سینیٹ کے انتخابات سے پہلےکیا ہونے جا رہا ہے ؟

987

اسٹیبلشمنٹ سمیت حریف سیاسی جماعتوں کیلئے اہمیت کا حامل سیاسی سوال یہ ہے کہ کیا میاں نواز شریف کو نئے انداز وتوانائی کے ساتھ ایک مضبوط حکمران کے طور پر قبول کیا جاسکتا ہے ؟

پانامہ کیس کے متعلق سپریم کورٹ کے عدالتی حکم کے بعد جس طرح سے سیاسی انتشار اور کشیدگی کی فضاءپیدا ہوئی ہے وہ عدالتی فیصلے کے قانونی نکات وتقاضوں کے احترام کے باوجود مجھے کسی طے شدہ منصوبے کا حصہ معلوم ہوتی ہے ۔ میرا پہلا تاثر فیصلہ سننے کے بعد یہی تھی کہ اس فیصلے کے بطن سے بھی ایک بحرانی عنصر ابھرے گا جو حکومتی یا سیاسی عدم استحکام کو گہرائی عطا کرے گا کیا حزب اختلاف صرف سیاسی عدم استحکام چاہتی ہے یا اس عمل کے نتیجے میں کچھ ایسی حکمت عملی کے اہداف کیلئے بھی کوشاں ہے جن کا تعین طاقتور حلقے نے اپنے سیاسی حلیفوں کے مفادات کے ساتھ مشترکہ مقاصد کیلئے کیا ہے ؟ ۔ یہ قابل توجہ نکتہ ہے ۔

مثال کے طور پر فیصلہ جاری ہونے کے وقت سپریم کورٹ میں داخل ہوتے وقت جناب عمران خان نے کس بنیاد پر کہا تھا  کہ‘‘جشن تو وہ باہر آکر ( فیصلہ سننے کے بعد ) منانے والے ہیں ’’۔

کیا انہیں پہلے سے معلوم تھا یا بتایا جاچکا تھا کہ عدالتی فیصلہ ان کی فتح کے مترادف ہوگا ۔ میں اس صورتحال کو فیصلے کے بعد سامنے آنے والے ان مبہم تاثرات اور قیاس آرائیوں کے تناظر میں انتہائی تشویشناک اور اہم سمجھتا ہوں جن میں دبے لفظوں میں برقی ذرائع وابلاغ پر مخصوص گروہ نا قدین کہہ رہے ہیں کہ اختلافی رائے دینے والے ججز کی تعداد پہلے تین تھی مگر آخری مرحلے میں ان میں ایک کی رائے بدل گئی ۔ یوں اکثریتی رائے سے فیصلہ فوری طور پر میاں نواز شریف کیلئے خوش آئند جبکہ عمران خان کیلئے ایک دھچکے کا باعث بنا تھا فیصلے کے بعد تمام فریقین فاتحانہ انداز میں مٹھائیاں کھا اور تقسیم کرتے رہے پھر اچانک اختلافی فیصلے کو جو فیصلے کا غیر فعال حصہ ہے۔ اکثریتی رائے پر اختلافی سیاسی اور بعض مقامات پر قانونی بالا دستی دینے کی ماہرانہ کوشش ہونے لگی ہے اور یوں رفتہ رفتہ ملک میں سیاسی استحکام اور اداروں کی ساکھ کمزور ہوتی جارہی ہے مجھے یہ سب کچھ منظم منصوبہ بندی کا حصہ محسوس ہورہا ہے جس کے پس پردہ وہ اصل سیاسی ہدف فعال کردار ادا کررہے ہیں جس نے طاقتوروں کے ( اگروہ یہ طے کر چکے ہیں ) حلقہ میں متعدد سیاسی جماعتوں کو بھی شراکت دارانہ انداز میں یکجا کرلیا گیا ہے کہ موجودہ صوبائی اسمبلیوں کو متحدہ انداز میں نصف ریٹائر ہونے والے سینیٹرز کے انتخابات کا موقع نہ ملے اور اگر ملے بھی تو وہ سیاسی تنظیمی ڈھانچے میں اختلافات کے باعث منقسم ہوجائیں اورانتخاب کا مرحلہ طے کر لیں ۔تاکہ کسی متمد جماعت کو برتری نہ ملے۔

