔خداداد خان نے بیاسی برس کی طویل عمر پائی اور موجودہ پاکستان میں فوت ہوئے۔ وہ آخر دم تک بادشاہ اور ملک کے لیے جواں مردی سے لڑنے پر بجا طور پر پائے گئے اعزازکا فخریہ اظہار کرتے رہے۔
رواں برس جنگ ِ عظیم اول کے خاتمے کی صد سالہ تقریبات منعقد کی گئیں۔ 11 نومبر کو 11 بج کر 11 منٹ پر فاتح اتحادیوں بشمول ہندوستان اور مفتوح جرمنی و دیگر کے درمیان امن معاہدہ طے پایا اور اس بات پر اتفاقِ رائے عمل میں آیا کہ یہ جنگ دنیا کی آخری جنگ اوردیرپا امن کے قیام کا پیش خیمہ ہوگی۔ بدقسمتی سے محض دو عشروں بعد یہ دونوں دعوے فریب ثابت ہو چکے تھے۔
حال ہی میں دونوں جنگوں میں حصہ لینے والے جنوب ایشیائی باشندوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔دوردراز ہندوستانی گا ؤں اورقصبوں سے تعلق رکھنے والےلوگوں کی خدمات کے اعتراف پر کئی کتابیں لکھی گئیں ، کئی ایسے لوگوں کی بھرتی کاذکر سامنے آیاجنہوں نے اس سےپیش تر یورپ سے متعلق کچھ نہیں سن رکھا تھا ۔ ان سپاہیوں کو ملک و بیرون ملک ملنے والی دادِ شجاعت کا تذکرہ کیا گیا۔کالمز اور اخباری تراشوںمیں بجا طور پر اس بات کی نشاندہی کی گئی ہےکہ مغرب میں جنوب ایشیائی سپاہیوں کی خدمات کو بہت کم سراہا گیا ہے، بالخصوص جبکہ جنوب ایشیا سے لاکھوں افراد، اسلحہ اور فوجی کمک اس جنگ میں بھیجی گئی اور جنگِ عظیم دوم میں رضا کارانہ فوجی قوت کا سب سے بڑا حصہ جنوب ایشیائی باشندوں پر مشتمل تھا۔
تیس لاکھ سے زائدمسلح سپاہیوں پر مشتمل برطانوی فوج کے ہندوستانی دستے کی طاقت و قوت ہی تھی جس کا مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے محاذ پرمخالف افواج کوسامنا تھااورجس فوجی قوت میں بعد ازاں جنوب مشرقی ایشیا کے جاپانی شامل رہے۔ ہندوستانی دستوں نے یورپی محاذوں پر بھی نمایاں کردار ادا کیا اور دونوں جنگوں کے دوران یورپ میں بپا تقریباً ہر اہم معرکے میں یہ سپاہی شامل رہے۔لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ان جنگوں کے دوران جنوب ایشیائی سپاہیوں کی خدمات کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔
بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان میں سرکاری سطح پرجنگِ عظیم میں حصہ لینے والے ان لاکھوں سپاہیوں کی بہادری و جاں بازی کو تسلیم کیا جاتا ہے نہ ان کی یادمنائی جاتی ہے ، ان کی شکستہ حال یادگاریں ویران پڑی ہیں اور عوامی مباحث میں ان کو درپیش تکالیف و مصائب اور ان کی پیش کردہ قربانیوں کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔
جنوب ایشیائی ممالک کے کرنے کا دراصل کام یہ ہے کہ اپنے سپاہیوں کی شجاعت و دلیری کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی قربانیوں کو تسلیم کیا جائے۔ یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ ہم تو ان سپاہیوں کا تذکرہ تک نہ کریں اور مغرب سے یہ امید رکھیں کہ وہ ضرور بالضرور ان سپاہیوں کے کارہائے نمایاں پر انہیں خراجِ عقید ت پیش کرے۔
یقیناً ان سپاہیوں کو فراموش کردیے جانے کا تعلق جنوب ایشیائی خطے میں نوآبادیاتی مخالف تحریک سے جڑا ہے جہاں سرکارِ برطانیہ سے وفاداری کے اظہار کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی اور اس طور برطانوی سامراج سے وفا داری کے جذبات کو ابھرتی ہوئی ’ہندوستانی‘قومیت سے’ غداری یا بے وفائی‘ تعبیر کیا جاتا تھا۔چنانچہ جب ہندوستان تقسیم ہوا تو بھارت میں انگریز راج کی تمام تر یادگاروں کو مسمار کردیا گیا، یہی کچھ بعد ازاں پاکستان اور پھر بنگلہ دیش میں بھی ہوا۔آزاد جنوب ایشیائی خطے میں اس دور کی کوئی شے’ یادگار‘ نہیں تھی ماسوائے اس جور و جبر کے جو برطانوی راج نے اس سرزمین پر کیا تھا۔تاہم حالیہ یادگاری دن کو ہمیں نو آبادیاتی تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے اور موجودہ جنوبی ایشیا میں اس یادگار کو منانا چاہیے۔
