گومل یونیورسٹی میں بدعنوانی کی کہانی

871

صوبائی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں پی اے سی نے گومل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شفق احمد اور ڈائریکٹر فنانس کو طلب کر کے زائد ادائیگیوں کی وضاحت مانگی تو یونیورسٹی انتظامیہ پانچ کروڑ کی اضافی ادائیگی کی توجیح پیش نہ کر سکی

گومل یونیورسٹی فارن فیکلٹی گیسٹ ہاﺅس اور دیگر تعمیراتی کاموں میں، ٹھیکیداروں کو، اصل رقم سے زائد ادائیگیوں کی پاداش میں سابق وائس چانسلر فرید اللہ وزیر اور اس وقت کے پراجیکٹ ڈائریکٹر دلنواز سے 5کروڑ روپے کی ریکوری کی خبریں، اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں کے علمی زوال کی نشاندہی کرتی ہیں،اس سے قبل چارسدہ کی باچاخان یونیورسٹی اوربنوں یونیورسٹی کے وائس چانسلرز کے خلاف نیب کی کاروائیوں سے بھی عیاں ہوا کہ ہمارا تعلیمی نظام علمی اور اخلاقی مقاصد کھو رہا ہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی افلاس کو اپنی عظمت کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر دولت کے انبار لگانے میں حجاب محسوس نہیں کرتے،اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تعلیم جب تک فرد کی شخصی آرزوں اور اجتماعی ذمہ داریوں میں توازن پیدا نہ کرے اور اساتذہ میں ایسے میلانات کو پروان نہ چڑھائے کہ وہ اپنے کردار کو اجتماعی بہبود کے مطابق بنائیں،اس وقت تک فلاحی معاشرے کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ایک مخصوص طرز عمل جو ہماری سماجی زندگی کی عکاسی کرتا ہے اس میں تو مالی وسائل سے سرشار اہلکار اپنی آخرت سنوارنے کےلئے ہر سال حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنا تو لازمی سمجھتے ہیں لیکن اپنی عملی زندگی میں مذہب کی اخلاقی قدروں کو تسلیم کرتے ہیں نہ ملکی قوانین کو خاطر میں لانے پہ تیار ہیں،کیا ریاست کی قانونی اتھارٹی ادنی و اعلیٰ اہلکاروں کے عزائم کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت کھو چکی ہے؟گومل یونیورسٹی کے متذکرہ اہلکاروں نے 2005ءاور 2012 ءکے دورانیہ میں امپرومنٹ اینڈ ڈیویلپمنٹ فنڈ اور غیرملکی طلباءکیلئے گیسٹ ہاﺅس کی تعمیر سمیت متعدد منصوبوں میں قوائد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر بغیر کسی قانونی جواز کے ٹھیکیداروں کو اصل رقم سے 5 کروڑ سے زائد کی ادائیگیاں کیں،جس پر 2011 ءمیں آڈیٹر جنرل کی خصوصی ٹیم نے آڈٹ پیرا بنا کر ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹنمنٹ کو بھجوایا،خیبر پختون خوا کے ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے مزید تحقیق کےلئے معاملہ صوبائی اسمبلی کی پبلک اکاونٹ کمیٹی کے سپرد کیا،صوبائی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں پی اے سی نے گومل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شفق احمد اور ڈائریکٹر فنانس کو طلب کر کے زائد ادائیگیوں کی وضاحت مانگی تو یونیورسٹی انتظامیہ پانچ کروڑ کی اضافی ادائیگی کی توجیح پیش نہ کر سکی،جس کے بعد پی اے سی نے ذمہ دار اہلکاروں سے پانچ کروڑ کی ریکوری کے احکامات