مری کی سیاسی صورتحال

1,265

جوں جوں  الیکشن کے دن قریب آ رہے ہیں   ملک بھر کی طرح  مری  میں  بھی سیاسی گہما گہمی  میں  اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور   روایتی ٹھنڈ کے لیے مشہور   ملکہ کوہسار  کے سیاسی درجہ حرارت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعد  اب مری کا حلقہ این اے 50سے تبدیل ہو کر  این اے  57  ہو گیا ہے، جس میں کوٹلی ستیاں ،کلراور کہوٹہ بھی  شامل ہیں ۔این اے  57 کا شمار ملک کے ان چند اہم حلقوں میں ہوتا ہے جہاں     ملکی و غیرملکی میڈیا کی توجہ مرکوز ہے، حلقے  کا سابقہ  انتخابی ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ مسلم لیگ( ن) اس حلقے کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے اور ہمیشہ بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرتی رہی ہے،سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا تعلق بھی اسی حلقے سے ہے۔

اگر  حلقے  کی انتخابی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے  ووٹرز کے سیاسی رجحان کا جائزہ لیا جائے تومجموعی طور پر  دو بڑے رجحان سامنے آتے ہیں، جنہیں ہم  مسلم لیگ اور اینٹی مسلم لیگ میں تقسیم کر سکتے ہیں  جس میں تین عشروں  سے   مسلم لیگ (ن) کا پلڑا بھاری چلا آ رہا ہے۔اس کے مقابلے میں اینٹی مسلم لیگ رجحان کی نمائندہ جماعت پاکستان پیپلزپارٹی چلی آرہی ہے،لیکن حالیہ انتخابات میں  یہ رجحان خاصا تبدیل ہو ا ہے   ،اس رجحان کو ہم چاہیں تو  سٹیٹس کو(وضع کینونی) اور تبدیلی کا رجحان   کہہ سکتے ہیں،دوسرے لفظوں میں ماضی میں جو دو رجحانات مسلم لیگ اور اینٹی مسلم لیگ کی شکل میں آمنے سامنے ہوتے تھے اس مرتبہ وہ سٹیٹس کو اور تبدیلی کی صورت میں  مدمقابل ہیں۔

سٹیٹس کو کی نمائندہ جماعت  مسلم لیگ(ن) ہے جس کے نامزد امیدوار سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور پی پی 6  سے راجہ اشفاق سرور  ہیں،اس  تقسیم کے مطابق پیپلز پارٹی بھی  اسی رجحان کی نمائندہ جماعت سمجھی جائے گی  کہ ماضی میں  حلقے کے عوام اسے بھی   آزما چکے ہیں۔ان کے مد مقابل  تبدیلی  کے لیے دو جماعتیں کھڑی ہیں،ایک پاکستان تحریک انصاف جس کی نمائندگی صداقت علی  عباسی  اور ان کے پینل میں  پی پی  6  سے میجر لطاسب ستی کر رہے   ہیں ،اسی رجحان  یعنی تبدیلی کے لیے  دوسری جماعت مذہبی سیاسی  جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل  متحدہ مجلس عمل   ہے جس نے اپنا امیدوار صرف پی پی  6 سے  نامزد کیا ہے  اور این اے  57 کی سیٹ کو خالی رکھا ہے۔پی پی 6  سے  ایم ایم اے کے انتخابی نشان کتاب پر  جماعت اسلامی کے سجاد عباسی الیکشن لڑ رہے ہیں۔

ماضی میں  حلقے کے عوام   اکثر و بیشتر سٹیٹس کو   کی نمائندہ  جماعت مسلم لیگ(ن)  کو بڑے مارجن سے کامیاب کرا  کر  اسمبلی میں بھیجتے رہے   تاکہ ان کے نمائندہ   اسمبلی کے فورم پر علاقہ اور عوام کے مسائل رکھیں  اور ان کے حل کے لیے اقدامات اٹھائیں  لیکن  حقیقت  یہ ہے کہ  سوائے انفرادی مسائل کے حل کے   خطے کی مجموعی   فلاح و بہبود کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا،یہاں تک کہ شاہد خاقان عباسی  کو وزارت عظمیٰ کا منصب بھی ملا  جس سے  مری کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی  اور حلقے کے لوگوں میں یہ امید پیدا ہوئی  تھی      کہ جناب وزیراعظم  اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے    حلقے  کی محرومیوں کا ازالہ کریں گے،علاقے کی تعمیر و ترقی  اور سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات کریں گے اور حلقے کے باسیوں  کو اپنی دہلیز پر اعلیٰ تعلیم  اور صحت کے وسائل  مہیا کریں گےلیکن  صد افسوس کہ ایسا کچھ نہ ہو سکا اور   شاہد خاقان عباسی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھ کر بھی اپنے حلقے کے لیے کسی میگا پروجیکٹ کا اعلان  تک نہیں  کر سکے حالانکہ ان کے پیش رو میاں نواز شریف   نے 2013  کے انتخابات کے فوراً بعد  ہی مری میں  ایک   جدید طرز کا ہسپتال اور پنجاب یونیورسٹی کا کیمپس قائم کرنے کا اعلان کیا تھا ۔

