پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی لسٹ سے کیسے نکلوایا جائے
1980ء کی دہائی میں افغان روس جنگ کا آغاز ہوا جس نے خطہ میں موجود دوسرے ممالک کو بھی متاثر کیا ان متاثرین میں پاکستان بھی شامل تھا ۔ 1979ء میں مشرقی وسطی ٰمیں کئی اہم عالمی تبدیلیاں رونما ہوئیں اولاََ ایران میں انقلاب برپا ہونا، دوئم مصر کا اسرائیل سے امن معاہدہ اور تیسرا افغانستان پرروس کی چڑھائی۔ ان واقعات نے عرب دنیا میں اسلامی حریت اور عالمی اسلامی اقتدار کے ایک نئے تصور کو تقویت دی جو سید قطب نے پیش کیا تھا۔ روس کی چڑھائی سے یہ حریت پسندوں کے گروہوں نے افغانستان میں پڑاؤڈالنا شروع کیا اور اپنی کارووائیاں شروع کیں۔ یہ گروہ امریکی مفاد کے لئے بخوبی کام کرسکتے تھے مگر سوال یہ تھا کہ انہیں کس طرح یہ یقین دلوایا جائے کہ امریکہ ان کا ہمدرد ہے؟ اس کام کے لئے پاکستان کی اُس وقت کی قیادت موزوں تھی جو انہیں باور کرواتی رہی کہ روس کے خلاف ہم متحد ہیں ۔
اس انتہاپسندی کی آگ کو پھر لگایا گیا ہے۔ اب سوال یہ بنتا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی سے بچایا اور ایف ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالا کیسے جائے؟ صرف ایک راستہ رہ جاتا ہے کہ ترقی پسند حلقے خود کو اکائیوں میں بانٹنے کے بجائے اکھٹے ہوں اور دہشت گردی سے متاثرہ لوگوں اور قومیتوں کو اکھٹا کرکے ایک بھرپور تحریک کا آغاز کریں جس سے ریاست اور عالمی سطح پر اس دہشت گردی کی مذمت کی جاسکے یہ احتجاج کسی بھی آئینی فورم، میڈیا سورس، لٹریچر اور فنون لطیفہ کے ذریعہ پھیلایا جائے
افغان روس جنگ ختم ہوگئی، افغان امریکہ و پاکستان جیت تو گئے مگر وہ تقویت جو ان مسالک کو انتہاپسند نظریات کو اپنانے کی وجہ سے ملی تھی اب ایک نیا رخ لینے لگی۔ ریاستی سطح پر انتہاپسندی کے پھیلاو سے دو باتیں سامنے آئیں۔ وہابی مسلک کا جہاد اب عالمی اسلامی جہاد میں تبدیل ہوگیا جسے اسامہ بن لادن قیادت کررہا تھا اور اب چونکہ سی۔آئی۔اے کی فنڈنگ کا سلسلہ بند ہوگیا مگر عالمی اسلامی ریاست کا وہ خواب جو یہ مجاہدین لے کر آئے تھے وہ شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا جس نے اس آگ کو افغانستان سے نکال کر پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ جبکہ دیوبندی نظریات کی انتہاپسندی نے مسلکی کشمکش کا آغاز ہوا۔ ان دونوں کے ملاپ نے آئیندہ نسلوں کو ویران کردیا اور پاکستان کو ایک مسلکی متعصب اور تنگ نظر ملک کی حیثیت سے کھڑا کیا۔ افغان جنگ کے بعد یعنی 90ء میں سپاہ صحابہ جیسی تنظیم وجود میں آئی .