صادر کر دیئے تاہم کمزور انتظامی ڈھانچہ تین سالوں میں بااثر ملازمین سے 5کروڑ کی ریکوری کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔خدا خدا کر کے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر محمد سرور نے اب پی اے سی کے احکامات پر عمل درآمد کی خاطر پروفیسر ڈاکٹر نورعباس دین، ڈین آف سائنسز پروفیسر ڈاکٹر اعجاز احمد خان،ڈین آف ایگریکلچر انجنیئر اقبال زیب،پرووسٹ محمد عرفان خان ، ڈائریکٹر ورکس اور ایڈیشنل رجسٹرار پرویز سلیم مروت پر مشتعمل انکوائری کمیٹی بنائی جس نے سابق وائس چانسلر فرید وزیر اور سابق ڈائریکٹردلنواز خان کو بذریعہ نوٹس طلب کر کے دفاع کا موقعہ دیا لیکن دونوں اہلکاروں نے کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے گریز کیا،انکوائری کمیٹی نے 8 مئی کو انہیں دوبارہ پیشی کا نوٹس جاری کر کے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر دیا،کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ متذکرہ افسران دوسری طلبی پر بھی کمیٹی کے روبرو پیش نہیں ہوں گے،چنانچہ پانچ کروڑ ریکوری کا معاملہ اب سینڈیکیٹ کو منتقل ہو جائے گا،سینڈیکیٹ اگر ریکوری کی منظوری دے سکی تو مبینہ ملزمان عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر کے ریکوری کے معاملہ کو کبھی نہ ختم ہونے والی مقدمہ بازی میں الجھا کر شادہو جائیں گے۔بلاشبہ، ہمارا احتسابی نظام ابھی اتنا توانا نہیں ہوا کہ وہ سفید پوش لٹیروںکو قانون کے کٹہرہ میں لا سکے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ گومل یونیورسٹی کے کئی افسران سرکاری ملازمت کے باوجود براہ راست سیاست کرنے سے نہیں ڈرتے،ہر الیکشن میں وہ سیاسی جماعتوں کے جیتنے والے امیدواروں پر سرمایہ کاری کر کے ان کے اثر و رسوخ اور سیاسی حیثیت کو سرکاری اداروں میں منافع بخش پوسٹوں کے حصول کا ذریعہ بناتے ہیں، یہ کلچر اتنا عام ہو گیا کہ پٹواری اور نائب تحصیلدار سطح کے ملازمین بھی ممبران اسمبلی پر سرمایاکاری کرکے مقتدر سیاسی رہنماوں کو اپنا مطیع بنانے میں یدطولی رکھتے ہیں۔این اے 25 سے تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی داور کنڈی کہتے ہیں کہ سابق وائس چانسلر اور پراجیکٹ ڈائریکٹر سے 5 کروڑ کی کی ریکوری جیسے قانونی مسئلہ کو سیاسی ایشو بنانے کی کوشش کی گئی،جن ملازمین نے گومل یونیورسٹی میں مالیاتی بدعنوانیاں کا کلچر متعارف کرا کے اس عظیم مادر علمی کو معاشی طور پہ کنگال اور تعلیمی لحاظ سے بانجھ بنایا،وہ اب بھی یونیورسٹی کے مقتدر عہدوں پہ براجمان ہیں،داور کنڈی نے کہا کہ تعلیمی نظام کو بدعنوانی کے کینسر سے بچانے کےلئے قومی احتساب بیورو سمیت خفیہ ادارے اس امر کا کھوج بھی لگائیں کہ یونیورسٹی کے جن اہلکار کو سر چھپانے کےلئے ذاتی گھر تک میسر نہیں تھا،وہ صرف چند سالوں میں جائیدادوں کے مالک کیسے بن گئے،انہوں نے کہا کہ انتظامی زوال کی انتہا دیکھئے کہ پانچ کروڑ کی خردبرد میں ملوث اہلکاروں نے مجاز اتھارٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر کے باغیانہ طرز عمل اپنایا لیکن کسی کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی۔ 