مسئلہ فلسطین،چارشہزادے اور صدی کی سب سے بڑی ڈیل

1,462

گزشتہ ہفتے ڈیوک آف کیمبرج  شہزادہ  ولیم  نے مشرق وسطیٰ کا تاریخی دورہ کیا  جس میں  شہزادے  نے  مشرق وسطیٰ کےحالات کا بالعموم اورامریکی سفارتخانے کی القدس منتقلی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا  بالخصوص جائزہ  لیا  ۔ اس دورے کی خاص بات شہزادے کا اسرائیل   اور فلسطین جانا تھا جو کہ کسی بھی  برطانوی شاہی رکن کا پہلا سرکاری دورہ تھا۔واضح رہے کہ  اسرائیل کے قیام سے قبل تین عشرے تک  القدس برطانیہ کی تفویض میں  رہا اور یہی وہ عرصہ تھا جس میں اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار ہوئی۔ اس لیے  فلسطین سمیت  تمام عرب دنیا  برطانیہ کو ہی موجودہ صورتحال کی ذمہ دار سمجھتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ برطانوی شاہی خاندان  کا کوئی فرد بھی  اسرائیل کے قیام سے آج تک   سرکاری دورے پر اسرائیل نہیں گیا۔

برطانوی شہزادے کا یہ دورہ اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ انہوں نے ایسے وقت میں اسرائیل و فلسطین جانے کا فیصلہ کیا جب کہ فلسطین میں قیام امن کی  کوششیں تیز تر ہو گئی ہیں اور   ان کی آمد سے قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ، امریکی صدر کے داماد جارڈ  کشنراور فلسطینی     انٹیلی جنس کے سربراہ  ماجد  فرج  نے الگ الگ  اردن کے اہم دورے کیے۔جس کے بعد اردن کے فرمانروا  شاہ عبداللہ دوم  واشنگٹن روانہ ہو گئے تاکہ امریکی  صدر  ڈونلڈ ٹرمپ سے تازہ صورتحال پر بات چیت کی جاسکے۔برطانوی شہزادے نے اردن سے ہی اپنے دورے کا آغاز کیا اور اس کے بعد اسرائیل روانہ ہو گئے،انہوں  نے  القدس کے اسی کنگ داؤد ہوٹل میں قیام کیا  جہاں تفویض کے زمانہ میں برطانیہ  کا مرکزی دفتر تھا اور1946 میں بعض شدت پسند یہودیوں نے برطانیہ کو اسرائیل کے قیام میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے     حملہ کر کے بیسیوں برطانوی شہریوں کو قتل کر دیا تھا۔برطانوی شہزادے کے قیام کے لیے کنگ داؤد ہوٹل کا انتخاب کا یہی مقصد معلوم ہوتا ہے کہ  عربوں  کے غصہ کو ٹھنڈا کیا جائے اور انہیں یاد دلایا جائے کہ اسرائیل کے قیام کے وقت یہودی برطانیہ کو اپنا دشمن سمجھتے تھے۔

امریکی صدر نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد   مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے  فیصلہ کن کوششوں کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا   کہ ان کے داماد  جارڈکشنر  جنہیں  اس صدی کا لارنس  آف عریبیہ  بھی کہا جاتا ہے  وہ  کام کر دکھائیں گے جو ان سے پہلے کوئی نہیں  کر سکا،انہوں نے عربوں کے  ساتھ جو ڈیل کی  اسے ،ڈیلوں کی ڈیل،صدی کی ڈیل،ٹرمپ ڈیل،صدی کی سازش اور فیصلہ کن ڈیل جیسے مختلف نام دیے جا رہے ہیں اور اس ڈیل کو سامنے لانے کی متعدد تاریخیں دی جا چکی ہیں،  لیکن تاحال  ایسی کسی ڈیل کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا۔ تاہم  ڈیل کے اہم کرداروں کی جانب سے  چار شہزادے میدان میں اتر چکے ہیں۔ عربوں کی نمائندگی سعودی ولی عہدشہزادہ محمد بن سلمان اور اردنی  ولی عہدشہزادہ حسین بن عبداللہ جبکہ  دوسری جانب سے  صدر ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر اور برطانوی شہزادے ولیم شامل ہیں اور ان کے حالیہ دورے کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

فلسطین میں قیام امن  کی کوشش  کے عنوان سے   چار شہزادوں پر مشتمل  جو ٹیم سامنے آئی  اس  کی قیادت   جارڈ کشنر کر رہے ہیں جو کہ غالی یہودی ہیں اور ان  کے بارے میں بجا طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ امریکہ سے زیادہ اسرائیل کے نمائندے معلوم ہوتے ہیں۔ برطانوی شہزادے  ولیم اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ان کے ہمنوا  ہیں ۔البتہ اردن کی جانب سے  کافی مزاحمت سامنے آئی لیکن  عالمی قوتوں نے عربوں کی حمایت سے اردن کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا   اور   اردن میں ایسے حالات پیدا کیے، جس کے بعد  شاہ عبداللہ کے لیے   مزاحمت جاری رکھنا ممکن  نہیں  رہا ۔

اس طرح اب ٹرمپ  ڈیل کے اعلان کے لیے کافی حد تک زمین ہموار ہو چکی ہے اور کسی بھی وقت   ٹرمپ ڈیل کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ فلسطین  کو شامل کیے بغیر اس ڈیل  کی کیا حیثیت ہو گی؟  طاقت کے بل بوتے پر اصل اسٹیک ہولڈر  کو  اعتماد میں لیے بغیر کسی قسم کی بھی ڈیل  دولہے کے بغیر بارات کے مترادف ہو گی۔ڈیل کرنے والوں کا مقصد  اگر واقعی فلسطین میں امن قائم کرنا ہے تو  ضروری ہے کہ  فلسطینی حکومت اور حماس  کے موقف کو بھی اہمیت دی جائےبصورت دیگر یہ مسئلہ لاینحل ہی رہے گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...