میرا بنیادی نقطہ بہت واضح ہے کہ بلاشبہ پاکستان کا موجودہ سیاسی ڈھانچہ اور جمہوری ادارے ونظام اپنی کارکردگی میں بھی عوام کی بے پایاں حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں رہے تو دوسری طرف جمہوری فیصلہ سازی یا پارلیمانی بالادستی کو مفلوج وبے بس بنائے رکھنے کیلئے طاقتوروں کی بھی کامیاب کوشش بہت ہی نتیجہ خیز رہی ہیں لمحہ موجود میں مذکورہ کیفیت بدلی یا بدلتی نظر نہیں آرہی ۔ کئی مسائل حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین دوری ،فاصلے اور مختلف الخیال نقطہ ہائے نظر موجود ہونے کی شہادت دیتے ہیں جن سے اہل خبر کماحقہ واقف ہیں ۔2013ءکے بعد میاں نواز شریف قومی سلامتی قومی دفاعی وخارجہ پالیسی پنڈی سے اسلام آباد منتقل کر گئے تھے مگر جلد ہی سیاسی دھینگا مشتی کے زور پر مذکورہ فیصلہ وپالیسی سازی واپس پنڈی منتقل کرائی گئی تھی یہ بات میں پی ٹی آئی کا دھرنا شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل لکھ چکا ہوں جو ریکارڈ پر موجود ہے ۔ بعد ازاں جو واقعات رونما ہوئے وہ میرے مفروضے کی تائیدی شہادت تھے ۔تاہم اب صورتحال جوہری تبدیلی کے ممکنات عریاں کرتی نظر آرہی ہیں یہ اہم سوال سنجیدہ وطاقتور حلقوں کیلئے بنیادی موضوع ہے کہ اگر 2018ءفروری میں موجودہ صورتحال اسمبلیاں سینیٹ کے نصف ارکان کا انتخاب کرنے میں کامیاب رہتی ہیں تو اعداد وشمار کے گورکھ دھندے کی تفصیل دیئے بغیر یہ بات مسلمہ طور پر کہی جائے گی کہ پھر سینیٹ میں مسلم لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں کو اکثریت یا برتری مل سکتی ہے اور اسی کے ساتھ رائے عامہ کے بعض جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ مقررہ وقت پر ہوئے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون قومی اسمبلی اور پنجاب وبلوچستان میں اپنی پوزیشن (حکومت سازی کی استعداد ) برقرار رکھے گی جبکہ ممکن ہے کہ کے پی میں بھی بہتر پوزیشن حاصل کرنے اور پی ٹی آئی کے بغیر صوبے میں مخلوط حکومت بنالے گی ۔ چنانچہ اس امکانی منظر نامہ کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ سمیت حریف سیاسی جماعتوں کیلئے اہمیت کا حامل سیاسی سوال یہ ہے کہ کیا میاں نواز شریف کو نئے انداز وتوانائی کے ساتھ ایک مضبوط حکمران کے طور پر ( پارلیمانی عددی استعداد کے معنوں میں ) قبول کیا جاسکتا ہے ؟

میرا خیال یہ ہے کہ حالیہ واقعات کے پیچھے اسی سوال کے جواب کی نوعیت اہم کار فرما عنصر ہے اور یوں میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی نوعیت ( اکثریتی رائے )نیز فیصلے کے مندرجات اور اختلافی آراءستمبر تک اسمبلیوں کو تحلیل یا تقسیم کرنے کی صورت حاصل کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔

اور ان کاوشوں کے کئی مزید مراحل سامنے آئیں گے ۔ عدالتی فیصلے کے بطن سے جو ہاو ہو کار مچی ہے اور حکومت پر سیاسی و اخلاقی دباﺅ ڈالا گیا ہے وہ جائز تھا۔ مگر اب عمران خان کے دس ارب روپے کے دعوے نے صورتحال میں نئی بحرانی کیفیت پیدا کردی ہے تین دن سے ذرائع ابلاغ عمران خان پر ناقدانہ دباﺅ ڈال رہے تھے کہ وہ مذکورہ پیشکش لانے والے شخص کا نام بتائیں جب یہ مطالبہ طاقتور ہوجائے گا تو شاید عمران خان کسی تاجر کو منظر عام پر بھی لے آئیں گے جو ساری کہانی کی تائید کرتے ہوئے تسلیم کرے گا کہ اسے نواز شریف فیملی کے کسی فرد نے ایسا کرنے کا ٹاسک دیا تھا ۔ چونکہ مذکورہ شخص کے پاس اپنے دعوے کے ثبوت کیلئے ٹھوس شواہد نہیں ہونگے چنانچہ عمران خان کہہ سکیں گے کہ انہوں نے دروغ گوئی نہیں کی بلکہ گواہ ثابت کرچکا ہے کہ میاں محمد نواز شریف اور اپنے عزیز واقارب اس پیش  کش کے اصل کردار ہیں یوں ذرائع ابلاغ جو پہلے ہی صورتحال میں خبر دینے والے کے برعکس خبر بنانے والے کا کردار اختیار کر چکے ہیں ۔ اس واقعہ کو خوب اچھالیں گے ۔ الزامات تردید ، اصرار یا پھر عدالتی تحقیقات کے مطالبات اس ایشو کو زندہ رکھیں گے جن سے اسمبلیاں توڑنے یا تقسیم کرنے کا نتیجہ بھی برآمد ہوسکتا ہے اور اگر نہ بھی ہوا تو کم از کم سیاسی فضاءاتنی مکدر اور ابہام زدہ ہوگی اورالزامات کی دھول اتنی بھیانک اور گھمبیر ہوگی کہ شاید مسلم لیگ نون میں ڈنٹ بھی پیدا ہوجائے یا وہ عام انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل نہ کر سکے ۔ ہر دو صورتوں میں ملک سیاسی عدم استحکام اور ایک کمزور مخلوط حکومت کی وجہ سے اس عالمی ساکھ اور توقعات سے یکسر عاری ہوگا جو بدلتے ہوئے تناظر میں گوادر سے وابستہ اقتصادی سرگرمیوں میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کے امکانات مواقع اور اعتماد کیلئے ضروری ہیں کیا ہم ارادتاً ملک کو معاشی طور پر مفلوج رکھنے کے شائق وآرزو مند ہیں؟ اس پر سوچئے نیز یہ بھی کہ عمران خان کو دس ارب روپے کی پیشکش آج سے دس پندرہ روز قبل کیوں کی گئی( جیسا کہ دعویٰ کیا جارہا ہے ) جب کہ عدالت دو ماہ قبل ہی اپنا فیصلہ محفوظ کر چکی تھی ؟۔ ان حالات میں اگر ڈیل ہو بھی جاتی تو رقم ادا کرنے والوں کی حماقت ہے اور عمران خان کے مالی فائدے حاصل کرلینے کے سوا کیا نتیجہ برآمد ہوسکتاتھا ۔؟؟؟؟

کسی بھی سطح پر اگر عمران خان اپنے دعوے میں صادق و امین نہیں رہتے تو کیا عدلیہ ان پر آئین کی دفعات 63-62 کا اطلاق کر پائے گی؟ مجھے اس بارے شکوک ہیں کیونکہ وہ پہلے مصالحانہ اطوار سے خان صاحب۔ جن کے وارنٹ گرفتاری موجود ہیں ۔ اعلیٰ عدلیہ میں جسمانی طور پر موجود ہونے کے باوجود وارنٹ کی تعمیل کرنے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دی۔

کیا اس عمل کو دانشمندانہ گریز یا مصالحانہ پن کہا جائے؟ کیا عدلیہ قانون کی بالادستی سے از خودخائف ہے؟

بہت سے سوالات ملک کے تمام مقتدر اداروں کے کردار اور آئین کی حدود و خواہشات کے بیچ تضاد، فاصلے اور انحراف کی داستان ہیں۔ جبکہ داستان گو بھی موجود ہے مگر شنوائی کی کوئی سبیل نظر نہیں آ رہی تو لازماً شہریوں میں اپنی ریاست سے بر گشتگی اور مفائرت کے جراثیم پنپ رہے ہیں….سیاست میں عدم بصیرت اور معاشرتی عدم رواداری و دہشت کی صورت۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...