پختون تحفظ موومنٹ: حقوق کی جنگ یا غداری

1,619

درپردہ قوتوں کی ان تھک کوششوں کے باوجود پختون تحفظ موومنٹ پشاور میں عظیم الشان جلسہ منعقد ہونے میں کامیاب رہی، جس میں پی ٹی ایم کی قیادت نے اپنے مطالبات پر ثابت قدم رہنے اور اپنی جدوجہد کو مزید مؤثر اور منظم انداز میں آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ تحریک طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان، سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف سمیت ان تمام عناصر جو پختون قوم پر ہونے والے مظالم میں شریک رہے انکا سدباب کیا جائے۔جلسے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی جس میں کثیر تعداد ان افراد کی تھی جو گزشتہ کئی برسوں سے پراسرار طور پر غائب ہونے والے اپنے پیاروں کی راہ تک رہے تھے۔ جلسہ گاہ کے اطراف میں قریبی عمارتوں کی دیواریں ان گمشدہ افراد کی تصاویر پر مشتمل بینرز سے بھری ہوئیں تھی ، گمشدہ افراد کا ریکارڈ جمع کرنے کے لیے  جلسہ گاہ میں خصوصی ڈیسک قائم کیے گئےتھے، جس میں پی ٹی ایم کے اہلکار گمشدہ افراد کے بارے میں معلومات حاصل کررہے تھے۔ گمشدہ افراد کی بازیابی کی آس لگائے جلسے میں آنے والوں میں سے خیبرایجنسی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے اپنی روداد بیان کی تو جلسہ گاہ میں جیسے سکتہ طاری ہوگیا اور ہر جانب رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے، مذکورہ خاتون نے اپنے مجازی خدا کی گمشدگی کا درد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کا خاوند فلور مل میں مزدوری کررہا تھاجب سیکورٹی فورسزنے اٹھایا اسکے پانچ بچے ہیں جن میں سے دو بچے کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں، ساس بھی کینسر کی مریضہ ہیں ، خاوند کی گمشدگی کے بعد پورے خاندان کی وہ والد کفیل ہیں جو حالات سے مجبور ہوکر دوسرے کے سامنے ہاتھ پھیلا کر اپنے اہل خانہ کی کفالت اور علاج کرارہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی شہری کیلئے ریاست ایک ماں کا درجہ رکھتی ہے، میرے بچے تعلیم سے محروم ہوگئے ہیں، دو وقت کی روٹی کیلئے لوگوں کے سامنے جھولی پھیلانے پر مجبور ہیں ، کیا کوئی ہے جو انہیں تعلیم دلائے، انکا علاج کرائے اور انکے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرے۔

2016 میں جنوبی وزیرستان میں آئی ڈی پیز کی واپسی کے بعد سیکورٹی فورسز اور شدت پسندوں کی جانب سے اپنی حفاظت کیلئے بچھائی گئی بارودی سرنگوں کے خاتمے کے لیے محسود قبیلے کے نوجوانوں نے محسود تحفظ موومنٹ کا آغاز کیا، نرم مزاج اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان منظور پشتین کی قیادت میں شروع ہونے والی اس تحریک کا مقصدپولیٹکل ایڈمینسٹریشن اور سیکورٹی فورسز کو ان باردوی سرنگوں کے خاتمے پر مجبور کرنا اور عوام میں اس حوالے سے شعور اجاگر کرنا تھا۔
جون 2017کے بعد سے اب تک صرف محسود قبائلی علاقے میں باروی سرنگوں کے دھماکوں کے 75 سے 80 واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں 18 افراد جاں بحق اور 60 سے زائد افراد شدید زخمی ہوئے۔متاثرین میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے، بارودی سرنگوں کے دھماکوں کے نیتجے میں زخمی ہونے والے بیشتر افراد ہاتھ یا بازو سے محروم ہوچکے ہیں۔ بدقسمتی سے زیادہ تر بارودی سرنگیں گھروں یا حجروں میں نصب کی گئیں ہیں جو ماضی میں کبھی شدت پسند عناصر یا بعد ازاں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کے زیر استعمال رہے ہیں۔13 جنوری 2018 کو کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ  محسود کے قتل میں ملوث پولیس افسران کی گرفتاری کے مطالبے کی بنیاد پر یہ تحریک محسود تحفظ موومنٹ سے پختون تحفظ موومنٹ میں تبدیل ہوئی ، پختون تحفظ موومنٹ کے روح رواں منظور پشتین اس سے قبل 2014 سے 2016 تک قبائلیوں کی طلباء سیاست میں بھی متحرک رہے ہیں۔

