بلتستان،تعلیمی ارتقاء کی 126 سالہ تاریخ

1,323

بلتستان قدیم تہذیب  و تمدن کا حامل خطہ ہے ۔ تقریباً 600 سال قبل  صوفیائے کرام کے ہاتھوں یہاں اسلام  کی اشاعت کے بعدان صوفیائے کرام نے یہاں برداشت اور رواداری کا بھی درس دیا ۔ ان صوفیائےکرام کی یہاں آمد کے ساتھ ہی یہاں صحیح معنوں میں انسانیت کی تعلیم عام ہوئی۔

یوں تو بلتستان میں بون مذہب اور پھر بدھ مت کے مذاہب پہلےرائج تھے تو برداشت اور رواداری  کے رویئے اُن مذاہب کی تعلیمات کا بھی حصہ ضرور رہے ہیں مگر صحیح معنوں میں علم و نور کی یہاں کرنیں تب  پھوٹنی شروع ہوئیں جب  نامور علما ئے کرام اورصوفیا ء حضرات مشکل ترین پہاڑی سلسلوں اور برفانی دروں کو عبور کر کے یہاں دین اور انسانیت کی تعلیمات عام کرنے یہاں پہنچے۔اُسی دور سے یہاں حقیقی معنوں میں  درس و تدریس کا آغاز ہوا۔انہی تبلیغی سرگرمیوں کے ساتھ ہی یہاں ابتدا میں قرانی اور دینی تعلیمات عام کرنے کے لئے باقاعدہ ادارے کھلنے کا سلسلہ شروع ہوا جنہوں نے بعد میں جا کر مدارس کی صورت اختیار کر لی۔اگرچہ جو صوفیاء اور علما ئے کرام یہاں اسلام  کی اشاعت کے لئے پہنچے ان کی مختلف موضوعات پر دستیاب تصانیف سے انکی جد ید اور متفرق علوم پر دسترس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا  ہے لیکن ان کے نزدیک اُس مرحلے پر سب سے اہم مشن یہاں  بدھ مت میں  گھرے لوگوں  کے دلوں کو دین اسلام کی تعلیمات سے منور کرنا تھا ۔بیشتر مبلغین مخصوص مدت یہاں قیام کرکے تبلیغِ دین کا فریضہ سر انجام دے کر یہاں سے اگلی منزل کی جانب بڑھ  گئے۔

یہاں مروجہ تعلیم کے لئے باقاعدہ سکولوں کے   قیام  کا سہرا    ریاست جموں و کشمیر  کی سٹیٹ کونسل کے سر جاتا ہے جنھوں نے 1892 میں سکردو میں پہلا پرائمری سکول کھولاجو اس خطے میں مروجہ تعلیم کی اولین درس گاہ ہے جسے 1917 میں جا کر مڈل سکول کا درجہ دے دیا گیا ۔جس میں گنتی کے چند طلباء زیر تعلیم تھے ۔ بلتستان میں آزادی سے قبل لوئر ہائی سکول کھل چکا تھا جبکہ 1966 میں پہلے انٹر کالج کے قیام کے ساتھ  انٹر میڈیٹ سطح  کی تعلیم کی سہولت میسر آئی اور 1975میں گریجویشن سطح کی تعلیم کی فراہمی کے لئے پہلا ڈگری کالج سکردو میں قائم ہوا۔

یہاں کی بچیاں جس کے کافی عرصے تک تک انٹر میڈیٹ اور گریجویشن سطح کی تعلیم سے محروم رہیں ۔ سال  1989 میں یہاں  گرلز انٹر کالج قائم ہوا جس میں صرف آرٹس  کی کلاسوں کی سہولت تھی جس پر یہاں کے ایک ماہر تعلیم اور دانشور محمد یوسف حسین آبادی نے نجی شعبے میں1993 میں طالبات کے لئے انٹر  میڈیٹ کی سائنس  کی کلاسوں کا اجرا کیا جسے 1995 میں حکومت نے اپنی تحویل میں لیا اور گورنمنٹ گرلز کالج میں ضم کیا اس ادارے کو سال 2006میں ڈگری کالج کا درجہ دے دیا گیا۔ اب صورتِ حال  یہ کہ بلتستان ڈویژن کے چار اضلاع میں  دو بوائزڈگری کالج جبکہ تین انٹر کالجز قائم ہیں اسی طرح   طالبات کے لئے ایک ڈگری کالج  قائم کیا گیا ہے ۔ان سب اداروں میں مجموعی طور پر پانچ ہزار  طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ہزاروں کی تعداد میں طلبا و طالبات علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے تحت میڑک سے لے کر پی ایچ ڈی تک کی سطح کی کورسز میں زیر تعلیم ہیں۔

