مذہب ایک مشکل ہے یا مشکل کا حل
یہ سوال اب کوئی نیا نہیں رہا کہ مذہب ایک مشکل ہے یا مشکل کا حل۔ اشتراکی فکر کا آغاز اسی نظریے سے ہوا کہ مذہب انسانی ترقی میں حائل ہے۔ مذہب ایک افیون ہے، مذہب کو ترک کیے بغیر تنزل یافتہ معاشرہ ارتقاء پذیر نہیں ہوسکتا۔ اشتراکیت نے مذہب کے خلاف بڑی جنگ لڑی، یہاں تک کہ آدھی دنیا کو فکری طور پر ہی نہیں عملی طورپربھی تسخیر کر لیا۔
دوسری طرف اشتراکیت کی جنگ سرمایہ داری نظام کے خلاف تھی جسے وہ مظلوموں اور مزدوروں کا خون چوسنے والا نظام قرار دیتی تھی یا دیتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام کی بنیاد مغرب میں صنعتی انقلاب پر پڑی جب کہ صنعتی انقلاب کلیسا کے خلاف اہل مغرب کی بغاوت کا نتیجہ تھا۔ گویا سرمایہ داری نظام کی بنیاد بھی مذہب سے بغاوت پر استوار ہوئی تھی۔ یہ وہی بغاوت تھی جس نے مغربی تہذیب کی بنیاد رکھی۔ اس تہذیب کی کائنات اورانسان کے بارے میں شناخت کے پیچھے کلیسا سے بغاوت کی روح ہی کارفرما تھی۔ اس تفکر کو سیکولرزم کا نام دیا گیا۔ کلیسا سے بغاوت کی وجوہ میں پھر استبداد اور جمود ہی کا رفرما تھا۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ داری نظام ہو جو مغربی تہذیب کے مظہر کے طور پر سامنے آیا یا اشتراکی نظریۂ اقتصاد و حیات، دونوں نے مذہب کو جمود کا سبب قرار دے کر ہی اسے ٹھکرا دیا تھا۔ البتہ مغربی سیاسی فکر نے مذہب کے خلاف جنگ کو جاری رکھنے کے بجائے اسے ایک راستہ دے دیا اور کہا کہ مذہب ایک پرائیویٹ معاملے کی حیثیت سے رہ سکتا ہے، ہماری اس سے کوئی جنگ نہیں، وہ ہم سے سروکار نہ رکھے، ہم اس سے سروکار نہیں رکھتے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر سرمایہ داروں اور سرمایہ داری نظام نے مذہب کی سرپرستی اور کفالت شروع کردی۔ اس طرح انھیں اپنے دور کے بلعم باعور بھی مل گئے۔انھوں نے عالمی اور مقامی سیاست میں مذہب کو حسب ضرورت اور حسب ذائقہ استعمال کرنا شروع کردیا، جب کہ اشتراکیت نے اس سے بلاواسطہ جنگ کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سرمایہ داری نظام نے عالمی سطح پر مذہب کو اشتراکیت کے خلاف منظم کرنا شروع کیا اور آخر کار اسے اشتراکیت کے سامنے لا کر کھڑا کردیا۔
اشتراکیت کی اصل جنگ تو سرمایہ داری نظام کے خلاف تھی، وہ مذہب کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بیان کرکے کوئی گریز کا ایسا راستہ اختیار کر سکتی تھی جس سے اس کا ڈائریکٹ معرکہ مذہب سے نہ ہوتا بلکہ ایک اس سے بھی بہتر راستہ ہو سکتا تھا۔ بعض مذہبی راہنماؤں نے اس کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش بھی کی لیکن مذہب سے آویزش کے لیے اشتراکیت نے وہی طریقہ اختیار کیا جو خود شدت پسند مذہبیوں کا رہا ہے۔ پھر اس کا جو نتیجہ نکلنا تھا سو نکلا۔ دوسری طرف سرمایہ داری نظام اپنی حکمت عملی یا منافقت کی وجہ سے بظاہر بازی لے گیا اور اس نے ایک مرحلے پر اشتراکیت کو چاروں شانے چت کر دیا لیکن سرمایہ داری نظام کو اپنے مفادات کے فروغ کے لیے جنگ ابھی جاری رکھنا تھی۔ ویسے بھی سرمایہ داری نظام کا دعوی یہ تھا کہ ان کی معیشت کے اندر مقابلے (Competition)کی روح کارفرما ہے جب کہ اشتراکیت کا کہنا تھا کہ اس کے نظام اقتصاد میں تعاون(Cooperation)کو ڈویلپمنٹ کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ہوا یہ کہ وہی مذہب جس کی طاقت سے سرمایہ داری نے اشتراکیت کو شکست فاش دی تھی اب اس نے اسی مذہب کے خلاف ایک نئے معرکے کا منصوبہ بنایا۔ آج کی دنیا اسی معرکے سے گزر رہی ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اشتراکیت کے خلاف فرسٹ لائن پر ’’اسلام‘‘ یا ’’مسلمان مجاہد قوتیں‘‘ رہیں۔ مسیحیت ان کی سپورٹ میں تھی۔ مسیحیت پیچھے سے تائید و حمایت کررہی تھی۔ اسے یہودیت کی بھی تائید حاصل تھی لیکن میدان کارزار میں ’’مسلم مجاہدین‘‘ تھے۔ ویسے بھی مسیحیت نے سرمایہ داری نظام کی سرپرستی میں رہنے کا شعوری فیصلہ کر لیا تھا۔ ممکن ہے کہا جائے کہ اُس نے سرمایہ داری نظام کے ساتھ مل جل کر رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا بہرحال جو کچھ بھی تھا اسلام نے ایسا کوئی فیصلہ نہ کیا تھا اور مسلمان جن حالات میں بھی رہے ان کے سامنے ان کا ماضی سنہری دور کے طور پر باقی رہا جب دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔
سرمایہ داری نظام کو ممکن ہے اقتصاد ی نظام یا نظریہ اقتصاد کے طورپر پیش کیا جائے یا سمجھا جائے لیکن سرمایہ دار کا ایک ہی نظریہ ہوتا ہے اور وہ ہے سرمایہ سمیٹنا اور سرمائے کی طاقت اکٹھی کرنا۔آج دنیا کی بیشتر دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں پہنچ چکی ہے۔ یہ سرمایہ داری نظام کا ہی کیا دھرا ہے۔ یہ سرمایہ دار اب دولت کا ایک بڑا حصہ مذہب کو مذہب سے لڑا کر سمیٹ رہے ہیں۔ اس کے دو فائدے فوری اور بڑے ہیں، ایک تو دولت جمع ہو رہی ہے اور دوسرا مذہب بیزاری کی تحریک پروان چڑھ رہی ہے۔ مذہب کو مذہب کی تلوار سے ذبح کیا جارہا ہے۔ جسے مغربی تہذیبی لبرزم کہتی ہے اسے تقویت مل رہی ہے۔ الحاد کو مضبوط شواہد اپنی تائید میں میسر آ رہے ہیں۔ اب زیادہ آسان ہو گیا ہے کہ کہا جائے کہ مذہب انسان کے لیے مشکل آفرین ہے مشکل کشا نہیں۔
ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے اور وہ یہ کہ اشتراکیت کے خلاف صف اوّل کے مجاہدین کے دماغ میں جو زعم سما گیا تھا، اس کا کچھ علاج بھی ہو رہا ہے، اسے استعمال بھی کیا جارہا ہے۔
علاوہ ازیں بعض خطوں اور ممالک میں اشتراکیت اور سرمایہ داری نظام، دونوں کے عین عروج کے زمانے میں مذہب نے سر اٹھانا شروع کردیا تھا۔ ایک ملک میں تو لاشرقیہ ولا غربیہ کے نعروں کی گونج میں نئی مذہبی حکومت بھی تشکیل پا گئی تھی جو بہت سے امتحانوں سے گزر کر اب بھی قائم ہے اگرچہ ابھی اس کی آزمائشیں ختم نہیں ہوئیں۔ اس ملک کے اندر بھی ایک طبقہ ایسا ضرور موجود ہے جو ’’مذہبی حکومت‘‘ کو اپنے لیے مشکلات کا باعث سمجھتا ہے تاہم زیادہ تر لوگ ابھی اس حکومت کے ساتھ ہیں جس کی وجہ سے اس پس منظر میں بھی یہ سوال ابھی باقی ہے کہ مستقبل میں انسانی معاشروں کے لیے مذہب کا کیا کردار رہے گا اور وہ کس سمت میں کتنا موثر ہوگا۔