یہ بات درست ہے کہ  شاہد خاقان عباسی نے اپنے  پیش رو کی جانب سے ملکی سطح پر شروع کیے گئے  ترقیاتی منصوبوں کو جاری رکھا  اور اپنی ذمہ داریوں کو  بخوبی سرانجام دیا  یہاں تک کہ انہیں  ملک کا فعال اور متحرک وزیراعظم بھی قرار دیا گیا اور ملکی و عالمی سطح پر  انہوں   نے شخصی احترام کو سمیٹا اور قد کاٹھ میں اضافہ کیا لیکن   اس سب کے باوجود ان کے ووٹرز کو یہ گلہ ہے کہ اس سارے عرصے میں  جناب وزیراعظم  نے انہیں   فراموش کیے رکھا ۔یہ و ہ صورتحال ہے جو مسلم لیگ (ن) کے لیے چیلنج ہے اور دائیں بازو کے ووٹرز کے لیے ناراضگی کا سبب ہے اور ایک بڑی تعداد  اپنی سڑک ،گیس اور پانی   کے مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے شکوہ کناں ہے ۔

دوسرے رجحان یعنی تبدیلی کی نمائندگی  تحریک انصاف اور ایم ایم اے کر رہی ہیں،تحریک انصاف کے صداقت عباسی کو کافی مقبولیت حاصل ہو رہی ہے ۔ البتہ ان کے پینل کے  پی پی 6سے امیدوار میجر لطاسب ستی کی پوزیشن  خاصی کمزور ہے۔پی ٹی آئی کے کارکنان بھی یہ سمجھتے ہیں کہ  لطاسب ستی جیسی گمنام  اور غیر معروف شخصیت کے بجائے اگر سردار سلیم  کو  نامزد کیا جاتا تو  صورتحال مختلف ہوتی  لیکن بہرحال اس وقت  لطاسب ستی ہی پی ٹی آئی کے متفقہ امیدوار ہیں۔

اسی رجحان  کی دوسری اہم نمائندہ جماعت متحدہ مجلس عمل  ہے جس کے ٹکٹ پر جماعت اسلامی کے کے سجاد  عباسی میدان میں ہیں اور  پی پی 6   پر تحریک انصاف کی کمزوری کا   بھرپور فائدہ  اٹھا رہے ہیں۔مری کے مذہب پسند عوام   ایم ایم اے کی جانب سے   این اے 57 کے لیے کسی امیدوار کے سامنے نہ آنے  کی وجہ سے ایک خلا محسوس کر رہے ہیں،ایک طرف وہ سٹیٹس کو  سے تنگ ہیں  اور دوسری طرف ان کی مذہب پسندی انہیں  پی ٹی آئی جیسی لبرل جماعت کی طرف بھی جانے سے روکتی ہے۔   اس صورت میں  دائیں بازو کا یہ  ووٹر   اضطراب  کی کیفیت  میں ہے۔اگر مری کی تمام مذہبی جماعتوں  کی قیادت مل بیٹھ کر کوئی فیصلہ کرتی  اور بڑی سیٹ کے لیے بھی اپنا  امیدوار نامزد کرتی تو    مذہبی اتحاد کی پوزیشن اور بھی مستحکم ہوتی۔

اس موقع پر مری کی مذہبی جماعتوں سے درج ذیل   چار ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں   کہ اگر ان کا صدور نہ ہوتا تو  قومی و صوبائی اسمبلی کی دونوں سیٹیں ان کے پاس آنے کے امکانات روشن تھے :

کالعدم سپاہ صحابہ کے حمایت یافتہ  عزم انقلاب گروپ  کا  اچھا خاصا ووٹ بنک ہے  جسے مذہبی اتحاد میں شامل نہیں کیا گیا حالانکہ متحدہ مجلس عمل مری میں اہل تشیع کی نمائندگی بالکل بھی نہیں ہے اس لیے اس ایک حلقے کی حد تک  انہیں  قائل کیا جا سکتا تھا کہ وہ مجلس عمل میں  شامل  ہوں  یا کم از کم اس کی حمایت کا اعلان کر دیں۔اس وقت ایم ایم اے مری کے صدر قاری سیف اللہ سیفی ہیں  جنہیں مری کے  تمام طبقات میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،اگر ان کو این اے 57کے لیے ٹکٹ دیا جاتا تو  عزم انقلاب گروپ  کی تائید حاصل کرنا کوئی مشکل امر نہ تھا۔