گلگت بلتستان کی پہلی جامعہ گلگت میں قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی کے نام سے 2002 میں قائم ہوئی ۔ یونیورسٹی اپنے چارٹر کی رُو سے ملٹی کیمپس یونیورسٹی تھی ۔مگر طویل عرصے تک یہ یونیوسٹی محض گلگت کیمپس میں ہی کام کرتی رہی ۔ اس عرصے میں گلگت  کے مخصوص حالات کے  پیش نظر دوسرے اضلاع سے  بالخصوص طالبات  خاطر خواہ استفادہ حاصل نہ کر سکیں ۔جس کے باعث دوسرےاضلاع کے طلبا وطالبات اعلی ٰ تعلیم کی سہولت سے محروم رہےالبتہ ان اضلاع کی قلیل تعداد میں  طلبا و طالبات جو گھر بار سے دور رہ کر  ملک کے مختلف بڑے شہروں کی یونورسٹیوں میں زیر تعلیم تھیں وہ اپنے تعلیم کو جاری رکھ سکیں۔اس صورت ِ حال کے باعث دوسرے اضلاع بلخصوص  بلتستان ڈویژن میں قراقرم یونیورسٹی کیمپس کے قیام کی جدو جہد شروع ہوئی۔ چند علم دوست افراد  کی یہ کوششیں آگےجاکر ایک باقاعدہ ایک علمی تحریک کی شکل اختیار کر گئیں ۔

اس تحریک کے باعث سال 2011 میں سکردو میں قراقرم یونیورسٹی کیمپس تو قائم کر لیا گیامگر اس کیمپس کو اس شرط کے ساتھ کھولا گیا کہ جو  تعلیمی شعبے یونیورسٹی میں  کیمپس گلگت میں قائم ہیں وہ اس کیمپس میں نہیں کھولے جائیں گے ۔یوں طلبا و طالبات کی دلچسپی اور مارکیٹ ڈیمانڈ والے تمام شعبوں کی  یہاں کھلنے کی اُمیدیں دم توڑ گئیں ۔ سکردو میں کیمپس کے قیام کے بعد بھی مذکورہ علم دوست شخصیات  اس کوشش میں رہیں کہ اس کیمپس کے حالات میں کچھ بہتری آئے مگر یونیورسٹی کےآئندہ  20 سالہ ویژن میں مین کیمپس گلگت میں آر سی سی چھت لگے پولو گرانڈ کی تعمیر کا منصوبہ تو شامل تھا لیکن یونیوسٹی کی اپنی چارٹر کے مطابق دوسرےاضلاع میں  بہتر تدریسی سہولتوں سے آراستہ کیمپس کے قیام کا تذکرہ تک موجود نہ تھا۔یہ وہ نکتہ تھا  جسے جب اہل بلتستان نے  محسوس کیا کہ قراقرم یونیورسٹی سکردو کیمپس یہاں  کےطلبا و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی کی ضروریات کوپورا کرنے سے قاصر  ہے  تو بلتستان میں علیحدہ یونیورسٹی کے قیام کے مطالبے نے جنم لیا ۔یہاں کی  علم دوست شخصیات جو پہلے یہاں قراقرم یونیورسٹی کیمپس کے قیام اور پھر اس کی کامیابی کی کوششوں میں سر گرم تھیں  اب بلتستان یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ لے کرمیدان میں آئیں  ۔ انھوں نے بلتستان میں  علیحدہ یونیورسٹی کے قیام کے لئے موجود جواز اور یہاں  یونیورسٹی کی کامیابی کے موجود مواقع سے متعلق جامع نوٹ تیار کر کے  گلگت بلتستان  اسمبلی اور کونسل کے ارکان کو دیئے۔ ان نمائندوں کی کوششوں سے 14 اپریل 2015 کو بلتستان یونیورسٹی کے قیام کا باقاعدہ اعلان اُس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے گلگت کے جلسے میں کیا ۔

