فنون لطیفہ ۔۔۔ سماجی تبدیلی کا موثر ذریعہ؟

1,354

اقبال کا ایک معروف شعر ہے: رنگ ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر؛ نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر

عام طور پر اس شعر کو محنت کی عظمت واضح کرنے کے لئے پیش کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں زندگی کے سارے رنگوں اور نغمگی کو خون جگر یعنی سخت محنت سے مشروط کردیا گیا ہے۔ بات تو بظاہر بالکل صحیح ہے۔ لیکن اس بات سے پہلے کی ایک بات ہے جسے اکثر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ اس میں خون جگر کا حاصل بھی رنگ اور نغمے کو بتایا گیا ہے۔ رنگ یعنی تصویر، نغمہ یعنی موسیقی۔ دوسرے لفظوں میں اگر خون جگر جلانے سے رنگ اور نغمہ حاصل نہ ہو، یعنی وہ سوز و گداز، وہ لطف و انبساط نہ ملے جو تصویر اور نغمہ سے حاصل ہوتا ہے تو سب کچھ لاحاصل ہے۔ خوبصورتی، حسن، ہم آہنگی اور ترتیب کو سراہ سکنے کی صلاحیت انسان کی حس جمالیات کی مرہون منت ہے اور اسے دوسرے حیوانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ آپ زندگی میں سب کچھ حاصل کرلیں لیکن خوبصورتی کے احساس سے عاری ہوجائیں تو سمجھیں کچھ حاصل نہیں کیا، اور کیا بھی تو اس کا کیا؟

جمالیات کی بات آئے گی تو آرٹ اور فنون لطیفہ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ انسان کی جمالیات کا بہترین اظہار فنون لطیفہ کے ذریعے ہوتا ہے۔ بلکہ فنون لطیفہ انسان کی حس جمال اور ذوق لطیف کے اظہار کا ہی نام ہے۔

عام طور پر فنون لطیفہ کی چار اقسام شمار کی جاتی ہیں۔ اول، زبان و ادب سے متعلق فنون جس میں شاعری اور دیگر ادبی اصناف سخن ناول افسانہ، رپورتاژ، کالم وغیرہ ہیں۔ دوم، پیش کاری سے متعلق فنون جن میں تھیٹر، رقص، موسیقی، ڈرامہ، فلم وغیرہ کو شامل کیا جاسکتا ہے۔ سوم، بصری فنون جس میں مصوری اور اس کی تمام اقسام، سنگ تراشی، مجسمہ سازی وغیرہ شامل ہیں۔ اور چہارم، آرائشی فنون جیسے ٹیکسٹائل (کپڑے کے ڈیزائن)، دستکاری کے نمونے، عمارتی فنون وغیرہ۔

الغرض فنون لطیفہ سے مراد وہ خوبصورت اور بامعنی تخلیقات ہیں جو انسان اپنے ہنر، فن اور تخیل کو استعمال کرتے ہوئے تخلیق کرتا ہے۔ درحقیقت فنون لطیفہ صرف اظہار ذات کا نام نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر فنی، جمالیاتی اور تہذیبی ارتقا کا اہم ذریعہ ہیں۔ جذبات، احساسات، آدرش، خواب، تمنائیں، تجزیہ، تزکیہ، مکالمہ، حسن،سکھ، دکھ، تعلق، عزم، مزاحمت، کرب، حوصلہ، جدوجہد، تخلیقیت، تنوع، ترسیل، ابلاغ یہ سب فنون لطیفہ کی مختلف جہتیں ہیں۔