دوسری غلطی عزم انقلاب گروپ سے ہوئی کہ اس نے    کم از کم علاقائی حد تک فکری و نظریاتی طور پر  قربت رکھنے  والی دینی قیادت  کے بجائے  اپنا وزن مخالف   فکر رکھنے والی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے پلڑے میں ڈالا۔

تیسری غلطی جمعیت علمائے اسلام کی قیادت سے ہوئی کہ  ایم ایم اے کے سیاسی اتحاد کی موجودگی میں  کسی بھی  سیاسی جماعت کی حمایت کا فیصلہ الگ حیثیت سے کیا،اگرچہ جے یو آئی الگ سیاسی شناخت بھی رکھتی ہے لیکن اس الیکشن میں  جب متحدہ مجلس عمل  کا پلیٹ فارم موجود تھا تو چاہیے  یہ تھا کہ تمام سیاسی فیصلے  اسی پلیٹ فارم سے ہی  کیے جاتے۔

چوتھی غلطی بھی جے یو آئی سے ہی ہوئی کہ قومی اسمبلی کی سیٹ پر  اس سٹیٹس کو کی  نمائندہ جماعت  مسلم لیگ(ن) کی حمایت کا اعلان کر دیا جس کا وہ  صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے مقابلہ کر رہی ہے۔حمایت کے اس اعلان کے بعد جے یو آئی   پی پی 6 پر کس بنیاد پر ن لیگ کی مخالفت کرے گی جبکہ  این اے  57میں  اسی ن لیگ کے لیے ووٹ مانگے گی؟یہ ویسی ہی غلطی ہے  جو  2008  کے عام انتخابات میں مولانا احمد لدھیانوی نے کی تھی کہ  قومی اسمبلی کی سیٹ پر  مسلم لیگ(ق) کی جانب سے شیخ وقاص   کے  مد مقابل تھے  جبکہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر وہ سائیکل کے  انتخابی نشان پر ہی الیکشن لڑنے والے شیخ یعقوب  کو سپورٹ کر رہے تھے۔مخالف پارٹی   کے  کسی امیدوار کو اپنے حق میں دستبردار کروا کر دوسری سیٹ پر اس کی حمایت کرنا تو معقول ہے اور  فی زمانہ سیاست میں رائج بھی  لیکن  ایک ہی حلقے میں  دوسری جماعت کے خلاف اپنا امیدوار بھی کھڑا کرنا اور پھر اسی مخالف  جماعت کے اسی حلقے میں  نامزد امیدوار کی حمایت   بھی کرنا  ناقابل فہم ہے چاہے کچھ بھی شرائط رکھی گئی ہوں۔

اس باب میں سیاسی طور پر غیر مقبول فیصلے کرنے  کی شہرت رکھنے والی جماعت اسلامی  کی پالیسی دانشمندانہ ہے کہ  اس نے قومی اسمبلی سے اپنا امیدوار نہ ہونے کی وجہ سے   اپنے  ووٹرکے لیے  میدان کھلا رکھا ہوا ہے کہ  وہ پی پی 6 میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے ان کے امیدوار کو کامیاب  کرائے جبکہ قومی اسمبلی کے لیے  اپنے رجحان اور حالات کے مطابق فیصلہ کرے۔اس طرح ایک بڑی تعداد ایسے ووٹرز کی  ہے جو پی پی 6سے تو   مجلس عمل کے امیدوار کو انتہائی موزوں اور  اہل قرار دیتے ہوئے اس کو سپورٹ کر رہے ہیں لیکن  قومی اسمبلی کے لیے کچھ  شاہد خاقان عباسی کو اور کچھ صداقت عباسی کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔یہ سجاد عباسی کی دیانت دار اور  بدعنوانی سے پاک    شخصیت  کا کرشمہ ہے کہ  عزم انقلاب گروپ کے بہت سے جوان بھی اپنی قیادت کے فیصلے کے برعکس  انہیں ہی سپورٹ کر رہے ہیں اور  متعدد دیہاتوں   سے بڑی تعداد میں نوجوان اور برادریوں کی برادریاں  ان کی حمایت کا اعلان کر رہی ہیں جس سے بخوبی اس بات  کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مذہبی قیادت  غلطیوں کے باوجود   دانشمند امیدوار سامنے لانے کی وجہ سے  نہ صرف مزید نقصان سے بچ گئی  بلکہ کافی حد تک  غلطیوں کا ازالہ بھی کر گئی۔

اب    این  اے 57 سے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو اپنی سیٹ  بچانے کا چیلنج درپیش  ہے جبکہ پی پی 6  سے متحدہ مجلس عمل کے امیدوار سجاد عباسی سرپرائز دے سکتے ہیں۔حتمی طور پر  پردہ مستقبل میں کیا مستور ہے؟ اس کے لیے ہم سب کو 25  جولائی کا انتظار کرنا ہو گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...