ہماری رائے میں اشتراکیت کے خلاف اگر سرمایہ داری نظام کی سپورٹ سے مذہبی قوتیں حرکت نہ کرتیں تو نتیجہ یقیناً کچھ اور ہوتا، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مادی تصور کائنات کا سب سے بڑا مظہر اور سب سے بڑی طاقت یعنی سرمایہ داری نظام کو مذہب سے ہمدردی پیدا ہو جائے۔ اس کے مقاصد استعماری ہی تھے اور استعماری ہی رہیں گے۔ بے رحم سرمایہ داروں کی رقم اور اسلحہ سے ہونے والا جہادمذہب کے فائدے میں تمام نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ بات تو دو جمع دو چار کی طرح واضح تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذہب کے نام پر یا دھوکا کھایا گیا ہے یا دھوکا دیا گیا ہے۔ کسی اور مقصد کو مذہب کا عنوان دے کر اپنے مفادات حاصل کیے گئے ہیں۔ اگر ہماری یہ بات درست ہے کہ بعض لوگوں نے دھوکا کھایا ہے تو ان کی مذہب شناسی اور زمانہ شناسی دونوں معرض سوال میںآتے ہیں۔ ان کی مذہب شناسی بھی ناقص ہے اور حالات حاضرہ کافہم بھی ناقص ہے۔ وہ سرمایہ داری نظام اور اس کی حقیقتوں کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ غلطیوں اور ناسمجھیوں کے نتائج تو آخر بھگتنا پڑتے ہیں جو اب تک بھگتے جا رہے ہیں۔
اس ساری جدوجہد اورتگ و پو میں استعماری قوتیں زیادہ واضح طور پر سمجھ گئیں کہ مسلمانوں کے ایک جنگ آزما گروہ کا تصور مذہب نہایت شدت پسندانہ ہے۔ ان کا یہی تجربہ جو پہلے القاعدہ کے عنوان سے بروئے کار آیا نئے معرکوں کے لیے داعش اور دیگر ناموں سے ظہور میں آیا۔ اب نئے شدت پسندانہ مذہبی مظاہر کوخود مسلمانوں ہی سے جنگ لڑنا تھی، البتہ اس کے لیے ضروری تھا کہ انھیں کافر، مشرک، گمراہ، منحرف وغیرہ کا عنوان دیا جائے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت یہ تمام گروہ مسلمانوں ہی سے نبرد آزما ہیں اکا دکا واقعات دیگر ملکوں میں ہوئے ہیں جو اس ہنگامۂ ہا ؤہو میں اور شدت پسندانہ رویوں کے اظہار میں ہونا ہی تھے لیکن ان گروہوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے کئی ملک بری طرح تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔ اس صورت حال نے بہت سے لوگوں کو اس بات کا قائل کر لیا ہے کہ مذہب خود ایک مشکل ہے نہ کہ کسی مشکل کا حل۔
ہم سمجھتے ہیں کہ مسئلہ یوں نہیں اور یہ نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ مذہب کی حقیقت کیا ہے۔ اس مقام پر بعض دانشور اصطلاحوں کے فرق کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ دین اور مذہب میں فرق ہے۔ مذہب محدود مذہبی رسوم کا نام ہے اور دین کا تصور وسیع تر ہے۔ ہماری رائے میں بات یہاں سے بھی شروع نہیں ہوتی بلکہ اس کا پہلا سرا یہ سوال ہے کہ کیا کائنات صرف مادی ہے، یہ خود بخود معرضِ وجود میں آ گئی ہے یا اس کے پیچھے ایک زبردست ارادہ، علم، قدرت اور حکمت کارفرما ہے۔ اس سوال کا جواب اگر یہ ہے کہ خود بخود، اتفاق سے، اچانک معرض وجود میں آگئی ہے تو مذہب یا دین کی گنجائش ہی ختم ہو جاتی ہے اور اگر جواب دوسرا ہے اور وہ یہ کہ اسے کسی بڑی قدرت نے اپنے وسیع علم اور حکیمانہ ارادے سے وجود بخشا ہے تو پھر مذہب یا دین کی بنیاد میں ایک حقیقت ضرور موجود ہے۔ بات آگے بڑھتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ کائنات کے مادی پہلو کی اوٹ میں اس کا ایک روحانی پہلو بھی ہے، اس کا غیب بھی ہے اور اس کا باطن بھی ہے۔ اسی طرح ہر چیز کا ایک باطن ہے۔ انسان کا ایک مادی وجود ہے تو ایک روحانی وجود بھی ہے۔