منظور پشتین اور انکے حامیوں نے پہلا مظاہرہ قبائلی خواتین کے روایتی لباس میں ملبوس فوجی اہلکاروں کے ڈانس کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے خلاف کیا۔ اس مظاہرے نے فوجی حکام کو معذرت کرنے اور واقع میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کاروائی کی یقین دہانی کرانے پر مجبور کردیا تھا۔محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے اور ان کے مسائل میڈیا کے توسط سے اجاگر کرنے کی اس جدوجہد میں محسود قبیلے کے ایک اور نوجوان “جلال” نے منظور پشتین کا بھرپور ساتھ دیا۔ انہوں نے فرنٹیر کرائمز ریگولیشن کے تحت محسود قبیلے کے عمائدین کے خلاف کارروائیوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جس کے جواب میں پولیٹیکل ایڈمنسٹریشن نے فوجی حکام کی ہدایت کے مطابق انکے خلاف کارروائی کا آغاز کیا لیکن پورے علاقے میں شدید ردعمل سامنے آنے کے باعث یہ اقدام کامیاب نہ ہوسکا۔کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں محسود قبیلے کے نوجوان نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل نے منظور پشتین کی جدوجہد کو مزید دوام بخشا، اس نے اور اس کے ساتھیوں نے پورے فاٹا، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور کراچی میں بھرپور احتجاجی مظاہرے کیے اور وہ ناصرف عام عوام بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان، میڈیا اور پارلیمنٹرینز کی توجہ بھی پشتون قوم بالخصوص قبائلی عوام کے مسائل کی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ نقیب اللہ محسود کی تدفین مکمل ہونے کے بعد منظور اور اسکے ساتھی ڈیرہ اسماعیل خان آئے اور طویل مشاورت کے بعد 25 جنوری 2018کو پورے خیبرپختونخوا سے اسلام آباد کی جانب ریلی نکالنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنی ریلی کا آغاز ڈیرہ اسماعیل خان سے کیا اور پھر بنوں، کرک، کوہاٹ، پشاور، صوابی اور مردان سے ہوتے ہوئے یکم فروری کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد پہنچے۔

پختون تحفظ موومنٹ کا یہ دھرنا پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوگیا اور ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے نہ صرف دھرنے میں شرکت کی او ان سے خطاب کیا بلکہ دھرنے کے شرکاء کے مطالبات جن میں نقیب  اللہ محسود کے قاتلوں کی جلد از جلد گرفتاری، گمشدہ افراد کی بازیابی اور فوجی اہلکاروں کی جانب سے فاٹا کے عوام کے ساتھ جاری بدسلوکی کے خاتمے کی مکمل حمایت کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ حکومت اور عسکری حکام نے انہیں دھرنا ختم کرنے کے لیے  قائل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ بلاآخر 10 فروری 2018کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے مشیر کے ذریعے تحریری معاہدہ کرکے انہیں منتشر ہونے پر قائل کرلیا۔

حکومت سے معاہدہ کرنے اور وزیراعظم کی جانب سے مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی کرائے جانے کے بعد دھرنا تو ختم ہوگیا لیکن منظور پشتین اور انکے ساتھیوں نے پختونوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے منظم تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ دوسری جانب حکومت اور حساس اداروں سے منسلک عسکری حکام نے پختون تحفظ موومنٹ اور اس کی قیادت کی ساخت کو نقصان پہنچانے کیلئے مہم کا آغاز کیا اور پختون تحفظ موومنٹ کے مقابلے میں پاکستان زندہ باد موومنٹ کے نام سے ایک پراسرار تنظیم کو میدان میں اتارا ، مذکورہ تنظیم نے چند ہی روز خیبرپختونخوا اور فاٹا کے مختلف علاقوں میں پختون تحفظ موومنٹ اور اس کی قیادت کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالیں اور پی ٹی ایم کی قیادت پر انڈیا اور افغانستان کا ایجنٹ ہونے کے الزامات لگائے۔

