کم عمری کی شادی پر قانون سازی
ہما را معاشرہ جن مسائل میں افراط و تفریط کا شکار ہے ان میں سے ایک اہم مسئلہ شادی کی عمر کا بھی ہے،اگرایک طرف کچھ قبائل اور خاندانوں میں کم سنی میں بچوں کو بیاہ دینے کا رواج ہے تو دوسری طرف شادی میں تاخیر کے کیسز بھی بڑھتے جا رہے ہیں،بظاہر دو لفظوں میں ادا ہونے والے یہ سادہ سے دو مسئلے ہیں لیکن معاشرے میں آئے دن رونما ہونے والے بے شمار مسائل اور جرائم کا تعلق انہی دو مسائل سے ہے،اس لیے ضرورت ہے کہ ان پر الگ الگ بحث کی جائے اور سنجیدگی سے غور کر کے ان مسائل کا کوئی حل تلاش کیا جائے ،بصورت دیگر ان کے نتیجے میں پیش آنے والی مشکلات کا سدباب ناممکن ہے۔
پہلا مسئلہ بچیوں کی کم سنی میں شادی کروانے کا ہے ،یہ ایسا مسئلہ ہے جس کا پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کو سامنا ہے اور اسی لیے بہت سے ممالک نے اس پرقانون سازی بھی کر لی ہے لیکن مسئلہ صرف قانون سازی سے حل ہونے والا نہیں ہے تاقتیکہ ان اسباب و وجوہات کا بھی خاتمہ نہ ہو جائے جن کی کوکھ سے یہ مسئلہ جنم لیتا ہے۔
یونیسف کے مطابق کم عمری میں شادی کی سب سے زیادہ شرح عرب ممالک میں ہے اورصرف سعودی عرب میں سالانہ پانچ ہزار سولہ سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادیاں تیس سال سے زائد عمر کے مردوں کے ساتھ کر دی جاتی ہیں حالانکہ سعودی عرب کا قانون کم سے کم عمر کی حد سولہ سال مقرر کرتا ہے۔ عرب ممالک میں بھی شہروں کی بنسبت دیہاتوں میں یہ شرح زیادہ ہے،شہروں میں لڑکیوں کی تعلیم اور ملازمت وغیرہ پر توجہ دی جاتی ہے۔
مختلف ممالک میں یہ شرح مختلف ہے ،سب سے زیادہ صغر سنی کی شادیاں یمن میں ہو رہی ہیں جن کی شرح میں گزشتہ دو سالوں میں خوفناک اضافہ ہوا ہے اور ۳۲ فیصد سے بڑھ کر یہ تعداد ۶۶ فیصد تک پہنچ گئی ہے،دس سالہ کم عمر ترین طلاق یافتہ نجود علی کا تعلق بھی یمن سے ہے ۔ سوڈان میں یہ شرح ۵۲ فیصد، بھارت میں ۴۷ فیصد،موریطانیہ میں ۳۵ فیصد،فلسطین میں ۲۱ فیصد،مصر میں ۱۷ فیصد ،لبنان میں ۶ فیصدہے،جبکہ تیونس اور الجزائر میں یہ شرح نسبتا کم ہے اور وہاں دو فیصد شادیاں کم عمری میں کی جاتی ہیں۔
یونیسف کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں ۱۵ ملین خواتین کی شادی ۱۸ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی کر دی جاتی ہے جن میں ۵۰ فیصد کی عمر ۱۵ سال سے بھی کم ہوتی ہے۔۱۹۸۹ء میں بچوں کے حقوق سے متعلق پاس ہونے والے قانون کے مطابق ۱۸ سال سے کم عمر شخص بچہ ہی شمار ہو گا اس لیے بین الاقوامی قانون کے مطابق اس سے قبل شادی کرنا جرم تصور ہوگا۔کیونکہ اس کے بچیوں پر بہت سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں،ان کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے اور ان کے ناتواں کندھوں پر امور خانہ داری سمیت ایسی ذمہ داریاں پڑ جاتی ہیں جن کی وہ متحمل نہیں ہوتیں،کم عمری میں ماں بننے سے ان کی اپنی صحت پر بھی منفی اثر پڑتا ہے اور زچگی کے دوران ایسی ماوں اور ان کے نوزائدہ بچوں کی اموات واقع ہوتی ہیں،اسی طرح وہ گھریلو اور جسمانی تشدد کے ساتھ نفسیاتی بیماریوں کا بھی شکار ہو جاتی ہیں۔
اگرچہ اکثر ممالک میں اس حوالے سے قانون سازی کر دی گئی ہے اور بعض ممالک نے ۱۸،بعض نے ۱۷ اور کچھ ممالک نے ۱۶ سال کم از کم عمر مقرر کی ہے لیکن اس کے باوجود اس مسئلے پر کنٹرول نہیں ہو رہا،عرب بہار کے بعد اس کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور نکاح کی ایک نئی قسم متعارف ہوئی ہے جسے نکاح سترہ کہا جاتا ہے۔ “سترہ” کے معنی ڈھال، پناہ اور تحفظ کے ہیں، اور اس کا اطلاق شام،یمن اور لیبیا جیسے جنگ زدہ علاقوں کی مہاجر عورتوں اور بچیوں کو تحفظ اور پناہ فراہم کرنے کے نام سے کی جانے والی شادی پر ہوتا ہے۔