آج کل ایک سوال یہ بھی اٹھایا جارہا ہے کہ کیا فنون لطیفہ سماج کی تبدیلی میں کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں؟ کیا فنون لطیفہ تخلیقی اظہار کے ذریعے صرف لطف، فرحت اور انبساط کا ہی ایک ذریعہ ہیں یا یہ انسانی شخصیت اور سماج میں کسی مثبت یا منفی تبدیلی کا بھی پیش خیمہ بنتے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں مختلف آرأ سامنے آتی ہیں۔ ایک قدامت پسند طبقہ اکثر فنون لطیفہ کو لہو لعب اور دین سے دورکردینے والے اعمال میں شمار کرتا ہے، ایک دوسرا عملیت پسند طبقہ اسے لہو و لعب اور گناہگاری میں تو شمار نہیں کرتا لیکن اکثر آرٹ کو بے کاری کا مشغلہ سمجھتا ہے جو انسان کو عمل سے روک کر خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں لے جاتا ہے۔  ایک تیسرا طبقہ فکر ہے جو اسے اعلی ترین انسانی امتیازی خوبیوں میں شمار کرتا ہے اور آرٹ یا فنون لطیفہ کے ذریعے اظہار پانے والے تخلیقی وفور کا مداح ہے لیکن سماجی تبدیلی میں اس کے کسی کردار کے بارے میں زیادہ حساس نہیں ہے، دوسرے لفظوں میں آرٹ برائے آرٹ کا قائل ہے۔

لیکن اب ایسے فنکاروں اور ان کے مداحوں کی تعداد تیزی سے بڑھ  رہی ہے جو فنون لطیفہ کو اپنی جمالیات اور تخلیقیت کے اظہار سے بڑھ کر سیاسی اور سماجی تبدیلی، لوگوں کے تصورات اور رویوں کی اصلاح اور تاریخی اور سماجی شعور کو اجاگر کرنے کا ایک بہت موثر ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ادب اور فنون لطیفہ معاشرے کا ضمیر ہیں، سماج کے رستے ناسوروں کے لئے نشتر کا درجہ رکھتے ہیں اور ہر منفی فیصلے اور عمل پر احتجاج اور مزاحمت کی ایک مستقل تاریخ کے حامل ہیں۔ ان کے نزدیک تہذیبی ترقی اور فنون لطیفہ کے ذریعے اعلی تخلیقی اظہارات ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔

فنون لطیفہ کو شائد سماجی تبدیلی کا واحد یا سب سے بڑا یا اولین ذریعہ تو نہیں کہا جاسکتا لیکن فنون لطیفہ میں کچھ ایسی خصوصیات ہیں جو اسے پیغام کی ترسیل، مثبت تنقید، سماجی اور کائناتی تفہیم اور ذہن سازی کا ایک اہم اور موثر ذریعہ ضرور بناتی ہیں۔  مثال کے طور پر آرٹ ہمیں معلوم فکر و لسان کی سرحدوں سے پرے لے جاسکتا ہے جہاں محسوسات اور ادراکات کے کچھ نئے در وا ہوتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ آرٹ ہمارے موجودہ اعتقادات کو چیلینج کرسکتا ہے، نئے آئڈیاز اور تصورات کو انگیخت کرسکتا ہے، یا کم از کم ایک تنقیدی شعور ضرور پیدا کرسکتا ہے جو کسی بھی تبدیلی کا لازمہ ہے۔ فنون لطیفہ انسانی جذبات، احساسات اور خیالات کو نئی سمت دے کر مستقبل کے  ممکنات اور متبادل تصورات پیدا کرتا ہے۔

فنون لطیفہ کے ذریعے انسان کو اظہار کے نئے سانچے میسر آتے ہیں جن کے ذریعے انفرادی تجربات مشترکہ اثاثہ بن جاتے ہیں اور بعض اوقات کسی مسئلہ کا فنکارانہ اظہار اس مسئلے کے بارے میں کسی بھی رائے کو معطل کرکے نئے سرے سے غور و فکر کا دروازہ کھولتا ہے، لیکن اس سے بھی بڑھ کر آرٹ جذباتی اور حسی طور پر انسان کو متأثر کر کے گہری تفہیم کے دروازے کھولتا ہے۔ یہ اور ایسی بہت سی اور خصوصیات ایسی ہیں جنہیں مثبت سماجی تبدیلی کے ذرائع کے طور پر شعوری انداز میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...