مجھے کیوں نکالا؟ نوازشریف نے وجہ بتا دی

1,114

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے پہلی بار اپنے اقتدار سے نکالے جانے کی وجہ بتائی ہے، جس کے بعد مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف سمیت کچھ اہم رہنما ایک نئی الجھن کا شکار ہوگئے ہیں۔ احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم سے لندن فلیٹس سے متعلق ریفرنس میں 127 سوالات میں سے ایک سیاسی نوعیت کا سوال بھی پوچھا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کے نکالےجانے کے بعد آپ کے خلاف ریفرنس کیوں بنائے گئے؟

جب میں نے نواز شریف سے یہ دریافت کیا تو انہوں نےبلاتاخیرایسا جواب دیا جو غیر متوقع تھا۔ یہی سوال اس سے قبل میں کئی بار پوچھ چکا تھا لیکن انہوں نےہربات یہ کہہ کرٹال دیا کہ وہ مناسب وقت پرضرور بتائیں  گے۔ احتساب عدالت میں میرے ساتھ کیے گئے وعدوں میں سے یہ پہلا وعدہ ہے جو نوازشریف  نے پورا کیا ہے۔ ابھی وکیل صفائی کیسے اور کن الفاظ میں ان باتوں کو زیب قرطاس کرتے ہیں، اس کا انتظار مجھ سمیت خود نوازشریف کو بھی ہے۔

نواز شریف کہتے ہیں کہ انہوں نے اس سوال کی تیاری روز اول سے کر رکھی ہے اور انہیں خوب معلوم ہے کہ انہیں کیوں نکالا گیا؟ شاید نوازشریف اس وقت کا ہی انتظار کررہے تھےجسے وہ مناسب وقت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس سے قبل یہ وقت سابق وزیراعظم پرگزرچکا ہے۔ آرمی چیف جنرل مشرف نے انہیں اقتدار سے نکال باہر کیا تو انہیں مقدمات میں ان کے خلاف ٹرائل کا آغازہوگیا۔ اٹک قلعے میں ہونے والا یہ ٹرائل موجودہ ٹرائل سے کئی طرح سے مماثلت رکھتا ہے۔ بظاہر گذشتہ آٹھ ماہ سے نوازشریف پروٹوکول میں احتساب عدالت میں پیش ہوتے ہیں اور کچھ دیر سماعت کا حصہ بننے کے بعد دوبارہ گھر کا رخ کرتے نظر آتےہیں لیکن ان کے بقول یہ حالات مارشل لاء کے دور میں بھی نہیں دیکھے۔ وہ اٹک قلعے ٹرائل سے بھی اپنے اس احتساب کو بدتر سمجھتے ہیں۔ ان کو عدالتوں سے انصاف کی اتنی امید بھی باقی نہیں رہی جتنی مارشل لاء کے دور میں کام کرنے والی عدالتوں سے وابستہ تھیں۔

اس سوال کا سامنا انہیں اٹک قلعے میں بھی تھا جب وہ طیارہ ہائی جیک کیس کا سامناکر رہے تھے۔ اس سوال کا جواب نوازشریف نے صاف صاف الفاظ میں دیتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کے اوپراس وقت کے آرمی چیف جنرل مشرف کے کہنے پر مقدمات بنائے گئے اور جی ایچ کیو میں اس بارے میں پلاننگ کی گئی۔ انہوں نے براہ راست راولپنڈی کو اپنے نکالے جانے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ اب نوازشریف کا موقف پہلے سے کہیں سخت ہے۔

نوازشریف کے خیال میں وہ سب کے نشانے پر ہیں اورکوئی ایسا کیس نہیں جس میں انہیں ہدف نہ بنایا جارہا ہو۔ کمرہ عدالت میں اپنے وکیل سے بریت کی درخواست پر مشورہ کرتے ہوئے انہوں نے استفسار کیا کہ ریلیف ملنے کے کتنے فیصد امکانات ہیں؟ وکیل خود اپنے موکل کے مستقبل کے بارمیں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہیں۔ جواب آیا یہاں سے مسترد ہونےکے بعد درخواست ہائی کورٹ جائے گی اور پھر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکٹھائیں گے۔ نواز شریف نے برجستہ جواب دیا پھر وہاں سے بھی خارج ہوجائے گی۔ اس طرح فوری طور پر بریت سے متعلق درخواست دینے کا پلان التواء کا شکار ہوگیا۔ نواز شریف اپنے وکیل خواجہ حارث سے بہت مطمئن  اور خوش نظر آتے ہیں۔ اگرچہ نوازشریف نے خود ہی یہ پیشگوئی بھی کر رکھی ہے کہ انہیں جیل ڈالا جائے گا لیکن انہیں یہ بھی لگتا ہے کہ ان مقدمات کی بنیاد پر ان کو زیادہ عرصہ پابند سلاسل نہیں رکھا جاسکتا۔

ایک دن خواجہ حارث سے مخاطب ہوکر کہا یہ مقدمات جیت جائیں گے تو پھرخواجہ صاحب ہم آپ کےاعزازمیں PML-N پارٹی بھی کریں گے اوروہ پارٹی اس سے بھی بڑی ہوگی۔ ایک دن خواجہ حارث نے مریم نوا کو نانی بننے پر مبارکباد دی اورپھر نوازشریف کو بھی کہا کہ مبارک ہو۔ نوازشریف نے مسکراتے ہوئے کہا کیا یہ اس کیس کے جیتنے کی مبارکباد ہے؟ پانامہ ریفرنسز میں نیب کی طرف سے پیش ہونے والے گواہان کے بارے میں ان کی رائے ہے کہ وہ ان کے حق میں گواہی دے کر گئے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ کیا پھرآپ ان گواہان کو اختیار کرنے سے متعلق احتساب عدالت میں باقاعدہ درخواست بھی دائر کریں گے یا اب بھی اپنی صفائی میں کوئی گواہ لے کر آئیں گے؟ مسکراہٹ کے بعد سوال کےدوسرے حصے کا سنجیدگی سے جواب دیا کہ نئے گواہان سے متعلق فیصلہ میرے وکلاء نے کرنا ہے۔

مجھے کیوں نکالا کی وجوہات کا تعین کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ وہ اپنے جواب میں یہ سب باتیں لکھ رہے ہیں۔ جب اپنی ڈائری پر نظر ڈالی تو پھرڈان لیکس سے لے کر 2014 کے دھرنوں سمیت ہر موضوع پر نظر پڑی جو رسمی یا غیررسمی گفتگوکے دوران نوازشریف زیربحث لائے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...