اس کے بعد حیات بعد از موت او ر معاد و قیامت کا مسئلہ شروع ہوتا ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو مذہب یا دین سے چھٹکارا پانے کی کوششیں بذات خود معرض سوال میں آجاتی ہیں۔ کیا یہ تمام کوششیں ایک اٹل حقیقت سے جنگ آزما ہیں یا ایک خیالی بستی کو مسمار کرنے کے درپے ہیں۔ اگر کائنات کے اس روحانی تصور کو مان لیا جائے تو پھر مذہب کے مشکل آفرین یا مشکل کشا ہونے کی بحث کا رخ ہی کسی اور طرف ہو جاتا ہے۔ جب تک دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کائنات کے باطن و غیب اور اس کے روحانی پہلو کو ایک حقیقت کے طور پر مانتے ہیں اور اس پر ایسا یقین رکھتے ہیں جس کے لیے ’’ایمان‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور جسے جنگ کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا تو دیکھنا پڑے گا کہ مذہب یا دین کے خلاف جاری جنگ اصل میں کس سے ہے۔
خارج میں دیکھا جائے تو مذہب یا دین کو ماننے والے تمام لوگ ایک جیسے نہیں ہیں۔ انسانی معاشرے پر ان کی تاثیر بھی ایک جیسی نہیں۔ اگر مذہب کا ایک تصور قتل و غارت، ماردھاڑ، تکفیرو تفسیق سے عبارت ہے تو دوسرا تصور انسان دوستی، خیر و صلاح، رحمدلی اور اعلیٰ انسانی اوصاف و اخلاق سے عبارت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذہب کا ایک تصورمشکلات ایجاد کرتا ہے تو دوسرا مشکلات کو حل کرنے میں مددگار ہے۔
بات کچھ تفصیلی ہے جس کی اس مضمون میں گنجائش نہیں، اختصار سے ہم یہ کہتے ہیں کہ حقیقت دین کائنات اور انسان کی جامع شناخت سے عبارت ہے۔ یہ شناخت دین کو آفاقی اقدار کا حامل بنا دیتی ہے اور تمام بندوں کو عیال اللہ قرار دیتی ہے۔ اللہ کو رحمن و رحیم مانتے ہوئے انسانیت کے لیے بھی پیام رحمت کی حامل ہے۔ افسوس زیادہ تر مذہبی پیشوا معرفت کے اس درجے سے محروم ہیں، ان کی اپنی شناخت، عزت اور وسائل کا انحصار مذہب کے محدود تصور سے وابستہ ہے، اس لیے وہ ایک کمزور ارادے اور روح کے حامل ہیں اور دین کو اس کی وسعت و آفاقیت کے ساتھ دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ وہ اپنے وقتی مفادات کے لیے کسی بھی بڑی طاقت کا آلہ کار بن جاتے ہیں یا پھر اپنے اقتدار یا مادی مفادات کے حصول کے لیے مذہب کے محدود تصور ہی پر انحصار کرتے ہیں جو ان کی نظر میں عوام پسند ہوتا ہے نہ کہ خدا پسند۔ یہی مذہب انسانی معاشرے کے لیے مشکلات کا باعث بنتا ہے جب کہ کائنات کی حقیقت کا سراغ دینے والا دین انسان کو حرص و آز سے آزاد کرکے، فتنہ و فساد سے بھی آزاد کر دیتا ہے اور بندوں کو آپس میں جوڑ دیتا ہے ۔ دین کا یہی تصور انسان کے لیے مشکل کشا ہے۔ وہ بے رحم سرمایہ داروں سے بھی انسانیت کو آزادی کا پیغام دیتا ہے اور فتنہ پرور وخود غرض مذہبی پیشوائیت سے بھی۔
فیس بک پر تبصرے