کیا بلوچ شناخت خطرے میں ہے ؟

795

بلوچستان کی سیاسی قیادت نے آبادی کا تناسب بدل جانے کے موہوم خدشات کے پیش نظر معاشرتی ارتقاءکے فطری عمل کو منجمد رکھا لیکن ٹیکنالوجی کی ترقی نے ان افتادہ بستیوں تک رسائی پا ہی لی

جمہوری وطن پارٹی کے مرکزی صدر شاہ زین بگٹی نے کہا ہے کہ سی پیک سے بلوچستان میں ترقی کی راہیں کھلیں گی لیکن اس  کے ثمرات بلوچ عوام تک اس وقت پہنچ پائیں گے جب حکومت ایسی منصوبہ بندی کرے جس کا محور مقامی آبادی کے سیاسی حقوق،معاشی مفادات اور تہذیبی شناخت کو تحفظ ہو۔شاہ زین بگٹی،جو بلوچستان کے سابق گورنر نواب اکبر بگٹی کے پوتے ہیں، نے ڈیرہ اسماعیل خان میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ،حکومت سب سے پہلے سی پیک منصوبہ کے تحت بلوچستان میں عالمی معیار کے تین ہسپتال بنا کے مقامی باشندوں کو صحت کی معیاری سہولتیں کی فراہمی یقینی بنائے تاکہ عوام کو ان میگا پراجیکٹس کی افادیت کا احساس ہو کیونکہ جب تک بڑے ترقیاتی منصوبوں کے ثمرات مقامی عوام تک نہیں پہنچتے ترقی کا عمل متنازعہ رہے گا،بلوچ لیڈر کا کہنا تھاکہ گوادر پورٹ کی تعمیر بہترین عمل سہی لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ ترقی کی آڑ میں ملک کے دیگر علاقوں سے آئے لاکھوں لوگ گوادر کو اپنا مستقل مسکن بنا کر بتدریج آبادی کا تناسب بدل ڈالیں،جس سے نہ صرف بلوچ اپنی تہذیبی شناخت کھو بیٹھیں گے بلکہ مقامی آبادی صوبائی اسمبلی میں بھی اکثریت سے محروم ہو جائےگی۔امر واقعہ بھی یہی ہے کہ اس وقت بلوچستان کے دور افتادہ اضلاع سمیت کوئٹہ جیسے بڑے شہریوں میں بھی صحت کی سہولیات ناپید ہیں،صوبہ بھر کے سرکاری ہسپتال مقامی آبادی کی ضروریات کےلئے ناکافی اور نجی شعبے کے چھوٹے ہسپتال صحت کی معیاری سہولیات باہم پہنچانے کی سکت نہیں رکھتے،یہی وجہ ہے جو بلوچستان کے عوام کی اکثریت آج بھی علاج معالجہ کی خاطر کراچی،ملتان یا لاہور کا رخ کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔بلند بانگ دعووں کے باوجود صوبائی حکومت ہسپتالوں کی حالت سدھار سکی نہ سرکاری تعلیمی اداروں کو فعال بنانے میں کامیاب ہوئی،بلوچستان کی سیاسی قیادت نے آبادی کا تناسب بدل جانے کے موہوم خدشات کے پیش نظر معاشرتی ارتقاءکے فطری عمل کو منجمد رکھا لیکن ٹیکنالوجی کی ترقی نے ان افتادہ بستیوں تک رسائی پا ہی لی،جنہیں گنبد بے در بنانے کی کوشش کی گئی تھی کیونکہ ثبات اک تغیر کو زمانے میں چنانچہ اب ایک نئی صورت حال ہے جس میں قومی سوال اور مطالبات بدل رہے ہیں اور خودسر، سردار اب تہذیبی شناخت اور سیاسی حقوق مانگتے نظر آتے ہیں حالانکہ اب یہ ممکن نہیں ہو گا، گوادر میں مقامی بلوچوں کے تہذیبی تشخص اور علاقائی مفادات کو محفوظ بنانے کے لئے صوبائی حکومت نے کئی دل خوش کن وعدے وعید کئے اور مقامی لوگوں کوان کی شناخت اور سیاسی حقوق کا تحفظ ممکن بنانے کی یقین دہانی بھی کرائی لیکن ان وعدوں پہ عملدرآمد کی نوبت نہیں آئے گی۔شاید اسی لئے شاہ زین بگٹی کہتے ہیں کہ مقامی آبادی کے حقوق کے تحفظ کےلئے ضروری ہے کہ حکومت دیگر علاقوں سے آنے والے آباد کاروں کو گوادر میں اپنا ووٹ درج کرانے سے روکنے کےلئے قانون سازی کرے۔قبل ازیں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ثناءاللہ زہری اور سابق چیف سیکٹری سیف اللہ خان نے گوادر کے مکینوں کو اطمنان دلایا تھا کہ حکومت دوسرے صوبوں سے آنے والے آباد کاروں کو اس امر کا پابند بنائے گی کہ وہ کسی طور خود کو مقامی باشندہ ظاہر نہ کریں،وزیر اعلیٰ نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ گوادر کہ مستقل مکینوں کی علاقائی شناخت کے تحفظ کی خاطر حکومت ضروری قانون سازی کرنے کے علاوہ انتظامی اقدامات بھی اٹھائے گی تاہم بوجوہ اس ضمن میں قانون سازی ہوئی نہ ان یقین دہانیوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکا جو حکومت کی طرف سے مقامی بلوچوں کو کرائی گئیں تھی،چنانچہ انہی گریزپا رویوں نے مقامی بلوچوں اور ریاست کے درمیان بداعتمادی کی خلیج بڑھا دی۔