پاکستانی ریاست پر یہ الزام ہے کہ اس نے ہمیشہ مذہبی گروپوں کی مختلف پیراؤں میں چاہےوہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی، نہ صرف پزیرائی کی بلکہ انہیں اپنے پراکسی کے طور پر بھی استعمال کیا۔ جماعت الدعوۃ انہی پراکسیز میں سے ایک ہے۔ حالیہ چند سالوں میں چونکہ یہ تمام باتیں میڈیا ریکارڈزپر آ چکی ہیں تو اب ان پراکسیز کے کام کرنے کی حرکیات اور پاکستانی ریاست کے بیانئے میں بھی تبدیلی آئی ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ستر ہزار جانیں ضائع ہونے اور خطے میں ہوئے کئی دہشگردانہ حملوں کی قلعی کھلنے کے بعد ان انتہاء پسند تنظیموں میں پیراڈائم شفٹ نظر آرہا ہے۔ اس سے قبل جہادی نظریہ کی مقبولیت نے جس طرح نہ صرف سیاست کو ہائی جیک کیا اسی طرح تحریک لبیک سمیت ہر دوسرا سیاست دان سیاست کررہا ہے۔ خادم حسین رضوی کی بڑھتی ہوئی انتہاپسندسوچ نظریاتی طور پر کسی بھی صورت شیخ عبداللہ عظام سے کم نہیں ہے ۔ پاکستان میں انتہاء پسندی کے موضوع پر لکھنے والے ماہرین کے مطابق رضوی صاحب کو پاکستانی ریاست میں موجود کچھ حلقوں کی طرف سے باقاعدہ ایک گراؤنڈ مہیا کیا گیا ہے . حالیہ انتخابات میں بھی محض چار ماہ کے عرصہ میں تحریک لبیک پاکستان نے پورے ملک میں اپنے نمائندگان کھڑے کئے بلکہ تحریک انصاف کے بعد امیدواروں کو ٹکٹیں دینے والی دوسری بڑی جماعت تھی۔ یہی نہیں بلکہ لیاری میں اس بار نئے طرز کے مذہبی بیانئےکو پھیلایا گیا اور یوں تحریک لبیک نے کراچی میں سندھ کی صوبائی اسمبلی میں دو نشستیں جیت لیں ۔ ماہرین خبردار کررہے ہیں کہ انتہاء پسندی کی سوچ کو سیاست کے مرکزی دھارے میں پھیلادینے کانتیجہ زیادہ ہولناک ہوگا۔ اگر تو جہادی فکر کی آگ جو بیرونی تھی اس کے پاکستان کو جلا جلا کر راکھ کردیا تو یہ تو اندرونی آگ ہوگی جس میں کون کون نہیں جلے گا۔
چند سالوں بعد یہ باتیں منظر عام پر آتی رہیں کہ مذہبی جہاد اب ریاست کے بس سے نکل کر فرقہ واریت اور عالمی خانہ جنگی میں تبدیل ہوچکا ہے اور امریکہ و پاکستان دونوں کے لئے یہ گلے کی ہڈی بن گیا۔ 11 ستمبر 2001ء کی دوپہر کو جب نیو یارک کے ٹوئن ٹاور زپر دو جہاز آکر ٹکرائے تو شاید پاکستانیوں کو اندازہ ہی نہیں ہوگا کہ یہ تباہی 1980ء کے جہاد کا شاخسانہ ہے جس نے پاکستان کی ریاست کے آئندہ طے پانے والے بیانیہ کو تبدیل کردیا۔ پاکستان میں انہی مذہبی گروپوں کو کھلم کھلا اجازت دی گئی کہ وہ اپنی تبلیغ جاری رکھیں۔محض اس واقعہ کے چند دن بعد ہی رستم شاہ مہمند جو کہ اس وقت افغانستان میں پاکستان کے سفیر تھے اور ان دنوں اسلام آباد میں موجود تھے ، کے پاس طالبان کا اعلی سطحی وفد آیا ۔ اس ملاقات میں جنرل مشرف بھی موجود تھے انہوں نےطالبان وفد کو یقین دہانی کروائی کہ وہ ان کی حکومت کا ہر قیمت پر ساتھ دیں گے جس کے بعد وفد کے سربراہ نے جذباتی ہو کر جنرل مشرف کو گلے لگالیا۔
ضیاء الحق ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور دیوبندی مسلک کے پیروکار تھے ۔ ان نوجوان افغانوں کو اسلام کی سربلندی کی خاطر افغانستان میں جنگ کے لئے تیار کیا گیا جس کے عوض یہ دلیل دی گئی کہ اگر دشمن ملحد (کمیونسٹوں کو ملحد سمجھنے کا رواج بھی تب سے عام ہوا) ہو تواہل کتاب سے جنگ میں اتحاد کیا جاسکتا ہے ۔ یہ دلیل تنگ نظری کے لئے معقول تھی۔ یوں مالی وسائل کی ذمہ داری امریکہ نے لی اور امریکہ نے سالانہ 500 ملین ڈالر مجاہدین کی ٹرینگ کے لئے مہیا کئے۔ لیکن ان مجاہدین کو مزید مجاہد کہاں سے ملتے؟ تو اس کی ذمہ داری پاکستان نے لی۔ پشاور سے قندھار تک ایک گزرگاہ بنائی گئی جسے “مکتب الخدمت” کہا جاتا تھا وہ شیخ عبد اللہ اعظم کے زیر سرپرستی تھی جو کہ اس وقت جدہ چھوڑ کر جہاد کی سربلندی کے لئے پاکستان آئے اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں استاد مقرر ہوئے یہ ایمن الظواہری اور اسامہ بن لادن کے استاد تھے۔ پشاور کے مکتب المجاہدین سے مجاہدین ٹریننگ کے بعد افغانستان بھیجے جاتے تھے۔ نوجوانوں کی ذہنی تربیت کے لئے اس وقت کی ریاست نے دیوبندی و وہابی مکتبہ فکر کو ریاستی سطح تک پھیلایا، ان کا فکری ادب اوران کے مدارس کو ہر اس جگہ میں تعمیر کیا گیا جہاں یہ مسلک عام نہیں تھا۔ اس کی مثال لیاری ہے جو 80ء کی دہائی سے قبل داتار کے مریدین اور پیر و مرشدی مسلک سے منسلک تھے جن میں اکثر ذکری تھے ۔ ان کا جنگ جوئی سے دور دور تک واسطہ نہیں تھا ساتھ ہی 80ء کی دہائی سے پہلے دیوبندی مسلک کی لیاری میں 8 بڑی اور اہلحدیث مسلک کی 2 بڑی مساجد تھیں۔ افغان جنگ کے شروعاتی سال میں ہی لیاری میں مساجد کی تعمیر شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ ان مساجد میں اضافہ ہوتا رہا اور 88ء تک لیاری میں ہی صرف سو سے زائد دیوبندی مسلک کی اور اہلحدیث مسلک کی چھوٹی بڑی مساجد آباد تھیں جہاں سے باقاعدہ جہاد کا پرچار کھلے عام بمع تبلیغ ہوتا تھا ۔ صرف لیاری کے ہی سینکڑوں نوجوانوں نے پشاور سے ٹریننگ لے کر افغانستان میں اس جہاد میں حصہ لیا (یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے) اور کئی اس جنگ میں صرف ہوئے حالانکہ لیاری پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور پیپلز پارٹی کا منشور نہایت معتدل مزاج اور سیکولر ہے۔ یہاں پر اس قسم کی انتہاپسندی کی جڑیں بونے میں میں ضیاء دور کا بڑا ہاتھ ہے۔
فرانسیسی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس جو دنیا میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کے مالی تعاون کے متعلق سالانہ تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتی ہے ،نے اس سال کی رپورٹ میں پاکستان کو ایک بار پھر “گرے لسٹ” میں ڈال دیا جس کا مطلب یہ ہے پاکستان اب بھی دہشت گردوں کی مالی تعاون کرتا ہے یا جو کرتے ہیں ان کو قانونی گرفت میں نہیں لاتا۔ پاکستان متعدد بار اس لسٹ میں شامل رہ چکا ہے اور کئی بار اس پر چیکنگ رپورٹ بھی رہی – . ایف اے ٹی ایف نے جس بات کو بنیاد بنا کر پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا ہے وہ جماعت الدعوۃ کے مراکز کا فنانشل آڈٹ اور حافظ سعید کے متعلق ریاست کا نرم موقف ہے۔ حافظ سعید وہابی مسلک کی عسکری تنظیم کے امیر ہیں جس کا بنیادی مقصد بھارت کے انتظام کشمیر میں جہاد ہے ۔ یہ واحد تنظیم نہیں ہے جس پر پاکستان کا دست شفقت کا الزام ہے بلکہ اورنگزیب فاروقی جیسے دوسرے درجے کے عسکریت پسند شخص کو ریاستی اداروں نے الیکشن لڑنے کے لیے گرین سگنل بھی دیا جو نہ صرف شیعہ نسل کشی میں ملوث ہے بلکہ فرقہ واریت کے پھیلاؤ میں بھی ملوث رہا ہے۔پاکستا ن میں دہشت گردی و انتہاپسندی کے پھیلاؤکی پوری تاریخ ہے جس کے سبب پاکستان کو دہشت گردوں کی معاونت کا الزام درپیش ہے ۔
(اس تحریر کے مصنف وقاص عالم انگاریہ ہے اور وہ جامعہ کراچی میں سیاسیات کے طالبعلم ہیں)
فیس بک پر تبصرے