1974 ءمیں سابق وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو کی ذاتی دلچسپی کے باعث قائم ہونے والی گومل یونیورسٹی ان دور افتادہ منطقوں میں علم و آگاہی کے چراغ روشن کر کے یہاں کی سماجی زندگی اور معاشی ارتقاءپر ناقابل فراموش اثرات مرتب کر رہی ہے لیکن بدقسمتی سے صوبائی حکومتوں کی سیاسی ترجیحات نے خیبر پختونخواہ کی اس دوسری بڑی اور قدیم یونیورسٹی کو گروہی کشمکش کا اکھاڑا بنا کر مالیاتی و انتظامی بحرانوں کے دلدل میں اتار دیا،تاہم بدترین لسانی تفریق کا شکار رہنے کے باوجود 2008 ءتک گومل یونیورسٹی مالی لحاظ سے مستحکم اور انتظامی طور پہ مربوط رہی لیکن 2009 ءمیں یہ عظیم درس گاہ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر منصور اکبر کنڈی کی شاہانہ مزاجی کے بوجھ تلے دب کر مالی مشکلات میں پھنس گئی،مسٹر کنڈی کے بعد ڈاکٹر عنایت اللہ بابڑ کو عارضی چارج دیا گیا تو انہوں نے اپنی سگے بھائی نعمت اللہ بابڑکو پروفیسر پرموٹ کرنے کی خاطر 65 اساتذہ کو اگلے گریڈ میں ترقی دیکر مالی بحران میں پھنسی یونیورسٹی کو ڈھائی کروڑ کے خسارہ سے دوچار کر دیا،جو اب بڑھ کر چار کروڑ سالانہ تک جا پہنچا ہے۔وائس چانسلر ڈاکٹر محمد سرور نے بتایا کہ گومل یونیورسٹی میں اساتذہ سمیت ادنی اسٹاف کی تنخواہیں ملک بھر کی یونیورسٹییز کے اساتذہ اور اہلکاروں سے چالیس فیصد زیادہ ہیں کیونکہ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر فرید اللہ وزیر نے یونیورسٹی کے تمام مقامی اہلکاروں کو وہ ہارڈ ایریا اولاؤنس جاری کر کے اس بدقسمت ادارے کا مالی بوجھ دوگنا کر دیا جو ہارڈ ایریا الاؤنس صرف دور دراز سے آنے والے ملازمین کےلئے مختص تھا۔اٹھارویں ترمیم کے بعد ہائر ایجوکیشن سسٹم صوبائی حکومتوں کے حوالے ہوا تو عوامی نیشنل پارٹی کی گورنمنٹ نے یونیورسٹی ماڈل ایکٹ بنا کر پہلے، پری آڈٹ،نظام کی بساط لپیٹی،پھر چارسدہ،مردان،صوابی،سوات ،کوہاٹ اور بنوں یونیورسٹی کو اربوں کی گرانٹ ریلیز کرکے اپنے انتخابی حلقوں کو نوازا لیکن گومل یونیورسٹی جیسے مستحق تعلیمی ادارے کو پھوٹی کوڑی نہ ملی۔سال 2013 ءمیں تحریک انصاف کے سٹی ایم پی اے علی امین گنڈہ پور کی کوششوں سے وزیر اعلیٰ نے گومل یونیورسٹی کےلئے 36 کروڑ کی خصوصی گرانٹ منظورکی لیکن فنانس ڈیپارٹمنٹ نے بغیر کسی قانونی جواز کے اسے قرض میں بدل کر قسط وار ادائیگی کا مشروط شڈول بنا دیا،جس کی پیچیدگیوں کے باعث اس محدود گرانٹ کا بڑا حصہ تاحال ریلیز نہیں ہو سکا۔ممبر قومی اسمبلی مولانا فضل الرحمٰن نے یونیورسٹی کے حالیہ دورہ کے دوران گومل یونیورسٹی کےلئے دو ارب کی گرانٹ منظور کرانے کی امید دلائی لیکن ان کی مساعی مقامی سیاست کی مصلحتوں میں الجھ کر معدوم ہو گئی،واقفان حال کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن گومل یونیورسٹی کی زرعی فیکلٹی کو زرعی یونیورسٹی کا درجہ دلا کر اپنے والد مغفور کے نام سے منسوب کرانے کی کوشش میں مصروف ہو کر موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا گومل یونیورسٹی کی بقاءجیسے مسائل کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...