معاشی تنگدستی ،اور عدم تحفظ نے ان مہاجرین کو عجب کرب میں مبتلا کیا ہوا ہے اور اس پر دوآتشہ یہ کہ ہوس کے بچاری ان کی اس ابتر حالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی ماؤں ،بہنوں اور بچیوں سے شادیاں رچا رہے ہیں،ستم بالائے ستم یہ ہے کہ بجائے اپنے اس کیے پر خفت اورشرمندگی کے مروت و شرافت سے عاری اس عمل کو مہاجرین کی پناہ و امداد کا نام دے رہے ہیں۔بھوک اور تنگدستی کا ستایا ہوا اور جنسی درندوں سے سہما ہوا باپ اپنی بیٹی کی آبرو کو متعدد و مختلف درندوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھنے کی بجائے نکاح سترہ کے نام پر ایک ہی ہوس کے پجاری کے سپرد کر دینے میں عافیت سمجھتا ہے ۔اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب،لبنان،ترکی اور اردن میں نکاح سترہ کی بھینٹ چڑھنے والیوں میں اکثریت میٹرک اور ایف اے کی نوعمر طالبات کی ہے۔
مختلف معاشروں میں کم عمری میں شادی کی وجوہات بھی مختلف ہیں، کہیں دین کا سہارا لے کر صغر سنی میں بچیوں کو بیاہ دیا جاتا ہے ہیں تو کہیں معاشی وجوہات کی بنا پر ،یمن میں اس کی وجہ قبائلی اور خاندانی روایات ہیں،یمنی معاشرے میں دس بارہ سال کی عمر میں شادی کرنے کو مستحسن سمجھا جاتا ہے جبکہ سوڈان میں اس کی وجہ غربت ،فقر اور قانون سے ناواقفیت ہے،جبکہ مصر میں بھی والدین جلد از جلد اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے نوعمر بچیوں کی شادی کر دیتے ہیں۔عراقی پارلیمنٹ میں ۲۰۰۳ء سے اب تک تین مرتبہ یہ تجویز پیش کی گئی کہ بچی کی شادی کے لیے عمر کی کم از کم حد ۹ سال مقرر کی جائے،عرب جریدے کے مطابق یہ مطالبہ فقہ جعفریہ کے پیروکاروں کی جانب سے ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک ۹ سال کی عمر میں لڑکی مکلف بن جاتی ہے اور اسی میں شادی کی ذمہ داریاں بھی شامل ہیں۔بہت سے معاشروں میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جلد شادی سے بچیاں ناجائز تعلقات اور جنسی زیادتیوں سے محفوظ رہتی ہیں اور اس طرح بچی اور خاندان کی عزت محفوظ رہتی ہے۔
پچھلے دو سالوں میں سعودی عرب سمیت متعدد عرب ممالک میں عورتوں سے متعلق قوانین میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں،گزشتہ برس جہاں سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دی گئی وہیں تیونس میں بھی خواتین کو ہراساں کیے جانے کے خلاف قانون سازی کی گئی۔ اردن میں یہ اہم پیش رفت ہوئی کہ عورتوں سے متعلق اس قانون کو کالعدم قرار دیا گیا جس کے مطابق عورت سے زیادتی کرنے والے شخص کی سزا یہ تھی کہ وہ متاثرہ لڑکی سے شادی کر لے،اس قانون کا سہارا لیتے ہوئے شامی حسن پر فریفتہ بہت سے ایسے نوجوانوں کی طرف سے زیادتی کے کیس سامنے آئے جو کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہ رہے تھے لیکن لڑکی کی رضامندی نہ ہونے کی وجہ سے پہلے اسے زیادتی کا نشانہ بناتے اور پھر اردن کا قانون انہیں پابند کرتا تھا کہ وہ قانونی طور پر بھی اسی لڑکی سے شادی کریں،اس طرح یہ سزا زیادتی کرنے والے مردوں کے لیے نہیں بلکہ نشانہ بننے والی ہی ہوتی اور زیادتی کرنے والے شخص کی ہمیشہ کے لیے بیوی بن کر رہنا پڑتا۔
پاکستان میں بھی چند سالوں سے کم عمری میں شادی کی روک تھام کے لیے قانون سازی پر بحث ہو رہی ہے اور ہو سکتا ہے جلد ہی اسلامی نظریاتی کونسل ایک مرتبہ پھر اس مسئلے کو اٹھائے لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کسی بھی مسئلے کا حل صرف قانون سازی نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات قانون سازی مزید مسائل کو جنم دیتی ہے جس کی واضح مثال اردن کا مذکورہ قانون ہے۔اس لیے صغر سنی کی شادی سے متعلق پاکستان میں بھی قانون سازی پر زور دینے کی بجائے تعلیم اور عوامی شعور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
فیس بک پر تبصرے