مقامی بلوچوں کے مطالبات اور حکومتی وعدوں سے قطع نظر، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کی مروجہ قوانین ملک کے دیگر حصوں سے آنے والے پاکستانیوں کو گوادر میں مستقل سکونت سے روک سکتے ہیں نہ کسی کو سیاسی عمل سے دور رکھا جا سکتا ہے،نوشتہ دیوار یہی ہے کہ بلوچوں کا فرسودہ قبائلی نظام وقت کی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکا اور بلوچ ابھی تک قبائلیت سے نکل کر سماج کے اس اجتماعی دھارے کا حصہ نہیں بنے جسے ایک قسم کا دوام حاصل رہتا ہے،گلہ بانوں پہ مشتمل بلوچ قبائل کے پاس ایک زندہ و توانا معاشرے کے بنیادی عناصر ترکیبی موجود نہیں ہیں،ان کے کمپیوٹر آپریٹر ہے نہ الیکٹریشن، ویلڈر ہے نہ پائپ فٹر،موٹر میکینک ہے نہ کارپینٹر،جب ترقی کا عمل آگے بڑھے گا تو تربیت یافتہ لیبر کے علاوہ لاکھوں مزدور اور زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے والے چھوٹے تاجروں کی بڑی تعداد باہر سے لانا پڑے گی،جو نہایت سرعت کے ساتھ ایک متنوع معاشرے کے قیام کا سبب بن کے یہاں آبادی کے تناسب کو بدل دےدیں گے،اگر ہیگل کی جدلیات کا اطلاق کیا جائے تو نئے لوگ یہاں ایک ایسے صنعتی معاشرے کی بنیاد رکھیں گے جو پرانی تہذیب کے کار آمد اجزاءکو جذب کر کے ایک جدید تمدن کو وجود دینے کا سبب بنے گا۔شاہ زین بگٹی نے بلوچستان میں موجود افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کے مستقل قیام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ،افغان مہاجرین کو مردم شماری کاحصہ نہ بنایا جائے،انہوں نے اقوام متحدہ کا ذیلی ادارے برائے مہاجرین سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں مقیم افغان مہاجرین کو وطن واپس بھجوانے میں پاکستان کی مدد کرے ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان میں گزشتہ برسوں کی لاقانونیت کے نتیجے میں بہت سے بلوچ قبائل،خصوصاً بگٹی قبیلے کے جو ہزاروں افراد سندھ،پنجاب اور بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں کو میں ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں، انہیں دوبارہ اپنے آبائی علاقوں میں آباد کرنے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے جو منصوبے بنائے ان پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے،شاہزین بگٹی کا کہنا تھا کہ بے گھر بلوچ قبائل کو مردم شماری میں شامل نہ کیا گیا تو بلوچستان میں آبادی کا تناسب متاثر ہو سکتا ہے،انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں دریافت ہونے والے سونے کے ذخائر سے ملک اور صوبہ کو فائدہ پہنچنا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے ارباب اختیار ان قومی آثاثوں کے تحفظ میں ناکام نظر آتے ہیں،انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ سونے اور تانبے کے ذخائر کے ٹھیکے ان چینی کمپنیوں کو ایوارڈ کئے جائیں جو یہاں کی معدنیات کو اپنے ملک لے جانے کی بجائے یہیں مقامی سطح پر پروسیسنگ کے کارخانے لگائیں تا کہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ یہاں کی معدنیات کی اصل مقدار کتنی ہے اور ان قدرتی وسائل سے پاکستان اور بلوچستان کو کتنے مالیاتی فوائد مل رہے ہیں۔ہمارے خیال میں بلوچ لیڈر شپ معمول کے سماجی ارتقاءاور ایک جائز سیاسی عمل کے ذریعے بلوچستان کے وسائل اور اقتدار پہ اپنی اونرشپ قائم رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکی،جس کے نتیجہ میں مایوسی بڑھ گئی جو بلآخر انہیں علیحدگی اور تشدد کے راستوں پر لے گئی ہے،اگر وہ اپنے سماج میں انسانی ارتقاءکے عمل کو نہ روکتے تو آج انہیں تہذیبی تحفظ کی خاطر التجائیں کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...