پاکستان میں سیاحت: تین خبروں کے تناظر میں

1,466

گزشتہ دو ہفتوں  کےدوران  پاکستان میں سیاحت سے متعلق تین خبریں  چند دنوں کے فرق سے ملک کے مختلف روزناموں میں شائع ہوئیں جو کہ ملک میں سیاحت کی پوری کہانی بیان کرتی ہیں۔

نومنتخب وزیر اعظم عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ ملک میں  سیاحت کے جتنے مواقع ہیں، اس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں،ہم ٹورازم انڈسٹری کو فروغ دیں گے اور ہر سال چار نئے سیاحتی ریزارٹ کھولیں گے۔ پولش خاتون سیاح ایوا  زو بیک نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان  سے  متعلق جو تاثر دنیا میں پایا جاتا ہے وہ بالکل غلط ہے،یہ دنیا کا خوبصورت ترین  ملک ہے،میں   پاکستان سے متعلق منفی سوچ کو تبدیل کرنے کے لیے  ٹریول شو منعقد کرنا چاہتی ہوں۔ تیسری خبرمری میں سیاحوں پر تشدد کے ایک  واقعہ سے متعلق تھی، جس کے بعد سوشل میڈیا پر مری بائیکاٹ مہم دوبارہ شروع  ہوئی۔

پہلی خبر  میں جناب  وزیراعظم  کی جانب سے  جو دعویٰ کیا گیا ہے وہ کوئی نیا نہیں ہے،زبان زد عام ہے کہ   ہمارا ملک قدرتی حسن سے مالا مال ہے  اورا گر یہاں سیاحت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو یہ ہماری معیشت میں ایک بڑے اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔دوسری خبر  اس دعوی ٰکی دلیل ہے جو کہ ایک پولش سیاح کی زبانی ہمیں سننے کو ملی ،جس میں اس بات کا اعتراف ہے کہ واقعی پاکستان  ایک  خوبصورت ملک ہے اور غیرملکی سیاحوں کو اس طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔یہ وہی خاتون ہیں جن کی    یوم آزادی کے موقع پر پاکستانی  جھنڈے کے ساتھ رقص کی ویڈیو وائرل ہوئی  تھی،ایوا زو بیک  ان  دنوں  سیاحت  کی غرض سے  پاکستان آئی ہوئی ہیں اور گلگت،سکردو،نانگا پربت  اور کاغان ناران جیسے خوبصورت مقامات کی سیر کر چکی ہیں اور دنیا بھر کے سیاحوں کو پاکستان  کی طرف متوجہ کر رہی ہیں۔جبکہ تیسری خبر  میں ان تمام عوامل کا  خلاصہ آ گیا ہے جو سیاحوں کو ہماری طرف آنے  سے روکتے ہیں۔جب اس طرح کی خبریں اسلام آباد کے قریب ترین سیاحتی مقام  سے متعلق رپورٹ ہوں گی تو اس کا  غیرملکی سیاح پر کیا اثر پڑے گا؟اور جب خود پاکستانی شہری ہی  سیاحت کا بائیکاٹ کر یں  گےتو پھر  دوسروں سے کیا گلہ کیا جائے؟

آج کے دور میں سیر و سیاحت دنیا بھر میں مقبول ہو رہی ہے اور   سیاحوں کی تعداد میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے لیکن بدقسمتی  سے پاکستان میں یہ انڈسٹری  خاطر خواہ فروغ نہیں پا سکی، WTTC(ورلڈ ٹورازم اینڈ ٹریول کونسل)کے مطابق پاکستان میں سیاحت کے بہترین مواقع کے باوجود اِس کا معاشی ترقی میں حصہ بہت کم ہے۔ پاکستانی معیشت میں سیاحت کا حصہ 793 ارب روپے ہے، یعنی ملکی جی ڈی پی کا صرف 2.7 فیصد۔ اگر ہم اِس شعبے پر تھوڑا بھی دھیان دیں تو  ہمارے لیے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ ملکی معیشت کو اِس حوالے سے کس قدر فائدہ ہوسکتا ہے۔

جب پاکستان کے پاس سیاحت کے لیے بہترین مواقع موجود ہیں  تو پھر  کیا وجہ ہے کہ  یہ شعبہ ترقی نہیں کر رہا اور غیرملکی  سیاح پاکستان کا رخ نہیں کر رہے؟اس کی   کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن بڑی وجوہات تین ہی نظر آتی ہیں۔پہلی وجہ   ماضی  میں  بننے والی کسی بھی حکومت کا اس کی طرف توجہ نہ دینا ہے،کیونکہ بیشتر  سیاحتی مقامات  شمال میں ہیں اور شمالی علاقہ جات میں آمدورفت کی سہولیات ناکافی ہیں،تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ پہلی بار ملک کے وزیراعظم نے جہاں دیگر قومی اہداف کا تعین کیا وہیں  سیاحت  کے فروغ کے  لیے بھی اقدامات اٹھانے  کا عندیہ دیا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ بات باتوں سے آگے بڑھے۔

دوسری وجہ  گزشتہ دو عشروں  کے دوران  بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہے،دہشتگردی کے عفریت نے پاکستان کو ہر اعتبار سے کھوکھلا کرنے کی کوشش کی لیکن  مقام شکر ہے   کہ ملک کے پالیسی سازوں  نے اور افواج پاکستان نے آپریشن ضرب عضب و ردالفساد کے ذریعے ملک میں  امن کو بحال کیا ہے،اس طرح   سیاحت کے فروغ میں حائل  دو بڑی رکاوٹیں حکومتی عدم توجہی اور دہشتگردی کافی حد تک ختم  ہو گئی ہیں۔

تیسری وجہ  ہمارے منفی رویے ہیں جن میں کوئی تبدیلی نہیں آ رہی،سیاحوں  کو Facilitateکرنے کے بجائے    ان کے ساتھ من مانیاں کی جاتی ہیں،ہفتہ وار تعطیلات اور گرما ،سرما کی چھٹیوں میں   کرائے بڑھا دیے جاتے ہیں، ناقص اور باسی کھانے  کی اشیاء   پر بھی   دوگنا قیمت وصول کی جاتی ہےاور اگر کوئی سیاح  شکایت کرے تو اسے زد و کوب کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ایک  طرف اگر ہوٹل مالکان کے یہ منفی رویے ہیں تو دوسری طرف  سیاحوں  کے بعض رویے بھی  بدمزگی کا سبب بنتے ہیں۔  اس لیے سیاحت کے لیے نکلنے والوں کو بھی تربیت کی ضرورت ہے کہ وہ  پاس سے گزرنے والوں پر جملے نہ کسیں ،مقامی افراد  بالخصوص خواتین کی تصویریں نہ بنائیں وغیرہ ۔

اگر دونوں طرف سے ان امور کا خیال رکھا جائے  تو امید ہے کہ  پاکستان میں سیاحت کا شعبہ بھرپور ترقی کرے گا  جس سےروزگار اور آمدن کے مواقع پیدا ہوں گے  اور ملک کی معیشت مضبوط ہو گی۔

 

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...