اب سکردو کی ان علم دوست شخصیات نے اپنی جد و جہد کو اور زیادہ منظم کرنے کے لئے فورم کو فرینڈز  آف بلتستان یونیورسٹی کے نام سے قائم کیا عوامی نمائندوں کے ساتھ مل کر فورم کی کوششیں  جاری رہیں جس کے بدولت 19 ستمبر 2017 کو وہ تاریخی لمحہ آیا جب صدر مملکت نے بلتستان چارٹر کی منظوری دی ۔اس عرصے میں صوبائی یا وفاقی یونیورسٹی کی بحث بھی چلتی رہی پھر مقامی  سطح  پروائس  چانسلر کی تعیناتی کی اندورن خانہ کوششیں ہوئیں جسے گلگت بلتستان اسمبلی نے ناکام بنایا اور قرارداد کی منظوری دی کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن ملکی سطح پر وائس چانسلر  کی آسامی کو مشتہر کر کے میرٹ کی بنیاد پر تقرری کرے۔جس کی روشنی میں بننے  والی کمیٹی نے تمام قانونی  و میرٹ  کے تقاضے پورےکرنے کےبعد ڈاکٹر محمد نعیم  خان کو بلتستان یونیورسٹی کے وائس  چانسلر کے لئے نامزد کیا ۔ 24 جون کو ڈاکٹر محمد  نعیم خان بلتستان یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر کے طور پر تعینات ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف پنجاب یونیورسٹی کے ڈین اور رجسٹرار رہ چکے ہیں آپ  فارن کوالیفائڈ  ہیں اوربہت ہی باصلاحیت اور متحرک شخصیت کی مالک  ہیں۔ ان کی بحیثیت وائس چانسلر تعیناتی  کے بعد یونیورسٹی  کی تدریسی سرگرمیوں  میں بھی بہتری آئی ہے ۔

یونیورسٹی میں ماضی کے چار شعبوں کے علاوہ ایم اے انگریزی ، ایم اے ایجوکیشن ، ایم بی اے ، بی ایس سی ایس، بی بی اے، بی ایس انگریزی،بی ایس ایجوکیشن ،بی ایس بیالوجی،بی ایس میتھ اور بی ایس کیمسٹری کورسز متعارف کرائے گئے ہیں ۔حکومت پاکستان نے یونیورسٹی کی جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لئے 1 اعشاریہ 8  بلین روپے فراہم کئے ہیں۔ یونیورسٹی بڑی کامیابی سے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ مستقبل قریب میں بلتستان یونیورسٹی   بلتستان کی تہذیب و تمدن ، قدرتی وسائل جن  میں  گلیشیرز، آبی وسائل،معدنی وسائل اور حیاتیاتی تنوع سمیت دیگر وسائل شامل ہیں ، پر تحقیق کا منصوبہ رکھتی ہے۔بلتستان یونیورسٹی کی کم عرصے میں بڑی کامیابی کا بڑا  ثبوت یہ ہے کہ گزشہ دنوں اس یونیورسٹی  نے اپنے پہلے کانوکیشن کا انعقاد کیا گیا۔ گلگت بلتستان کے فورس کمانڈر میجر جنرل احسان محمود  خان اس پُر وقار تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ انہوں  نے   یونیورسٹی کے قیام اور کامیاب تعلیمی  سفر کے آغاز کو سراہا ۔انہو  ں نے گلگت بلتستان بھر سے کسی بھی سطح پر زیر تعلیم مالی اسطاعت نہ رکھنے والے طلبا و طالبات کے تعلیمی  اخراجات پاک فوج کی جانب سے برداشت کرنے کا حوصلہ افزا  ء اعلان کیا جبکہ بلتستان یونیورسٹی میں ایسے ہی طلبا و طالبات کے لئے ایک انڈورمنٹ فنڈ کے قیام کے لئے دس لاکھ روپے موقع پر فراہم کئے۔اس کانووکیشن  میں 105 طلباو طالبات میں مختلف کورسز میں ماسٹرز  مکمل کرنے پر اسناد اور 13طلبا و طالبات جنہوں نے امتیازی حیثیت  میں کامیابی حاصل کی اُن میں گولڈ میڈلز تقسیم کئے گئے۔

بلتستان میں گھروں کی دہلیز پر طلبا و طالبات کے لئے پوسٹ گریجویشن  اور ایم فل پی ایچ ڈی کی سہولت کا میسر آنا اور  مقامی سطح پر عطائے اسناد کی تقریب کا انعقاد خطے میں تعلیمی  انقلاب سے کم نہیں۔کیونکہ بلتستان میں تعلیمی ارتقا کی 126 سالہ جد وجہد کے نتیجے میں آج پہلے  جامعہ سے سینکڑوں نوجوان  اسناد لے کرسرفراز ہوئے ہیں۔۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...