اولاًیہ کھلی حقیقت ہے کہ ہم ان کی قربانیوں کواس قدر آسانی سے محض اس لیے فراموش نہیں کر سکتے کہ ہم اس وقت کے ان کے اعتقادات و نظریات سے اتفاق نہیں رکھتے۔فرانس اور بلجیئم کی سرحدوں پر لڑنے والے سپاہی کہیں اور سے نہیں ، یہیں پنجاب، وسطی ہندوستان کے چھوٹے قصبوں،بمبئے ، مدراس اور برطانوی ہندوستان کے ہر کونے ، حتیٰ کہ نوابی ریاستوں سےبھی گئے تھے۔وہ جنگ میں حصہ لینے اس لیے گئے تھے کہ ان کا یقین تھاکہ اس طرح وہ اپنے ملک اور اپنے بادشاہ کی خدمت کررہے ہیں۔حقیقت یہی ہے کہ برطانوی سرکار جائز ہے یا ناجائز، سامراجی نظام اچھا ہے یا برا، ان مسائل کے بارے میں یا تو وہ جانتے نہیں تھے یا پھر انہیں اس چیز سے کوئی سروکار نہیں تھا۔لیکن ان کا جذبہ نیک تھا اور انہوں نے اسی جذبے کے تحت سر دھڑ کی بازی لگادی تھی۔لہٰذا ہمیں ان کی قربانیوں کی تحقیر کرنی چاہیے، نہ ہی کسی نوآبادیاتی تناظر میں ان کا استہزا اڑانا چاہیے۔وہ آدمی حقیقی تھے، ان کے گھاؤ اور ان کی اموات حقیقی تھیں اور ان کی شجاعت و بہادری حقیقی تھی۔ اسی لیے ہمیں انہیں فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
ثانیاً ہمیں یہ دن اس لیے بھی منانا چاہیے کہ یہ دن جنگ کا یادگاری دن نہیں ہے۔ باوجود اس کے کہ یہ دن اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ بعض اوقات جنگ جائز اور ضروری ہوتی ہےتاہم اس کا بنیادی مقصد اس بات کی جانب توجہ دلانا ہے کہ جنگ بہرحال کسی انسانی المیے سے کم نہیں ہے جس کے سبب بنی نوع انسان پر افتاد آن پڑتی ہے، لہٰذا ہمیں بہرصورت اس سے احتراز برتنا چاہیے۔
یہ دن جنگ کےنتائج و مضمرات اور تباہ کاریوں، اس کےخون ریز جواز اور امن و مفاہمت کی ضرورت پرغور و فکر کا دن ہے۔جنگی مقتولین کا دن منانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی کسی نئی جنگ کے لیے ہلکان ہونے لگے بلکہ اس کا مقصد امن کی خواہش کی آبیاری ہے تاکہ کسی ماں کواپنا بچہ کھو دینے کا غم نصیب نہ ہو ، کسی دلہن کا سہاگ نہ اجڑے اورکوئی بچہ اپنے باپ کے سایہِ شفقت سے محروم نہ رہ جائے۔سو یہ دن امن و انصاف کی عالمگیر دہائی سے عبارت ہے۔
جنوب ایشیائی ممالک خطے میں وطن پرستی کےبڑھتے ہوئے حالیہ مسابقانہ جذبات اور جنگی جنون کے پیشِ نظر بادلِ نخواستہ سہی مگر اپنے خطے کی تاریخی حقیقتوں کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر غوروفکر کریں۔جنگِ عظیم اول و دوم کے مقتولین کے یادگاری دن کا مطلب نو آبادیاتی نظام کو جواز فراہم کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد ان جان باز سپاہیوں کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے جن کی موت و حیات اپنے کاز سے اٹوٹ وفاداری کا عنوان رہی۔
یادگاری دن منانے سے ہمیں جہاں جارحانہ طرزِ عمل سے پیچھے ہٹنے کی طرف رہنمائی ملے گی وہاں تنازعات و تصادمات کی تباہ کاریوں پر غوروفکر کا موقع بھی میسر آئےگا۔اس عمل سے امن وانصاف کی ضرورت و اہمیت جنگ کی تمام تر یادگار کا نکتہ ارتکاز بنے گی اورہمیں اپنی صلاحیتیں اس مقصد کے لیے صرف کرنے کی ترغیب ملے گی۔
جنگِ عظیم ختم ہوئے اب سو سال بیت چکے ہیں، ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ ’عظیم‘ جنگیں اب ماضی کا حصہ ہو چکی ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہم اپنے مقتولین کو کوہیما( میرے والد بھی جس معرکے کا حصہ رہے تھے)میں نصب یادگاری کتبے پر کنندہ الفاظ میں خراجِ تحسین بھی پیش کرتے ہیں ’’جب تم گھر جاؤ تو انہیں ہمارے بارے میں بتانا ، اور ان سے کہنا کہ ہم نے تمہارے کل کے لیے اپنا آج قربان کردیا ہے۔‘‘
(ترجمہ حذیفہ مسعود، بشکریہ دی نیوز)
فیس بک پر تبصرے