پاکستان تحفظ موومنٹ کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو اگر کسی سطح پر درست بھی مان لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاست کے خلاف کام کرنے والی کسی بھی تحریک کے جواب میں ریلیاں اور جلسے منعقد کرنا حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے یا ان کے خلاف ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کارروائی عمل میں لانی چاہئے۔ کیا پاکستان کا تحفظ اب صرف ریلیوں اور جلسوں سے وابستہ ہے؟ پختون تحفظ موومنٹ کے قائد منظور پشتین پر غیر ملکی ایجنسیوں کی جانب سے فنڈنگ کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ اگر منظور پشتین کا کسی سطح پر کسی غیرملکی سے رابطہ ہو بھی تو اس کی کال پر پشاور جلسے میں اکھٹے ہونے والے ہزاروں افراد بھی کیا غیر ملکی ایجنسیوں کے ایجنٹ ہیں، اگر ایسا ہے تو ان عناصر کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جائے اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس تحریک کی مخالفت میں جلسے اور ریلیاں منعقد کرنے کی بجائے ان کے سیاسی، سماجی، آئینی اور بنیادی انسانی حقوق کے مطالبات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور ان کے مطالبات کو پورا کرنے کیلئے ریاستی اداروں کی جانب سے اقدامات کیے جائیں تاکہ جنگ سے متاثرہ علاقوں کے شہریوں کے تحفظات کو دور کیا جاسکے ۔

گزشتہ چند روز سے سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پی ٹی ایم اور اسکی قیادت کے خلاف منفی پروپگینڈہ کیا جارہا ہے۔ کابل میں چند افغان شہریوں کی جانب سے پی ٹی ایم سے اظہار یکجہتی کے لئے دیے جانے والے دھرنے کو جواز بنا کر میڈیا کے ذریعے اس تحریک کو افغانستان حکومت کی جانب سے “سپانسپرڈ” تحریک ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ جواز دیتے ہیں کہ  ملک کے خلاف ایک منظم سازش ہورہی ہے۔  سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا سیاسی، سماجی، آئینی اور بنیادی انسانی حقوق کا مطالبہ غیر قانونی ہے۔ کیا ان سارے حقوق سے قبائلوں کو محروم نہیں رکھا گیا ہے اور کیا فاٹامیں چیک پوسٹوں پر لوگوں سے بدسلوکی اور بدتمیزی کے واقعات رونمانہیں ہورہے ہیں۔کیا ملک بنیادی حقوق مانگنے  سے ٹوٹتے ہیں  یا حقوق غصب کرنے سے؟

قابل غور بات یہ ہے کہ سارے ترقی پسند اور قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی منظورپشتین کی حامیت نہیں کررہے، حتیٰ کہ صوبے کی سب سے بڑی قوم پرست جماعت اے این پی بھی اس تحریک کی حمایت نہیں کررہی۔ یہا ں تک کہ عوامی نیشنل پارٹی نے ذیلی تنظیم نیشنل یوتھ آرگنائزیشن کے مرکزی آرگنائزر محسن دواڑ کو پی ٹی ایم کی سیاست میں متحرک کردار ادا کرنے پر عہدے سے ہٹا دیا ہے۔اب سوال یہ اٹھتاہے کہ میڈیا ٹرائل کے باوجود پی ٹی ایم کے جلسے اتنے کامیاب کیوں ہو رہے ہیں ، ہزاروں کی تعداد میں عوام کی شمولیت کا راز کیا ہے اور ہر پشتون انہیں چندہ دینے پر امادہ کیوں ہے؟کیاان سب سوالوں کا جواب فورسز کی وہ نا قص پالیسیاں ہیں جن کے ذریعے اپنی عوام کے ساتھ وہ رویہ اور سلوک اختیار کیا گیا جو دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے خلاف ہونا چاہیے تھا۔نوجوان قیادت پی ٹی ایم کی اس تحریک کو اس حد تک کامیاب بنانا چاہتی ہے کہ فاٹا کو ہر قسم کی تکالیف سے نجات ملے،وہاں امن و سکون،ترقی اور خوشحالی آئے اور فاٹا کے عوام ملک کے دیگر حصوں کے عوام کی طرح خوشحال زندگی گزارسکیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...