پانی ، آگ اور حکایات
فیصلے میں آیا پانی پر جھگڑا ہوا ، گواہوں نے ہر ایک سے بڑھ چڑھ کر گواہی دی تاآنکہ کیس مشکوک ہوگیا۔ فیصلہ پسند نہیں آیا اور پانی کا کیس ملک بھر میں آگ لگا گیا۔لوٹ مار ہوئی، املاک، گاڑیاں جلائی گئیں اور وحشت کا راج شروع ہوا۔ مرنے مارنے کے لیے اشتعال دلایا گیا اورفتووں اور فتووں کے بغیر ملک بھر میں مختلف لوگوں نے مرغی کی ایک ٹانگ پر کھڑے رہ کر میں نہ مانوں والی رٹ لگانی شروع کی ۔ایک متشددانہ رویے کے لیے سازگار معاشرہ میں لوگوں کی جان اور ان کا مال محفوظ کہاں رہ سکتا ہے؟
پاکستان میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اردو میں آنے والے فیصلے پر شکر ادا کیا کہ حضور ﷺ کی شان میں گستاخی ثابت نہیں ہوپائی جبکہ انہیں حیرت ضرور رہے گی کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جو بضد ہیں کہ بہر حال گستاخی ہوئی ہے اورنجانے کیوں مطالبہ کرتے ہیں کہ فیصلہ اس کے برعکس ہوتا۔آپ کی طرح میرے بھی اردگرد ہر دو طرح کے لوگ ہیں جو اس کیس پر اپنی رائے محفوظ رکھتے ہیں البتہ کچھ کی آراء سے تحفظ کا احساس ہرگز نہیں ہوتا ہے۔
جب سے موجودہ صورت حال پیدا ہوئی ہے تو یہ بات طے ہے کہ اس کے لیے معاشرے کا ہر فرد اور ہر ذمہ دار پہلے سے آگاہ تھا۔ یہ الگ بات کہ ہر سطح پر ہماری پیش بندی توکل کے سنہرے اصولوں پر چلی آرہی ہے۔ وہی ہوا جو ہو رہا ہے۔حکومتی مشینری اور ریاستی طاقت کو چیلنج کیا گیا لیکن پھر بھی نقصان کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ایسا کرنے کی کسی کو اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہیے کہ عدالت کے فیصلے سڑکوں پر ہونے لگے۔میں ایک عام اور مخلص شہری کے طور پر ز ندگی گزارنا چاہتا ہوں لیکن ایسے حالات سے بالواسطہ اور بلا واسطہ شدید نقصان ہورہا ہے۔ ہر ایک خبر پر مجھے مولانائے روم محمد جلال الدین رومی بلخی کی ایک حکایت مسلسل یاد آتی رہی ، مثنوی معنوی کے دفتر پنجم کی اُس حکایت کی تلخیص پیش کرتا ہوں اور امید ہے کہ اس سے شاید، کبھی اور کسی بھی وقت کچھ اثر ضرور ہوگا ۔ فارسی ادبیات سے دوری کی وجہ سے ایسے انمول نکات سے محرومی معاشرہ کا خاصہ بنی ہوئی ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک موذن کسی علاقے میں بضد تھا کہ اذان کوئی دے گا تو وہی دے گا ۔ وہ موذن اپنی آواز کی کراہت کی وجہ سے لوگوں کی تکلیف کا باعث کا باعث بنا ہوا تھا۔ پھر کیا ہوا کہ لوگوں نے چندہ کرکے اچھی خاصی رقم اس کو ادا کی اور اسے ایک قافلے کے ساتھ کعبۃاللہ کی زیارت کے لیے بھیج دیا۔ وہ موذن فخر و انبساط کے ساتھ قافلے کے ساتھ ہولیا اور چلتے چلتے وہ غیر مسلموں کی آبادی میں پہنچ گیا جہاں مسلمانوں اور ان کے درمیان مناقشات کا سلسلہ دیرینہ تھا۔ جذبہ ء ایمانی سے سرشار موذن کب ماننے والا تھا اس نے فورا اذان دینا شروع کردی۔اگلے دن سویرے سویرے ایک شخص ہاتھوں میں سوغات کی تھالی اٹھائے اس موذن کاپوچھ رہا تھا۔ جب وہ شخص اس موذن سے ملا تو فورا اس کے ہاتھ چوم لیے اور تحائف سے بھری تھالی اس کے سامنے رکھ دی۔ موذن سمیت سب حیران کہ ایک دشمن اس تواضع اور عاجزی سے اسے کیونکر مل رہا ہے۔ دریافت کرنے پر اس شخص نے کہا کہ ہمارا سارا قبیلہ مسلمانوں کے بارے میں صحیح رائے نہیں رکھتے ہیں البتہ میری بیٹی ایک مدت سے مسلمان بننا چاہ رہی تھی۔ کل سے جب وہ آپ کے موذن کی آواز سن رہی ہے تو وہ اپنی سوچ پر پشیمان ہے اور اب اس نے اپنے دل سے مسلمان ہونے کا خیال نکال دیا ہے۔میں اسی کا شکریہ ادا کرنے آیا تھا۔
آنچہ کردی بامن از احسان و بر
بندہ ء تو گشتہ ام من مستمر
گربمال و ملک و ثروت فردمی
من دھانت را پر از زر کردمی
یعنی جو کچھ بھی تونے مجھ پر احسان کیا ہے اس کے بعد تو میں تیرا غلام بن گیا ہوں۔ اگر میں ایک مالدار شخص ہوتا تو تیرا منہ زر و جواہر سے بھر دیتا۔
مولانا رومی نے اس موقع پر کہا ہے کہ:
ھست ایمان شما زرق و مجاز
راھزن ھمچون کہ آن بانگ نماز
یعنی تمہارا ایمان مکر و مجاز سے بیشتر نہیں ایسا ہی جیسا کوئی لٹیرا اور ویسا ہی جس طرح کی اس موذن کی اذان۔
ایسی ہی ایک حکایت شیخ سعدی کی گلستان کے باب چہارم میں بھی ہے جہاں ایک بد آواز قاری سے کا ایک صاحب دل کا مکالمہ ہے کہ جب اس سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ تم کیوں پڑھ رہے ہو کیا تمہیں اس کا معاوضہ ملتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ نہیں اللہ کی خاطر پڑھ رہا ہوں تو وہ آدمی اسے کہتا ہے کہ اللہ کی خاطر مت پڑھو کہ :
گر تو قرآن بدین نمط خواندی
ببری رونق مسلمانی
یعنی اگر تو ایسے ہی قرآن پڑھتا رہے گا تو اسلام کی رونق کو ایک دن ختم کرکے رہے گا۔
فیس بک پر تبصرے